شاعرہ:شعاعِ نور
ردائے ظلمت شب اوڑھ کر بیٹھانہیں جاتا
مرے اندر کوئی سورج طلوع ہونے کو ہے شاید
مرے سینے میں تاحد نظر
اک شاہراہ کھلنے کا امکاں ہے
جہاں پہ روشنی کے جگنوؤں کی
اسقدر لمبی قطاریں ہیں
کہ اپنی انگلیوں پہ گن نہیں سکتی
لباس افکار کا پہنے
یہ جگنو آگہی کی شاہراہ پہ
یوں دمکتے ہیں
کہ جیسے آسماں سے نور کے
منظر چمکتے ہیں
وہ منظر جن میں پل پل پارسائی کے ارادے اک رواں چشمے کی صورت دل میں بہتے ہیں
چمکتے جگنوؤں کی ان قطاروں میں کچھ ایسے روشنی کے دیپ جلتے ہیں
قضا و قدر کے اجرا کے لمحوں میں
محبت اور رغبت سے جو ہر پل صبر کرتے ہیں
جو ڈر اور خوف کے عالم میں
یوں دکھتے ہیں
جیسے کوہ عالی ہوں
وہ جن کی زندگی دکھ سے عبارت ہے
ستون دیں جو ہوتے ہیں
کہ جن کے سامنے قانون شیطاں ٹوٹ جاتے ہیں
اے مرے ضبط کے منصب پہ بیٹھے صبر
تیری انتہا کیا ہے
یہ تیری انتہا رستہ ہدایت کا دکھاتی ہے
تو پھر افکار کی ایسی ردا لادے
کہ جس کو اوڑھ کے میں جگنوؤں کی صف میں یوں اتروں
کہ میرا دل سکینت کی زباں بولے
ردائے ظلمت شب اوڑھ کر بیٹھا نہیں جاتا
مرے اندر کوئی سورج طلوع ہونے کو ہے شاید
مرے سینے میں تاحد نظر اک شاہراہ کھلنے کا امکاں ہے
اسے ممکن بنا دے اب