ذوالحجہ میں بال اور ناخن نہ کاٹنا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بہت سے لوگوں نے یہ مسئلہ پوچھا ہے اور اس کو سمجھنے کی کوشش کی ہے کہ ہم یوکے اور یورپ میں رہنے والے لوگ جو عام طور پر دوسرے ممالک میں قربانیاں بھیجتے ہیں ہمیں نہیں معلوم ہوتا کہ ہماری قربانی اسی دن ہوئ جب ہماری عید ہے، دوسرے دن ہوئ یا تیسرے دن ہوئ؟ تو ہمارے لئے بال اور ناخن کاٹنے کے بارے میں کیا حکم ہے؟ عید والے دن ہر کسی کا دل چاہتا ہے کہ تزئین و آرائش کی جائے۔
گذارش یہ ہے کہ اس سلسلے میں سب سے صحیح حدیث وہ ہے جو صحیح مسلم میں نقل ہوئ ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا ” اذا دخل العشر و اراد بعضکم ان یضحی فلا یاخذن شعرا ولا یقلمن ظفرا”
جب ذوالحجہ کا پہلا عشرہ شروع ہو جائے اور تم میں سے جس نے قربانی کا ارادہ کیا ہوا ہو تو وہ لوگ اپنے بال اور ناخن نہ کاٹیں۔
اس حدیث میں کہیں یہ نہیں فرمایا گیا کہ ” وہ لوگ اس وقت تک بال اور ناخن نہ کاٹیں جب تک قربانی نہ کر لیں یا ان کی قربانی ذبح نہ ہو جائے” بلکہ پہلے عشرے کا ذکر ہے اور ” عشرے ” میں دس دنوں کا پورا کرنا ضروری نہیں ہے دس راتیں پوری ہو جائیں تو بھی اس مستحب حکم پر عمل پورا ہو جاتا ہے۔ اور پھر عید کے لئے تیار ہونا تزئین و آرائش کرنا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت، اظہار نعمت کا طریقہ اور شکر نعمت ہے اسی لئے تمام فقہاء نےعید کی تیاری کا جو وقت بیان کیا ہے اس میں ذوالحجہ کی پہلی دس راتوں کو شمار کر کے تزئین و آرائش کی اجازت دی ہے لہذا امام شافعی کے نزدیک دسویں رات کا نصف گذر جائے تو آپ عید کی تیاری شروع کر سکتےہیں ( بعد نصف اللیل )، امام مالک کے نزدیک رات کے چھٹے حصے سے عید شروع ہو جاتی ہے ( سدس اللیل ) احناف کے نزدیک فجر کی نماز کے بعد ( بعد صلوہ الصبح ) اور حنابلہ دن نکلنے کے بعد ( بعد الصبح )۔ لہذا عید کی تیاری کے لئے عید کے دن بال اور ناخن کاٹے جا سکتے ہیں اس میں قربانی کے جانور کے ذبح ہونے یا نہ ہونے کا کوئ تعلق نہیں ہے ۔ویسے بھی یہ تو ایک ” سمبولک” symbolic ” چیز ہے جو حج پر نہیں گئے وہ بال اور ناخن نہ کاٹ کر حاجیوں کی کاپی کرکے اللہ تعالی کی رضا حاصل کرنے کے لئے اس درویشانہ حالت کا اظہار کرتے ہیں لہذا اپنے حالات اور ماحول جتنا ہو سکے وہ کافی ہے۔ واللہ اعلم بالصواب۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بہت سے لوگوں نے یہ مسئلہ پوچھا ہے اور اس کو سمجھنے کی کوشش کی ہے کہ ہم یوکے اور یورپ میں رہنے والے لوگ جو عام طور پر دوسرے ممالک میں قربانیاں بھیجتے ہیں ہمیں نہیں معلوم ہوتا کہ ہماری قربانی اسی دن ہوئ جب ہماری عید ہے، دوسرے دن ہوئ یا تیسرے دن ہوئ؟ تو ہمارے لئے بال اور ناخن کاٹنے کے بارے میں کیا حکم ہے؟ عید والے دن ہر کسی کا دل چاہتا ہے کہ تزئین و آرائش کی جائے۔
گذارش یہ ہے کہ اس سلسلے میں سب سے صحیح حدیث وہ ہے جو صحیح مسلم میں نقل ہوئ ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا ” اذا دخل العشر و اراد بعضکم ان یضحی فلا یاخذن شعرا ولا یقلمن ظفرا”
جب ذوالحجہ کا پہلا عشرہ شروع ہو جائے اور تم میں سے جس نے قربانی کا ارادہ کیا ہوا ہو تو وہ لوگ اپنے بال اور ناخن نہ کاٹیں۔
اس حدیث میں کہیں یہ نہیں فرمایا گیا کہ ” وہ لوگ اس وقت تک بال اور ناخن نہ کاٹیں جب تک قربانی نہ کر لیں یا ان کی قربانی ذبح نہ ہو جائے” بلکہ پہلے عشرے کا ذکر ہے اور ” عشرے ” میں دس دنوں کا پورا کرنا ضروری نہیں ہے دس راتیں پوری ہو جائیں تو بھی اس مستحب حکم پر عمل پورا ہو جاتا ہے۔ اور پھر عید کے لئے تیار ہونا تزئین و آرائش کرنا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت، اظہار نعمت کا طریقہ اور شکر نعمت ہے اسی لئے تمام فقہاء نےعید کی تیاری کا جو وقت بیان کیا ہے اس میں ذوالحجہ کی پہلی دس راتوں کو شمار کر کے تزئین و آرائش کی اجازت دی ہے لہذا امام شافعی کے نزدیک دسویں رات کا نصف گذر جائے تو آپ عید کی تیاری شروع کر سکتےہیں ( بعد نصف اللیل )، امام مالک کے نزدیک رات کے چھٹے حصے سے عید شروع ہو جاتی ہے ( سدس اللیل ) احناف کے نزدیک فجر کی نماز کے بعد ( بعد صلوہ الصبح ) اور حنابلہ دن نکلنے کے بعد ( بعد الصبح )۔ لہذا عید کی تیاری کے لئے عید کے دن بال اور ناخن کاٹے جا سکتے ہیں اس میں قربانی کے جانور کے ذبح ہونے یا نہ ہونے کا کوئ تعلق نہیں ہے ۔ویسے بھی یہ تو ایک ” سمبولک” symbolic ” چیز ہے جو حج پر نہیں گئے وہ بال اور ناخن نہ کاٹ کر حاجیوں کی کاپی کرکے اللہ تعالی کی رضا حاصل کرنے کے لئے اس درویشانہ حالت کا اظہار کرتے ہیں لہذا اپنے حالات اور ماحول جتنا ہو سکے وہ کافی ہے۔ واللہ اعلم بالصواب۔