دیوار ریگ
کلام : فرح جبین
پاکیزہ ھواؤں نے
عمر رواں کو ساتھ لے
کچھ ریگ کو اک نخلستان میں جمع کیا
تہہ در تہہ ,تہہ در تہہ
وقت نے اونچا کیا
ہر روز اسکو
صبح کی پاکیزہ شبنم نے سینچا کیا
اس مجمع ریگ پر یہ گماں گزرا
کہ شاید یہ اتنی مضبوط ھو گئی
کہ اپنے وجود سے اک سچائی
کا گھر تعمیر کر دے گی
اک دیوار حفاظت کہلائے گی
اور پھر کچھ یوں ھوا
اک کارواں کا گزر ھوا
اس کارواں میں سچائیوں کے
علمبردار بستے تھے
جن کے قدموں کی دھمک سے
دشت کے ٹیلے لرزتے تھے
جن میں ایک غرور ذات بستا تھا
جن کے دل میں غرور انسان جاگزیں تھا
سچے جذبوں کی آماجگاہ تھا
تو وہ دیوار ان کے قدموں سے لپٹ گئی
اس کی ریگ ان کی تپش سےدھواں ھو گئی
دیوار کا گماں ٹوٹا
یقین ذات کہیں ھواؤں میں بکھر کر چور ھو گیا
جب کارواں گزر گیا
دیوار ریگ کے ذرے دشت کے ٹیلوں
میں شامل ھو گئے
گمان ذات اس دیوار کا ھواؤں میں بکھر گیا
کچھ دھول باقی رہ گئی
جسے اس رات کی پاکیزہ شبنم نے
پھر سے اک تہہ میں شامل کر دیا
❤️