تحریر: ڈاکٹر شہلا گوندل
سردیوں کی ایک روشن صبح تھی ۔ناشتے کا وقت تھااور باورچی خانے میں زہرہ کافی بنا رہی تھی ۔اس کی عادت تھی کہ وہ ہر وقت گنگناتی رہتی تھی۔ یہ گنگناہٹ جیسے اس کی روح کی خاموشی کو پر کرتی تھی۔
اس وقت بھی وہ ایک پنجابی گانا گنگنا رہی تھی
“لنگ آجا پتن چناں دا یار”
علینا، جو زیادہ تر خاموش رہنے کی عادی تھی، کچن کے ٹیبل پر بیٹھی ڈبل روٹی کھا رہی تھی۔ کھانے کے بعد اس نے بے دھیانی میں بچا ہوا ٹکڑا ڈسٹ بن میں پھینک دیا۔ زہرہ کی نگاہ اس حرکت پر پڑی، اور اس نے جھٹ سے کہا، “یہ رزق، یہ خدا کا دیا ہوا تحفہ، یوں پھینکنا مناسب نہیں ہے”
علینا نے بے پروائی سے ہنستے ہوئے جواب دیا کہ ڈسٹ بن میں بھی تو اتنے مائیکرو آرگنزم ہوتے ہیں، جو اس کو اپنی خوراک بنا لیں گے۔ کچھ ان کا بھی خیال کریں “
زہرہ مسکرائی، جیسے کسی بچے کی معصوم بات سن لی ہو۔ وہ ڈسٹ بن سے وہ ٹکڑا نکال کر ایک پلیٹ میں رکھتے ہوئے بولی کہ :
“میں یہ پرندوں کو کھلاؤں گی کیونکہ پرندے جب یہ رزق کھاتے ہیں، تو اس سے میرے دل اور روح کو سکون ملتا ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے، جیسے میں خود ان کے ساتھ آسمانوں میں پرواز کر رہی ہوں “
علینا کو یہ بات بہت عجیب لگی۔ اس نے سوال کیا کہ زمین کے ان جانداروں کے بارے میں کیا جو مٹی میں رہتے ہیں اور چیزوں کو ڈی کمپوز کرتے ہیں۔
زہرہ نے گہری سانس لی اور کہا، “بیٹا، ان کے لیے ہمارا جسم ہے نا! ایک دن یہ جسم زمین کا حصہ بنے گا، مٹی میں مل جائے گا، اور یہ مخلوقات اسے اپنی خوراک بنائیں گی مگر جو رزق میرے ہاتھ میں ہے، وہ میرا اختیار ہے۔ اور میں چاہتی ہوں کہ میرے آج کے رزق سے پرندے خوش ہوں۔ ان کی اڑان میرے دل کو سکون دیتی ہے، مجھے لگتا ہے کہ میری روح ان کے ساتھ آزاد ہو رہی ہے۔”
علینا کو یہ بات کچھ حد تک سمجھ آئی۔ وہ سوچ میں پڑ گئی کہ انسان کی زندگی صرف مادی وجود تک محدود نہیں، بلکہ روح کی روشنی بھی ضروری ہے۔
اگلی صبح وہ اپنی ماں کے ساتھ باہر نکلی۔ دونوں نے مل کر پرندوں کے لیے دانہ اور بچا ہوا کھانا رکھا۔ علینا کے دل میں ایک سکون کا احساس تھا، جیسے وہ بھی پرندوں کے ساتھ بلندیوں کو چھو رہی ہو۔ زہرہ نے مسکراتے ہوئے بیٹی کو دیکھا اور دل ہی دل میں شکر ادا کیا کہ علینا نے زندگی کا ایک نیا پہلو جان لیا تھا۔
یہ عمل صرف پرندوں کو دانہ ڈالنے کا نہیں تھا، بلکہ زندگی کے اصل معنی کو سمجھنے کا تھا۔ علینا نے جان لیا تھا کہ زندگی صرف کھانے پینے اور کام کرنے تک محدود نہیں، بلکہ اس میں روحانیت کا پہلو بھی شامل ہے۔ دوسروں کو دینا، اپنے ہاتھوں سے رزق تقسیم کرنا، خوشیاں بانٹنا، اور اپنی روح کو آزاد محسوس کروانا ہی اصل زندگی ہے۔