آج کا انتخاب
شاعر: ناصر کاظمی
—————————–
رات ملے کچھ یار پرانے انٹر کانٹی نینٹل میں
یاد آئے پھر کتنے زمانے انٹر کانٹی نینٹل میں
کتنے رنگا رنگ مسافر شانہ بہ شانہ رقص کناں
چھوڑ گئے کتنے افسانے انٹر کانٹی نینٹل میں
ان ہنستے ہونٹوں کے پیچھے کتنے دکھ ہیں ہم سے پوچھ
ہم نے دیکھے ہیں ویرانے انٹر کانٹی نینٹل میں
میخواروں کی صف سے پرے کچھ ایسے عالی ظرف بھی تھے
بھر نہ سکے جن کے پیمانے انٹر کانٹی نینٹل میں
میں کس کارن پچھلے پہر تک تنہا بیٹھا رہتا ہوں
کون میرے اس درد کو جانے انٹر کانٹی نینٹل میں
یہ کیا حال بنا لائے یہ کیسا روگ لگا لائے
تم تو گئے تھے جی بہلانے انٹر کانٹی نینٹل میں
ناصر تم لوگوں سے چھپ کے چپکے چپکے رات گئے
کیوں جاتے ہو جی کو جلانے انٹر کانٹی نینٹل میں