خود انحصاری اور نظریہ اقبال
9نومبر اقبال ڈے کے حوالے سے خصوصی تحریر
علامہ پیر محمد تبسم بشیر اویسی سجادہ نشین مرکز اویسیاں نارووال پنجاب پاکستان
اللہ جل مجدہ نے اپنی جملہ مخلوقات میں سے نوع انسان کو ”لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْ اَحْسَنِ تَقْوِیْم”کے مقام و مرتبہ سے سرفراز فرمایا اور اسی حضرت انسان کو اپنی زمین پر اپنی نیابت کے مرتبہ جلیلہ سے سرفراز فرمایا۔ فہم و شعور کی نعمت عظیمہ بھی انسان ہی کے حصہ میں آئی تاکہ وہ حق وباطل اور ایمان و کفر میں تمیز کر سکے ۔ ”وَھَدَیْنَہُ النَّجْدَیْنِ” فرما کر اللہ رب العزت نے اس کے سامنے دونوں راہیں رکھ دیں کہ وہ صراط مستقیم پر گامزن ہو کر قرب الہٰی کی منزلوں کو طے کرتا ہو اوہ مقام معرفت حاصل کر لے کہ بقول اقبال:
ع خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے
اور اگر اپنے فکر و شعور کی رہنمائی میں طغیانی و سرکشی کی راہ اختیار کرنا چاہے تو اس کا اختیار بھی اسے تفویض کر دیا گیا ۔
ہم اپنی خوش بختی پر جتنا بھی ناز کریں کم ہے کہ اللہ جل مجدہ نے ہمیں اپنے محبوب علیہ السلام کا امتی ہونے کا شرف عطا فرمایا اور کیا اللہ کا یہ احسان عظیم نہیں کہ ہم اللہ جل مجدہ کے ذکر کے ساتھ بارگاہ رسالت مآب ۖ میں عقیدت کے پھول نچھاور کرنے کی سعادت سے بہرہ مند ہو رہے ہیں ۔
آئیے آسی جون پوری کی صدائے محبت میں اپنی آواز ملا کر یہ سلام عقیدت پیش کرنے کی سعادت حاصل کریں ۔
وہاں پہنچ کے یہ کہنا صبا سلام کے بعد کہ تیرے نام کی رٹ ہے اللہ کے نام کے بعد
تعلیمات نبوی کی روشنی میں ایک مسلمان کی حیثیت سے ہماری عزت و توقیر کا معیار اور بنیاد ہمارا غیر متزلزل ایمان ہے ۔جب مومن صادق توحید اور رسالت کی صداقت کی گواہی دیتا ہے تو پھر کوئی طمع ،حرص، ترغیب ،ترہیب ،اس کے ایمان کو متزلزل نہیں کر سکتی ۔راہ مستقیم سے ہٹانے اور ایک کے سامنے سر جھکانے کے لئے دشمنان اسلام ہر تدبیر اور حربہ استعمال کرتے ہیں لیکن محمد رسول اللہ ۖ کا اُسوہ حسنہ پوری آب و تاب کے ساتھ اپنے متبعین کی رہبری و رہنمائی کا سامان کر رہا ہوتا ہے ۔
ذرا چشم تصور میں وہ منظر لائو کہ سردار ان قریش میں سے عتبہ دنیا کی تمام متاع عزیز کی پیشکش کے لئے بیٹھا ہے ۔مال و ثروت ، جاہ و اقتدار سب کچھ پیش کر رہا ہے مگر پیغمبر خدا حضرت محمد رسول اللہ ۖ عجز و انکسار کا پیکر بنے ایک ہی جواب ارشاد فرماتے ہیں:”کہ دنیا کی کوئی چیز مطلوب نہیں مقصود صرف اعلائے کلمة الحق ہے ”اور پھر وہ موقع تو بڑی ازمائش کا موقع تھا جب کفالت کرنے والے محترم چچاپیار بھرے انداز میں بارگاہ نبوت میں یہ عرض کر رہے تھے کہ اے جان عم! مجھ پر تنا بوجھ نہ ڈالو کہ میں برداشت نہ کر سکوں اور جواباً عزم و ثبات کے کوہ گراں امت مسلمہ کا ہادی و راہنما حضرت محمد ۖ قیامت تک آنے والی امت مسلمہ کے ہر فرد کو کیا خوبصورت درس دے رہے تھے ، فرمایا: اے چچا ! اگر یہ میرے دائیں ہاتھ پر سورج اور بائیں ہاتھ پر چاند رکھ دیں کہ میں اپنے فرض سے باز آجائوں تو یہ نہیں ہو سکتا ۔یہ کام پورا ہو گا یا میں خود اس راہ میں جان کی بازی ہار جائوں گا۔
جب فرد اور جماعت اس جذبہ ایمانی سے سرشار ہوتے ہیں تو ان کا جذبہ عزت نفس ،حمیت اور خودی پوری طرح بیدار ہوجاتی ہے ۔پھر ایک خدا کے سامنے جھکنے والی اُمت کے سر کٹ سکتے ہیں مگر،اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی کے آگے جھک نہیں سکتے کے آخری رسولۖ کا یہ ارشاد ہمارے لئے مشعل راہ ہے کہ جس نے برضا و ترغیب ذلت کو قبول کر لیا وہ ہم میں سے نہیں ۔
مقاطعہ بنو ہاشم پر نظر ڈالو۔ تمام قبائل قریش نے متفقہ طور پر ایک تحریر ی معاہدہ لکھا کہ حضرت محمد ۖ ،بنوہاشم اور ان کے تمام حامیوں سے یکلخت تمام تعلقات قطع کر دئیے جائیں گے کہ نہ کوئی شخص بنو ہاشم سے نکاح کرے اور نہ ان سے میل جول رکھے جب تک کہ بنو ہاشم رسول اللہ ۖ کو قتل کے لئے ہمارے حوالے نہ کر دیں ۔اس حصار میں مسلمانوں نے کیکر کے پتے کھا کر زندگی بسر کی ۔کھال کے سوکھے ٹکڑوں پر گزارا کیا اور ایک خاص غور طلب تدبیر کفار کی جانب آپ کی توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ جب کوئی تجارتی قافلہ مکے آتا تو ابو لہب یہ اعلان عام کرتا کہ کوئی تاجر اصحاب محمد ۖ کو کوئی چیز عام نرخوں پر فروخت نہ کرے بلکہ ان سے ”اَضْعَافاً مُّضٰعَفَةً۔ کی قیمت لے اور اگر کوئی نقصان یا خسارہ ہو تو اس کا میں ذمہ دار ہوں ۔صحابہ خریدنے کے لئے آتے مگر نرخ کی گرانی کا یہ عالم دیکھ کر واپس چلے جاتے ۔ایک طرف اپنی تہی دستی ،دوسری طرف کفار کی یہ چیرہ دستی ،بھوک سے نڈھال ،بچوں کا تڑپنا اور بلبلانا مگر کسی کے آگے ہاتھ نہ پھیلانا اور پوری جرأت اور عزم کے ساتھ اپنے مؤقف پر قائم رہنا” خود انحصاری” بلکہ یوں کہیے کہ ایک مسلمان کی حیثیت سے ”اللہ انحصاری” کی ایسی مثال تاریخ عالم میں بہت کم دیکھنے میں آئے گی ۔
جن قوموں میں فقر و فاقہ کو برداشت کر کے اللہ رب العزت کے عطا کر دہ وسائل پر انحصار کر نے کا یہ حوصلہ پیدا ہو جاتا ہے تو انقلابات زمانہ ان کے قدم چومیں ہیں ۔در حقیقت یہ فاقہ مستیاں ہی ان کے اندر جینے کا حوصلہ اور ترقی طعنہ نہیں بلکہ فخر و مباہات کا نشان بن جاتی ہے ۔دنیا ئے فکر کا عظیم راہِ نور و حکیم الامت علامہ اقبال اسی جانب ہماری توجہ مبذول کر تا ہے :
اک فقر سکھاتا ہے صیاد کو نخچیری اک فقر سے کھلتے ہیں اسرار جہانگیری
اک فقر سے قوموں میں مسکینی و دلگیری اک فقر سے مٹی میں خاصیت اکسیری
اک فقر سے شبیری اک فقر میں ہے میری میراث مسلمانی، سرمایہ شبیری
پیغمبر اسلام علیہ السلام ایک مسلم فرد سے لے کر اجتماعی طور پر پوری ملت اسلامیہ کو خود داری اور عزت نفس کا پاسبان دیکھنا چاہتے ہیں ۔فرد کو تبذیر اور اسراف سے اسی لئے منع فرمایا تاکہ وہ اپنے محدود وسائل میں رہ کر با عزت زندگی گزار سکے اور کسی دوسرے کا دست نگر نہ بنے۔
ذرا غور تو کیجئے !تھوڑی دیر کے لئے اپنی توجہ اپنے گھر بار، کار وبار زندگی سب کچھ چھوڑ کر مدینة النبی ۖ میں پہنچنے والے جانثاران محمد ۖکی اس قدسی صفت جماعت پر نظر ڈالئے ۔نہ گھر ، نہ جائیداد ،نہ ذریعہ روزگار لیکن اُمت کا معمار ان میں جینے کا حوصلہ پیدا کرتا ہے ۔اپنے وسائل کو بروئے کار لانے کی ہمت سے نوازتا ہے ،تو کل علی اللہ کی دولت لازوال سے سرفراز کرتا ہے تو پلٹ کر دیکھو تو سہی کہ مکے سے چھپ کر نکل کر آنے والے دس سال بعد کس شان سے مکے کی گھاٹیوں کو عبور کرتے ہوئے حدود حرم میں داخل ہو رہے ہیں ۔وہی مکہ جس کے تپتے ہوئے ریگزاروں پر بلال ویاسر کو ننگے جسموں کے ساتھ تڑپایا جاتا تھا۔جہاں کبھی ان مظلوموں کی دلدوز چیخ و پکا رسنائی دیا کرتی تھی ۔ اس مکہ کے دست و جبل سے آج اللہ رب العزت کی تکبیر و تقدیس کی صدائے بارگشت سنائی دے رہی ہے ۔
مجھے یہ کہنے میں ذرہ برابر تامل نہیں کہ مسلمان صرف اپنی ذات پر بھروسہ نہیں کرتا ۔اس کے اعتماد اور خود! انحصاری کی بنیادی اللہ انحصاری کا جذبہ ہوتا ہے ۔اس کے ارادوں کی مضبوطی توکل علی اللہ کے عقیدہ محکم میں پنہاں ہوتی ہے ۔اگر خالد بن ولید رضی اللہ عنہ زہر کی پڑیا کو منہ میں ڈال لیتے ہیں ،اگر قادسیہ کے غازی اپنے گھوڑے دریا کی لہروں کے سپرد کر دیتے ہیں اور فاروق اعظم اکناف عالم میں اسلام کا پھر یرا لہراتے ہیں تو ان کے جسم و جان میں خون کی طرح یہ عقیدہ گردش کر تا ہے :اِنْ یَّنْصُرْکُمُ اللّٰہُ فَلَا غَالِبَ لَکُمْ ،وَاِنْ یَّخْذُلْکُمْ فَمَنْ ذَالَّذِیْ یَنْصُرْکُمْ مِنْ بَعْدِہ،وَعَلَی اللّٰہ فَلْیَتَوَکَّلِ المُؤْمِنُوْن۔”اور اگر فرمائے مدد تمہاری اللہ تعالیٰ تو کوئی غالب نہیں آسکتا تم پر اور اگر ساتھ چھوڑ دے وہ تمہارا تو کون ہے جو مدد کرے گا تمہاری اس کے بعد اور صرف اللہ پر بھروسہ کرنا چاہیے ایمان والوں کو۔”
ہمارے آقا ،ہمارے ہادی اور رہنما حضرت محمد رسول اللہ ۖ نے اپنی تعلیمات کے لئے خود اپنی ذات کو نمونہ عمل کے طور پر پیش کیا ۔ایمان والوں نے زبان نبوت سے اپنے وسائل تک محدود رہنے کا صرف درس نہیں سنا بلکہ وہ پیغمبر اعظم و آخرۖ جس کے اشارہ پر مردان عرب اپنی گردنیں کٹانا دنیا و آخرت کی سب سے بڑی نعمت سمجھتے تھے ۔ انہیں اپنے پیٹ بر دو پتھر باندھے ہوئے بھی دیکھا ۔ خندق کھودنے والے قدسی صفت صحابہ نے اس فلک کے نیچے یہ منظر بھی دیکھا کہ پیغمبر خدا حضرت محمد ۖ اپنے سر اقدس پر مٹی کی ٹوکری اُٹھائے آرہے ہیں ۔سرور کونین ۖ نے وسائل میں محدود رہنے کا درس دیا تو اپنے کاشانہ نبوت کا یہ نمونہ پیش کیا کہ کئی کئی دن تک چولہا جلانے کی نوبت نہ آئی ۔
آج بھی اگر عمائدین حکومت اپنے نمونہ عمر کے ساتھ اللہ انحصاری پر مبنی خود انحصاری کے جذبے کا عملی نمونہ پیش کریں اور اُمت فرامین رسول اللہ ۖ کی روشنی میں ”وَمَنْ یَّتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ فَھُوَ حَسْبُہ” کا نعرہ بلند کر کے قومی تعمیر نو کے عمل میں شب و روز اپنی اللہ داد صلاحتیوں کو صرف کرے تو یہود وہنود ،کوئی بھی دشمن اسلام رحمة اللعالمین ۖکی اس اُمت کے مقابلے میں صف آراء نہیں ہو سکتا۔اقبال کہتے ہیں !
فضائے بدر پیدا کر فرشتے تیری نصرت کو اُتر سکتے ہیں گردوں سے قطار اندر قطار اب بھی
تبوک میں پیش آنے والاواقعہ میرے سامنے ہے کہ جب مسلم سپاہ کے پاس کھانے کے لئے کچھ باقی نہ رہا اور اونٹ ذبح کرنے کی تجویز زیر غور آئی تو سرکار مدینہ ۖ نے ہر مسلم سپاہی سے جو کچھ اس کے پاس تھا اسے بارگاہ نبوت میں لانے کے لئے ارشاد فرمایا،سپاہیوں کے پاس جو کچھ بھی تھا جب پیش کر چکے تو اللہ کے رسول ۖ نے اپنی نبوت کے ہاتھ بارگاہ الوہیت میں دُعا کے لئے بلند کر دئیے ۔سب کے برتن غلے سے بھر گئے اور کچھ غلہ وافر مقدار میں بچ بھی گیا ۔ علامہ اقبال نے فرمایا :
آج بھی ہو جو براہیم کا ایماں پیدا آگ کر سکتی ہے انداز گلستان پیدا
اے راہنمایان قوم!اے دانشوران عظام! میں اقبال کا یہ پیغام آپ کی خدمت میں پہنچانے کی جسارت کر رہا ہوں کہ اپنے گردوپیش کو نہ دیکھئے اللہ کے باغیوں کے حق پرستوں کو مٹانے کی سازشوں کی پروانہ کیجئے ۔”وَاَعِدُّوْا لَھُمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ ” کے فرمان رب پر عمل کیجئے۔ امریکی سازشوں اور یہودی نفرتوں کی پرواہ نہ کرو۔قوم کو غیروں کی خوشنودی کے لئے قتل نہ کرو۔اپنے ملک کو اہل کفر کی خفیہ سازشوں سے آتش کدہ نہ بنائو ۔اسلام وحامیانِ اسلام کو دہشت گردی سے تعبیر نہ کرو۔حقوق نسواں کے نام پر یہود و ہنود کی تہذیبی و ثقافتی یلغار کو پنپنے نہ دو۔ گستاخِ رسول ۖ سے نرم گوشہ نہ رکھو ۔غیر ملکی امداد پر نظر رکھنے کی بجائے اپنی قوم کے ہنر مندنوجوانوں سے ملکی وسائل بروئے کار لائو۔جاگیردارانہ ونوابانہ انداز زندگی کو چھوڑ کر اسلاف کی حیاتِ روشن کا نمونہ بن جائو ۔لسانی و نسلی تعصبات کا قلع قمع کر کے ملتِ اسلامیہ کو ملتِ واحدہ کی تسبیح میں یکجا کیجئے۔حب رسول ۖ کی شمع کو اپنے سینوں میں فروزاں کیجئے ۔لاالہ الا اللہ کا صبح و شام ورد کیجئے ۔اللہ جل شانہ اپنی نصرت و اعانت کا کیا ہوا وعدہ ضرور پورا فرمائے گا۔بقول اقبال:
خودی کا سر نہاں لا الہ الا اللہ خودی ہے تیغ ، فساں لا الہ الا اللہ
یہ دور اپنے براہیم کی تلاش میں ہے صنم کدہ ہے جہاں ، لا الہ الا اللہ
کیا ہے تو نے متاع غرور کا سودا فریب سود و زیاں ! لا الہ الا اللہ
یہ مال و دولت دنیا، یہ رشتہ وپیوند بتان وہم و گماں ، لا الہ الا اللہ
خرو ہوئی ہے زمان و مکان کی زناری نہ ہے زماں ،نہ مکاں ،لاالہ الااللہ
یہ نغمہ فصل گل ولا الہ کا نہیں پابند بہار ہو کہ خزاں،لا الہ الا اللہ
اگر چہ بت ہیں جماعت کی آستینوں میں! مجھے ہے حکم اذاں ، لا الہ الا اللہ