……ذرا نقطہ تو لگا ….

بوٹی
……ذرا نقطہ تو لگا ….
ظہر کی نماز کے بعد دعوت کھانے کیلئے ایک ہجوم ساشامیانے میں تھا۔ایک متوسط طبقے کا باپ اپنی بیٹی کی شادی میں آئے ہوئے مہمانان کی خاطر مدارات میں مصروف تھا۔دلہن کے دو بھائی جو بظاہر توبلوغت کو چھورہے تھے لیکن ان کے چہروں کو دیکھ کر لگتا تھا یہ بہت زیادہ پختہ عمروں کے ہیں۔کیوں کہ جس کے گھر میں شادی کی دعوت ہو اسے بہت زیادہ ہی فکر ہوتی ہے،جیسے کہیں کھانا ختم نہ ہوجائے،کہیں کوئی مسئلہ نہ پیدا ہوجائے،دولہے والے ناراض نہ ہوجائیں ،مہمانان خفا نہ ہوجائیں۔لیکن کسی کو بھی بیٹی کے باپ یا اس کے بھائیوں سے کوئی سروکار نہ تھا۔زیادہ تر افراد کوبس یہی فکر تھی کہ بوٹی اچھی ملنی چاہیئے۔اس لئے زیادہ تر اپنی پہچان کے کھانا تقسیم کرنے والے افراد کو آوازیں دے رہے تھے۔اور یوں آوازیں لگا رہے تھے “ذرا نقطہ تو لگا”.
میں بھی ایک کنارے کرسی پربیٹھااپنے دوست کا منتظر تھا جو کچھ دیر میں آنے والا تھا۔بے خیالی میں شامیانے میں کھارہے مہمانان کی جانب میری نظریں گردش کرنے لگیں۔میں بار بار ایک شخص کی جانب متوجہ ہوجاتا جب وہ بوٹی کیلئے زور سے آوازیں دیتا۔تقریباً نصف گھنٹہ گذرنے کو تھا۔تین چار جماعتیں اٹھ چکی تھیں اور ’حضرت‘بدستور جاری تھے۔اتنی بوٹیاں تو اپنے گھر ماہ بھر میں بھی نہ کھائیں جتنی یہاں نوش فرما لی تھیں،میں نے من ہی من مسکرا کر سوچا۔۔۔۔۔۔۔تبھی ان صاحب کی رکابی میں خدمت کررہے نوجوان کی جانب سے بنا بوٹی کے پلاؤ پیش ہوجانے پر سارے شامیانے کا ماحول تبدیل ہوگیا۔حضرت ہاتھ جھٹک کر ایسے طیش میں بڑبڑاتے ہوئے اٹھے جیسے انکی کسی نے عزت ہی نیلام کردی ہو۔”ایسی دعوت ۔۔۔۔۔! ہونہہ۔۔۔۔۔“سارا مزہ کرکرا کردیا۔اس سے اچھا تو میں گھر پر ہی کھا لیتا۔
تبھی دلہن کا باپ دوڑا دوڑا آیا اور خدمت پر مامور نوجوان کو جس نے بنا بوٹی کے حضرت کو پلاؤ پیش کردیا تھا خوب ڈانٹا۔اور حضرت سے کہا۔”آپ بیٹھئے،ناراض نہ ہوں۔“ لیکن حضرت کا تو غصہ ساتویں آسماں کی طرف رواں تھا۔”نہیں،نہیں۔۔۔۔اب مجھے ایسا بے عزتی والا کھانا نہیں کھانا۔۔۔اگر بوٹی کا صحیح نظم کرنے کی حیثیت نہیں تھی تو شادی ہی نہیں کرنی تھی نا۔۔۔۔۔! دلہن کے باپ کے چہرے کا رنگ فق ہو گیا۔بھائیوں کا بھی چہرہ اتر سا گیا۔میں بھی اٹھ کر قریب ہوگیا۔اور خاموشی سے سب کچھ دیکھ اور سن رہا تھا۔کچھ کہنا چاہا لیکن اس بات کا یقین تھا کہ اس پر بھی دلہن کے بھائیوں اور والد کو تکلیف ہوجائیگی اور انہیں یہ بھی سننا پڑےگا کہ”لو۔۔۔! اب تو حد ہی ہوگئی،دلہن والوں نے تو مہمانوں کی پلیٹوں پر بھی اپنے جاسوسوں کی نظریں لگوادی ہیں۔۔۔ حضرت نے تحفہ تحائف قبول کرنے والی میز پر جیب سے پچاس روپے کا نوٹ نکال کر پٹکا جیسے کسی پر احسان کررہے ہوں اوراپنا نام پتہ لکھوانے لگے۔وہاں بھی چہرہ تمتما رہا تھا اور بدستور اول فول بکے جارہے تھے۔انکے چلے جانے کے بعد میں نے دلہن کے والد سے پوچھا۔”چاچا!کون تھے یہ حضرت؟“چار جماعتیں اٹھنے تک صرف بوٹی تو کھائی انہوں نے اور صرف ایک پلیٹ میں نقطہ نہیں لگا تو آگ بگولہ ہوگئے۔چاچا نے کہا ۔”بیٹا،مجھے بھی پتہ ہے۔میں بھی کب سے دیکھ رہا تھا،جیسے تم نے دھیان دیا۔“لیکن ہر کوئی یہ نہیں سوچتا۔اس دعوت میں ہماری تین ماہ کی محنت شامل ہے لیکن زیادہ ترمہمانوں کیلئے یہ صرف چند لمحوں کی دعوت ہے”جس میں نقطے کی بہت اہمیت ہے۔“

ازقلم:انصاری نفیس جلیل
مالیگاؤں مہاراشٹر
09021360933

اپنا تبصرہ لکھیں