کلام : نینا ملک
رُوحِ مَن!
میری محبت
مجھے عقیدت سے تکنے والے
مجھے ہمیشہ سمجھنے والے
میری وحشت زدہ طبیعت سے دل کی بستی بسانے والے
میرے شکستہ حروف سن کر نیا تخیل بسانے والے
میرے وجود کے سبھی اسرارو رموز سمجھنے والے عظیم عاشق۔۔۔
میں اذیت میں جل چکی ہوں۔۔۔
میرے شعورِ حیات کا الاؤ بجھنے والا ہے
میرے اعمال کی روداد میرے سانسوں میں اتر چکی ہے
میں اپنے ہونے کی آخری حد پر آچکی ہوں
رُوحِ مَن!
میری محبت۔۔۔۔کیا تم سن رہے ہو
میں اپنے ہونے کا قلق مٹا رہی ہوں۔۔۔۔
کہ جتنا رونا تھا رو چکی ہوں۔۔۔۔
مجھے اب آخر کی بس خبر ہے،کہیں کسی پر نظر نہیں ہے
میں اب تو بس اتنا جانتی ہوں کہ بجھتی شمع کے, سکوتِ کامل کے
جہل مطلق،جہاں کی سب ہی فریب کاریوں سے ملوں گی تب جا کے انت ہو گا
وجودِ فانی کا،جو تمام رنج ہے!!
میں رنج سنبھالے،میری محبت،میں رنج اٹھائے
حیات کی رمز آخر کو سمجھ گئی ہوں:
تمام رنج ہے-
وجود رنج ہے،وجود میں بستی روح رنج ہے
سبھی کچھ رنج ہے،مکمل رنج ہے،
عقل بھی کیا ہے؟ایک معمہ ،اور معمہ کا حل،وہ بھی رنج ہے
ہجر تو خیر خود ہی رنج ہے،وصل رنج ہے
کہ ملنے والے ہجر راتوں میں وصل پائیں،
تو یہ بھی رنج ہے
حیات رہنے،مکمل ہونے کا اہتمام کرنا تمام رنج ہے
زبان رنج ہے،تمام رنج ہے،لکھے گئے سب کلام رنج ہیں
سکون رنج ہے،عذاب رنج ہے،زمیں پر ہر سو تمام رنج ہے
میری محبت تمام رنج تھا!
میری عقیدت تمام رنج ہے!