کلام: ڈاکٹر شہلا گوندل
وہ ذکیہ،
ستار کے تاروں میں خواب بُننے والی،
چاندنی راتوں جیسی نرم،
اور بارش کی پہلی بوند جیسی خنک
یونہی،
ہوا کی طرح میری سپیس میں آتی ہے،
سلام کے گلاب نچھاور کرتی ہے ،
اور پھر کوئی
نرالا سا چٹکلہ چھوڑ کر نکل جاتی ہے،
“میں تو کتابوں کی گہرائی میں تھی،
یا شاید ستار کے ساتھ ہمراز تھی،
اب ذرا سیر کو نکل رہی ہوں!”
کتابوں کی گلیوں کی مسافر،
علم کی روشنی میں گندھی،
اپنے ہر جملے میں کوئی چاند سا راز چھپا کر،
دلوں میں روشنی بھرنے والی
ایسی ہےوہ ذکیہ،
ہوا کی سرگوشی جیسی،
روشنی کی کرن جیسی
اور پھر،
جب زندگی کی تاریکیاں میرے چاروں طرف تھیں،
جب کردار کشی کے بادل گرج رہے تھے،
جب ٹویٹر کے ساحل پر،
میرے وجود کا سفینہ
سمندر میں ڈوب رہا تھا
اس کی ٹویٹر کال آئی
دکھے دل پہ مرہم کی دستک
اور کہا:
“کیسی ہیں؟ اپنا اور فیملی کا خیال رکھیں”
بس یہی دو جملے
جیسے کسی تھکے وجود پر شبنم برس جائے،
جیسے کسی ڈوبتے سفینے کو سہارا مل جائے
وہ میری ڈوبتےدل کے لیے بادبان بنی،
اپنی ہنسی اور لفظوں کے جادو سے
میرے غم کو گنگناہٹ میں بدل دیا
موٹیویشنل قوٹس بھیجتی رہی
ایسے جیسے کسی صحرا میں بارش ہو جائے،
کہتی:
“آپ ہو
تو یہ دنیا خوبصورت ہے
چلو،
یہ جنگ جیتنی ہے۔”
جب میرا لفظ “سہیلی”
سے اعتبار اٹھ گیا تھا
دوستی کا رشتہ
دھوکے کا آئینہ بن چکا تھا،
جب دل کسی پر بھی یقین سے قاصر تھا
اس نے جان بوجھ کر
مجھے “سہیلی” کہا،
میرا اعتبار مجھے لوٹایا
ایسے جیسے سیاہ رات کے بعد
صبح کا ستارہ سحر ہونے کی نوید دے
اور میں نے پھر سے یقین کرنا سیکھا
وہ میری خوشیوں کی ہمراز بنی،
میرے خوابوں میں میرے ساتھ چلی
میرے ہر قدم پر اس نے جشن منایا،
کہا:
“اٹھو،
یہ سفر تمہارے لیے ہے!”
اس کے ستار کی
دھنیں سن کر
میرے تخیل نے
پھر سے اڑان بھری
ذکیہ،
ستار بجانے والی ذکیہ!
جس کی باتوں نے
میری تخلیقی صلاحیتوں
کو ایسے رستہ دکھایا
جیسے کسی ویرانے میں
پہلی بار کوئی گلاب کھل جائے،
جیسے شام کے سائے میں
اچانک کوئی چراغ جل اٹھے
وہ میری شاعری کا سریلا استعارہ
خوابوں کے فلک کا چمکیلا ستارہ
بہتے جھرنے کی نغمگی لیے
اپنے ستار کی دھنوں کی طرح
کانوں میں رس گھولتی ہے