“۔
ابھی تو پہلا عشر ہ ہے،
رحمت کا عشرہ
اور سینکڑوں انسان آسمان سے برسنے والی گرمی کی نذر۔۔
گرمی کی شدت میں لوگوں کو یہ کہتے ہم کتنی بار سنتے رہے
“رمضان آئے گا تو اللہ نے چاہا تو موسم ٹھیک ہوجائے گا”
مگر اب کی بار ایسا کیوں نہیں؟
اب کی بار موت صرف رمضان کا ہی کیوں انتظار کرتی رہی؟
اذیت اور تکلیف نے رحمت والے عشرے کا ہی کیوں انتخاب کیا؟
یہ سوالات اکثر کے ذہنوں میں اندھی کے جھکڑ کی طرح چل رہے ہیں،
عزیزم!
ہم یہ نہ سوچیں کہ اللہ رب العزت ایسا کیوں کر رہا ہے،
ہم یہ سوچیں کہ ہم ایسا کیا کر رہے ہیں؟
کون سی ایسی بُرائی میں مبتلا ہیں؟
کیا ہم رمضان کی قدر کر رہے ہیں؟
کیا اس کا احترام کر رہے ہیں؟
ہمارے قرب وجوار میں کتنے ہی ایسے لوگ ہیں جو محض سر درد کی وجہ سے روزہ چھوڑ رہے ہیں؟
کتنے ہی ایسے ہیں جو اپنا کاروبار “چمکانے “لیے ریڑھی کے گردقناتیں لگا کر گناہ میں شریک ہیں۔
اصل وجہ یہ ہے،
ہم نے رمضان کو ہلکا سمجھا ہوا ہے،
روزہ کو ہلکا سمجھا ہوا ہے،
ہم لوگوں سے چھپنے کے انتظامات تو کر لیتے ہیں،
مگر اللہ سے چھپنے کا کوئی انتظام نہیں کرتے،
ہم لوگوں کی چھبتی ہوئی نظروں سے ڈرتے ہیں،
مگر اللہ کے غضب سے نہیں ڈرتے۔
شاید ہم نے اللہ کی ذات کو سمجھا ہی نہیں۔
شاید ہم کسی اور سانحے کے منتظر ہیں،
کسی اور عذاب الہی کی طرف نظریں جمائے ہوئے ہیں۔
اس سے پہلے کہ کوئی عذاب ہمیں گھیر لے،
رمضان کا احترام کریں،
روزے کو اس کا حق دے
اللہ سے معافی طلب کریں۔
وہ ذات منتظر ہے،
ہم ہی راستے سے بھٹکے ہوئے ہیں۔۔۔
(تحریر۔۔۔۔۔محمد عثمان)