رس بھری

تحریر: عبیر واہلہ

زردہ پور کا گاؤں اپنی سرسبز فصلوں، دیسی کیکروں اور خوشیوں بھرے میلوں کی وجہ سے مشہور تھا۔ یہاں کے لوگ جتنے سادہ تھے، اتنے ہی زندہ دل بھی تھے۔ ایک دن گاؤں میں چوہدری جہانداد کے ڈیرے پر نئے مزارعے آئے۔ کرم دین، اس کی بیوی شرفی، دو بیٹے اور ایک بیٹی رابعہ، جسے سب پیار سے رابو کہتے تھے۔
کرمو، جیسا کہ سب اسے بلاتے تھے، خود تو دن بھر کھیتوں میں کام کرتا، لیکن اس کی ایک ضد تھی کہ اس کے بچے تعلیم حاصل کریں۔ اس نے دونوں بیٹوں کو گاؤں کے مڈل سکول میں داخل کروایا اور رابو کو دوسرے گاؤں کے ہائی سکول بھیج دیا۔ رابو نہ صرف پڑھائی میں لائق تھی بلکہ سائنس اور ریاضی جیسے مشکل مضامین میں بھی دلچسپی رکھتی تھی۔
رابو کا علم اور شوق اسے دوسروں سے مختلف بناتے تھے۔ سکول میں اس کی سہیلیاں کبھی اسے “چلّی” کہتیں، کبھی “جادوگرنی” اور کبھی اس کے گلابی گالوں اور مٹھاس بھرے لہجے کی وجہ سے “رس بھری” کہتیں۔ لیکن اس کے دل میں ہمیشہ ایک بات گونجتی رہتی تھی: اس کے بابا کرم دین کا دیا ہوا سبق، “اخلاص اور یقین انسان کی سب سے بڑی دولت ہے۔”
دوسرے گاؤں کی گجروں کی لڑکی رضیہ، جسے سب رجو کہتے تھے، رابو کی قریبی سہیلی بن گئی۔ رجو شوخ، چنچل، لیکن پڑھائی میں نکمی تھی۔ رابو کی مقبولیت اور ذہانت سے وہ دل ہی دل میں جلتی تھی، مگر ظاہر میں وہ اس سے محبت کا اظہار کرتی۔ایک دن، جب رابو اور رجو سکول میں بیٹھی باتیں کر رہی تھیں ، رجو نے پوچھا، “رابعہ !تمہارے اندر یہ جادو کہاں سے آیا؟ تمہارے ہر لفظ میں اتنی روشنی کیوں ہے؟اور تمہاری باتیں اتنی شاندار کیسے ہیں ؟ کونسا جادو ہے تمہارے پاس ؟ “ رابعہ نے ہلکی مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیا، “یہ میرے باپ کا دیا ہوا یقین ہے۔ وہ کہتے ہیں ، اگر تم اپنے آپ پر یقین رکھو تو کوئی تمہیں نہیں ہرا سکتا۔سچائی اور خود اعتمادی سب سے بڑی دولت ہیں۔ میرا فخر اور میرا اعتماد میرے بابا، کرم دین ہیں “۔رجو یہ سن کر ہلکا سا مسکرائی اور دل میں کہا، “یقین؟ یہ تو وقت بتائے گا کہ تمہارا یقین کتنا مضبوط ہے۔”
ایک دن، جب پوری کلاس رابو سے سائنس کی نئی نئی ایجادات پر باتیں سن رہی تھی، رجو نے اچانک بلند آواز میں کہا:
“تم جس باپ پر اتنا ناز کرتی ہو، وہ تمہارے حقیقی والد نہیں ہیں۔ تم تو لاوارث بچی ہو، جسے کرم دین اور شرفی نے گود لیا تھا۔ میری خالہ نے مجھے بتایا ہے کہ ان کے اپنے بیٹے پیدا ہونے کے بعد، وہ تم سے دل ہی دل میں لاتعلق ہو گئے ہیں۔میری خالہ اسی گاؤں میں رہتی ہیں جہاں آپ لوگ پہلے رہتے تھے۔”
یہ سن کر کلاس میں خاموشی چھا گئی۔ رابو کا چہرہ سفید ہو گیا۔ وہ ہمیشہ خود پر یقین رکھتی تھی، لیکن رجو کی ان باتوں نے اس کی بنیادیں ہلا کر رکھ دیں۔ اس کی سہیلیاں، جو ہمیشہ اس کی تعریف کرتی تھیں، اب اسے عجیب نظروں سے دیکھنے لگیں۔
رابو کا دل ٹوٹ چکا تھا۔ جو لڑکی ہمیشہ قوس و قزح کے رنگوں سے بھری رہتی تھی، اب اندر سے خالی ہو چکی تھی۔ اس نے اپنی کتابوں سے منہ موڑ لیا، اپنی قہقہوں کو خاموشی میں بدل دیا، اور اپنے دل سے یقین کھو دیا۔ حسد کی ماری رجو، رابو کے یقین کو شک میں بدل چکی تھی ایک خودساختہ جھوٹی کہانی سنا کر!
ایک دن، سکول کے میدان میں بیٹھی آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے رابو بولی، “بابا، آپ کا دیا ہوا یقین کہاں گیا؟” اس کی آنکھیں نم تھیں، اور دل بوجھل۔ اچانک، وہ زمین پر گر پڑی۔
جب تک سکول کے عملے اور طالبات کو خبر ہوئی، رابو کی روح قفسِ عنصری سے پرواز کر چکی تھی۔
رابو کی موت نے پورے گاؤں کو ہلا کر رکھ دیا۔ جو لڑکی زندگی کی علامت تھی، وہ اچانک سب کو اداس کر گئی۔ کرم دین اور شرفی اپنے غم میں نڈھال تھے۔ رابو کی ماں روز اس کی قبر پر جا کر آنسو بہاتی۔ ایک دن، اس کی آنکھوں سے گرنے والا آنسو زمین میں جذب ہوا، اور وہاں ایک ننھا سا رس بھری کا پودا اگ آیا۔
آہستہ آہستہ، ہر بار شرفی کے آنسو زمین پر گرتے، وہاں ایک اور پودا اگتا۔ گاؤں کے لوگ حیرت سے دیکھتے، لیکن وہ جانتے تھے کہ یہ محبت کی طاقت تھی۔ رابو کی ماں نےاپنی بیٹی کی یاد میں ان پودوں کی ویسے ہی نگہداشت کی جیسے وہ اپنی بیٹی کی کرتی تھی اورکہا، “میری رس بھری ختم نہیں ہوئی، وہ ہمیشہ ہمارے دلوں میں زندہ ہے۔”
گاؤں کے بابا اقبال، جنہیں لوگ “بالا شیدائی” کہتے تھے، نے ایک دن کہا، “یقین کا مرنا زندگی کا مرنا ہے، لیکن محبت ہمیشہ اسے زندہ کر دیتی ہے۔”

شرفی نے بالے شیدائی کی بات سن کر کہا، “میری بیٹی محبت کی علامت تھی، اور محبت کبھی مرتی نہیں۔”
رابو کی کہانی گاؤں والوں کے لیے ایک سبق بن گئی: یقین اور محبت کی طاقت کو کبھی کم نہ سمجھیں۔ رابو تو چلی گئی، لیکن اس کی روشنی، اس کی یاد، اور اس کا دیا ہوا یقین گاؤں کی مٹی میں ہمیشہ کے لیے زندہ ہو گیا۔

اپنا تبصرہ لکھیں