زبیر حسن شیخ
ہماری باتیں اگر سچ ہورہی ہیں تو اس میں تعجب کیسا… ہم نا پنڈت اور نہ ہی کو ئی عامل باوا ہیں کہ پیشن گوئی کریں …. بخدا ہمیں کبھی “حاضری” نہیں آتی.. جبکہ ہمارے ایک پڑوسی اکثرکسی حاضری کا ذکر کر کے نماز میں غیر حاضر رہتے ہیں… بلکہ کہتے ہیں انکی اہلیہ اور اماں کو بھی حاضری آتی ہے… انکی دیکھا دیکھی اب محلے میں ہر کوئی اٹھتے بیٹھتے جھوم جھوم کر حاضری کا اعلان کررہا ہے…. ان میں کچھ تو اپنے آپکو ہاروت و ماروت کے رشتے دار کہتے ہیں ……. کاش یہ لوگ ان حاضریوں سے دنیا کے چند مسایل حل کرسکتے … برصغیر کے نہ سہی کم از کم عراق و شام کے….الغرض ہمارے کچھ کہنے سے جو کچھ کبھی رونما ہوجاتا ہے تو اس میں کوئی حیرت نہیں…. ہم نے جو کچھ بھی دیکھا اور کہا وہ تو کوئی بھی ادنی انسان آسانی سے کہہ سکتا ہے … اگر آپ کسی شخض کو پیڑ کی شاخ پر آرے چلاتے دیکھو گے اور اسی شاخ پر وہ بیٹھا ہوا بھی ہو تو پیشن گوئی کی کیا حاجت… اگر کوئی ژالہ باری میں سر منڈھا کر کھلے سر نکلے گا تو ا سکے لہو لہان ہونے میں الہام اور کرامت کا کیا ذکر……یا کوئی ممولہ کسی باز کی پرواز دیکھ کر غصہ سے ہوا میں پھڑ پھڑائے گا تو ہر دو صورت میں اوپر ہی جائیگا، پھر بھلے چاچا اسحق کی کشش ثقل میں پہلے نیچے آئے اور پھر اوپر جائے، اور اس میں کونسی سائینسی تاویل اور کس خواب کی تعبیر… ایسی ہونی کو کمپیوٹر کی اصطلاح میں WYSIWYG کہتے ہیں اور جو “جیسا دیکھو ویسا پاو ” کا مخفف ہے… بس ہم نے بھی جیسا دیکھا ویسا پایا اور کہہ دیا – ہم نے مودی راجہ کی الکشن میں جیت دیکھکر…. یہی کہا تھا مری آنکھ دیکھ سکتی ہے….. اور تو کچھ نہیں کہا…. جبکہ فراز تو اسکے آگے بھی کیا کچھ کہہ گئے.. فراز جو ٹہرے ….. ہاں اب ہم پھر کچھ کہنا چاہتے ہیں .. نہیں نہیں اب کی بار ممولوں کے بارے نہیں، اور نہ ہی سر منڈھا کر ژالہ باری میں نکلنے کے بارے….. بلکہ اس بار مودی راجہ کا ریلوے بجٹ دیکھ کر کہنا چا ہتے ہیں کہ راجہ جی!! ماچس کی تیلی سے بجلی کا بلب نہیں جلتا….آپکی جماعت نے تو اٹل مہاراج کی رہنمائی میں کبھی انڈیا شائینگ کا نعرہ بلند کیا تھا.. آج تک دھلا ئی ہو رہی اور پھربھی شا ئینگ کا کچھ پتا نہیں…. راجہ جی جہاں ملک کے لاکھوں گھروں میں چراغ جلاتے جلاتے خود گھر کے چراغ گل ہورہے ہوں، جہاں مسافر اپنے اہل و عیال کے ساتھ بیس بیس گھنٹے “ریسٹ روم” میں بیٹھکر ریل کا سفر کرتے ہوں، جن کی زندگی بیل گا ڑی کیطرح گزرتی ہو…… وہاں برق رفتاری کا خیال احمقانہ نہیں تو کم از کم غیر منطقی ضرور ہے…براق صاحب کا کیا ہے انکے پاس توانا ئی کا ذخیرہ پڑا ہے اور وہ دنیا کی توانا ئی ختم کرنے پر تلے ہیں ..اور چین کے متعلق راوی چین ہی چین لکھتا ہے … پتا نہیں آپ نے “بلیٹ ٹرین” کا خواب کیسے دیکھ لیا….. ویسے جمہوریت میں خواب دیکھنا اور دکھلانا معیوب نہیں ہے.. خاصکر جب یہ خواب سرمایہ داری کی دیدہ دلیری سے دکھایا جا رہا ہو…. اور جب اس خواب میں رنگ بھی میڈیا کی مخروطی انگلیوں کا بھرا ہو…..
میڈیا کی مانے تو….. اب اسکے بغیر کو ئی چارہ بھی نہیں کہ میڈیا کے علاوہ کوئی کسی کی کہاں مانتا ہے …. بہر حال میڈیا کی مانے تو مودی سرکار رات دن عوام کی بھلا ئی کا سوچ کر سو نہیں پارہی …. جبکہ وہ populist Anti ہونے کا کھلے عام اظہار کر رہی ہے جسے میڈیا عوام کی بھلا ئی سے منسوب کررہا ہے اور کس ڈھٹا ئی سے اس منفی خیال کو مثبت بنا کر پیش کر رہا ہے …. بہرحال اب مودی حکومت عوام کی خاطر کسی قسم کا مالی خسارہ برداشت نہیں کریگی اور ماتا جمہوریت نے جس لاڈ پیار میں عوام کوبری عادتیں ڈالی ہیں وہ اب سب چھڑا دی جائینگی – یہ اور بات ہے کہ ان سے چھڑا کر الکشن میں کیے گیے وعدے کے مطابق اور نجکا ری کے تحت سرمایہ داروں کو پکڑا دی جائینگی، اور اس پکڑا پکڑی میں میڈیا کو خوب آنکھ مچولی کھیلنے کا موقع مل جائیگا…..کہتے ہیں اندھا کیا چاہے دو آنکھ .. جب کے یہاں تو اندھوں کو بارہ آنکھیں اور چار ہاتھ میسر ہورہے ہیں … جی ہاں وہی میڈیا جس نے وزیر اعظم من موہن کے ایک populist Anti تبصرے پر کتنا کہرام مچایا تھا، جب انہوں نے بڑی تکلیف سے لبوں کو جنبش دے کر یہ کہہ دیا تھا کہ روپیہ درختوں پر نہیں اگتا… الامان پھر میڈیا نے جو کہرام مچایا تھا …اور کانگریس کی توبہ کے وہ اس کہرام کے خلاف عوام کو رام بھی نہ کرسکی تھی ….اور نہ ہی حزب مخالف کو رام رام ….. وہ تو جب جب” ہری ہری ” کہتی تھی مخالفین اور شدت پسندوں کو یقین ہوجاتا تھا کہ وہ مسلمانوں کے ہرے رنگ سے متاثر ہوکرappeasement .کر رہی ہے …بیچاری کانگریس….بقول مرزا … زخم سر اچھا ہوجانے کے بعد بھی سر کھجاتی رہتی ہے……
علامہ آج ہوتے تو شاید کچھ یوں کہتے کہ “میڈیا کے ابلیس ہیں ارباب سیاست……. الغرض میڈیا کا کیا ہے جو مزاج یار میں آئے… لیکن سوال یہ ہے کہ جمہوریت میں کون کس کا یار ہے…عالمی سیاست میں کوئی کسی کا یار نہیں…. نہ حکومت عوام کی یار ہے اور نہ ہی عوام کسی کی ..جب امریکہ اور روس کسی کے یار نہ ہوسکے تو کو ئی کسی کا کب ہوگا…. ایک ایسی منظم سازش میں کون کسی کا یار ہوسکتا ہے جہاں صہنویت ایک دنیا کے دماغ پر قبضہ جمع چکی ہو اور سرمایہ داری ، سود اور صارفیت کے شکنجے میں سب کو جکڑ رکھی ہوئی ہو… جہاں ساری دنیا کی جان فرنگ کے عسکری قبضہ میں ہو اور خود فرنگ کی جان یہود کے زمردی گلو بند میں، وہاں منظم سازشوں پر کسے یقین نہیں آئیگا… اسکی گواہی بھی کو ئی اور نہیں مغربی حق پرست حضرات ہی دے رہے ہیں اور ثبوتوں کے ساتھ دے رہے ہیں…. یہ اور بات کہ صیہونیت نے اب علامتی مجسمے کی آنکھ سے سیاہ پٹی نکال کر عدالتوں اور منصفوں کی آنکھ پرباندھ رکھی ہے ….اور سرمایہ داروں کے ذریعہ میڈیا میزان بدست کردیا گیا ہے…وہی عالمی میڈیا جسکی نبض صیہونی اداروں کے ہاتھوں میں ہے …..یا بنی اسرائیل تم کب سدھروگے….. الله تعالی نے تم کو کیسی کیسی نعمتوں سے نوازا تھا… تم ہزار برسوں میں بھی نہیں سدھرے تو اب کیا سدھروگے……. لیکن حیرت اس بات پر ہے کہ ہندوستان اس سازش میں کیا کردار ادا کررہا ہے اور کیوں؟ وہ کیا اہداف ہیں جو مشترک ہیں؟ … اس سلسلہ وار کڑی کا سرا کہاں جا کر ملتا ہے…مودی راجہ کی حالیہ الکشن میں جیت پر دانشوروں کی ایک بڑی تعداد آج تک شبہ کرتی ہے…… ایسے ہی جیسے میڈیا کی تمامتر اجارہ داری کے باوجود نائین الیون کی خبروں پر یہ جماعت شبہ کرتی آئی ہے…ویکی لیکس کے پاس اب بھی بہت کچھ ہے دکھانے اور کہنے کو.. اور نہ جانے کتنے ” مسٹر جولین اسانج آف ویکی لیکس” امریکی اور اسرایئلی خفیہ ایجنسیوں سے بھاگے پھر رہے ہیں ….بلکہ کچھ تو انہیں کی ایما پربھاگ دوڑ بھی کررہے ہیں… الغرض ساری دنیا میں ہر ایک سازش کے تار ایک ہی تار نفس سے جا کر مل رہے ہیں….. پھر ہندوستان میں ترقی کے نام پر اور یونیفارم سول کوڈ کے نام پر جو کچھ ہونا تھا اور جس کے امکانات تھے وہ سب سامنے آرہا ہے ….. آہستہ آہستہ مسلم پرسنل لا کو ہوا دے کر دیکھا جارہا ہے کہ ان میں ابھی کتنی آگ باقی بچی ہے .. یا صرف راکھ ہی راکھ ہے جو خرد مندی اور رواداری کے ٹھنڈے پانی سے سرد ہو چکی ہے …. عدلیہ میں سرکار کی دخل اندازی سے بھی تشویش پا ئی جا تی ہے…… آر ایس ایس “تھنک ٹینک” کا رفتہ رفتہ بی جے پی کی سیاسی ٹینک پر جا بیٹھنا بھی سرکار کے عزائم اور ذہنیت کی طرف اشارہ کرتا ہے ….اسرائیل کے ساتھ نزدیکیاں اور عالمی میڈیا کا مسلمانوں کے خلاف پہلے سے زیادہ زہر اگلنا، افواہیں پھیلانا اور خاصکر شیعہ سنی تفرقہ ڈالنا اسی سمت اشارہ کرتا ہے جس سمت صہنوییت کے شر و فساد کا دریا بہہ رہا ہے….
اب یہ کیسا اشتراک ہے اور کیسا فتراک ہے کہ مسلمانوں کی مفت میں مت ماری جا رہی ہے…….ہاں مفت سے یاد آیا کوئی فری میسن تنظیم بھی ہے جس کے اہداف صہنویت کے اہداف سے مختلف نہیں ہیں اور جسکی سازشوں کے جال میں دنیا کے بڑے بڑے دانشور، اہل اقتدار و اہل تجارت سب پھنسے ہیں…. انکے مکر کے آگے کیا مغرب اور کیا مشرق، کیا وسطی اور کیا بعید و قریب سب جانے انجانے اوکھلی میں سر ڈال چکے ہیں …. اس خفیہ تنظیم کے متعلق یہ بھی مشہور ہے کہ دنیائے سیاست کی شطرنج کے دونوں جانب صیہونی خیالات کے حامل ہی بیٹھے ہیں گرچہ نظر نہیں آتے…. اور یہ سب کچھ من گھڑت نہیں ہے بلکہ مستند حوالوں سے نیٹ پر انکی کارگزاریاں کا چٹا کٹھا موجود ہے…. کبھی کبھی خیال آتا ہے فر عون کے علاوہ ہٹلر نے بھی کیا کچھ دیکھ لیا ہوگا کہ وہ بنی اسرائیل کا اسقدر دشمن ہوگیا تھا.. .. وہ بہر حال اتنا پاگل تو نہ تھا جتنا بش دوم انکےعشق میں دیوانہ ہوا تھا…. الله کی پناہ ہے یا بنی اسرائیل..تم اپنے نبیوں اور مسیحاؤں کو ہی جب قتل کرسکتے ہو تو تمہیں نائین الیون کروانے اور فلسطین سے افغانستان تک جنگ و جدل کروانے میں کیا عار ہوسکتا ہے…… تم لوگ کس قدر نا شکرے اور فتنہ انگیز ہو کہ وہ رب جسکی رحمتیں اسکے غصہ سے کئی گناہ زیادہ ہے ، وہ بھی تم پر لعنت ملامت کرتا رہا اور تم پر مسلسل عذاب بھیجتا رہا، اور اسکا تذکرہ تمام صحائف میں بے حد افسوس سے کرتا رہا کہ دیگر نسلیں عبرت حاصل کریں …. آج بھی تم دنیا چلانے کا خواب دیکھتے ہو اور سازشیں رچتے ہو.. لیکن سامنے کبھی نہیں آتے… جو قوم اپنے نجات دہندہ رسول سے یہ کہہ سکتی ہے کہ تم اور تمھارا رب جاکر جنگ کرو ہم نہیں کرتے…. وہ قوم سامنے آکر کب کچھ کریگی… یا بنی اسرائیل تمھارے تعلق سے ہی الله نے بارہا کہا ہے کہ ذرا موت کی تمنا تو کرو … واقعی تم ایک ڈرپوک قوم ہو …. بھول جاتے ہو کہ سا ری دنیا مل کر بھی دنیا نہیں چلا پا رہی.. اسے خالق حقیقی ہی چلا رہا ہے…. تم اپنی سازشوں سے یہ دنیا کیا چلا پاوگے…… مکر و مکر الله کی وعید بھول جاتے ہو.. اور چالیں چلتے رہتے ہو .. چل لو خوب چالیں… اور پھر دیکھو جب الله چال چلتا ہے…تورات و انجیل اور قرآن تمام آسمانی صحائف تمھاری سازشی ذہنیت، غرور و بزدلی، حرص و طمع ، بخل اور نا شکری کی گواہی دیتے ہیں …. تمھارے ہی قبیل کی مغرور قوم ہندوستان میں بھی ہے…… عموما دونوں میں قریب قریب سب کچھ مشترک ہے .. یہاں تک کہ اہداف بھی اور عزائم بھی…. اور یقینا انجام بھی ….
Kl |