سہیل انجم
اس وقت ہم ایک دور پرآشوب میں جی رہے ہیں۔ نظیر اکبرآبادی کی زبان میں قزاق اجل دن رات نقارہ بجا بجا کے انسانی جانوں کی پونجی لوٹ رہا ہے۔ ایک کا غم ہلکا نہیں ہوتا کہ دوسرے کا غم آموجود ہوتا ہے۔ پورا ملک زبردست آزمائش کے دور سے گزر رہا ہے۔ قبرستانوں میں جگہ کی قلت پڑ گئی ہے۔ دہلی میں آئی ٹی او کے پاس واقع قبرستان اہل اسلام میں جو کہ کرونا اموات کے لیے مخصوص ہے، قبروں کے لیے جگہ تنگ ہو گئی۔ اس کے منتظمین کا کہنا ہے کہ انھیں اب اس متعینہ جگہ میں اور اضافہ کرنا پڑے گا۔ جنوبی دہلی کے جامعہ نگر میں شاہین باغ علاقے کے قبرستان میں بیس اپریل کو گیارہ میتیں دفن کی گئیں۔ یہی حال دوسرے علاقوں اور دوسرے شہروں کے قبرستانوں کا ہے۔ شمشمان گھاٹو ںکا بھی یہی حال ہے۔ وہاں بھی چتا جلانے کے لیے کئی کئی گھنٹے انتظار کرنا پڑتا ہے۔ دہلی، لکھنو ¿، ممبئی اور بھوپال سمیت کئی شہروں میں شمشان گھاٹوں پر لمبی لمبی قطاریں لگی ہیں۔ مسلسل چتائیں جلنے سے کئی شمشانوں کی چمنیاں پگھل گئی ہیں۔ ایک خبر کے مطابق لکھنو ¿ میں پہلے ایک چتا جلانے کے لیے تین ہزار روپے لگ رہے تھے مگر اب بیس پچیس اور تیس ہزار روپے لگ رہے ہیں اور وہ بھی اگر کم کرنے کی بات کیجیے تو شمشان گھاٹوں کے ذمہ داران کہتے ہیں کہ پھر اپنا مردہ کہیں اور لے جاو ¿۔ لکھنو ¿ میں تو ایک شمشان میں مردوں کے نذر آتش کرنے کے مناظر کو چھپانے کے لیے ٹین شیڈ لگا دیے گئے ہیں تاکہ عوام کو حقیقی صورت حال کا اندازہ نہ ہو سکے۔
کرونا وائرس کی اب جو نئی شکل آئی ہے وہ بہت زیادہ خطرناک ہے۔ پہلے جو وائرس تھا وہ معمر افراد پر زیادہ اثر کرتا تھا لیکن یہ وائرس تمام عمر کے لوگوں پر حملہ کر رہا ہے۔ یہاں تک کہ وہ بچوں اور نوجوانوں کو بھی نہیں بخش رہا ہے۔ پورے ملک میں کرونا کیسیز میں اس قدر اضافہ ہو رہا ہے کہ ان کا شمار مشکل ہے۔ ابھی ایک دن میں تین لاکھ سے زائد کیسیز سامنے آگئے ہیں۔ لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر یہی صورت حال رہی تو یومیہ پانچ لاکھ تک کیسیز آسکتے ہیں۔ دار الحکومت دہلی سمیت متعدد شہروں میں اسپتالوں میں جگہ نہیں ہے۔ کئی جگہ تو ایک ایک بیڈ پر دو دو مریضوں کو رکھا گیا ہے۔ آکسیجن اور ضروری ادویات کی قلت ہو گئی ہے۔ میڈیکل اسٹوروں پر ضروری ادویات کی بلیک مارکیٹنگ ہو رہی ہے۔ اب تو مرکزی وزیر تک کو بیڈ کے لیے ٹوئٹر پر اپیل جاری کرنی پڑ رہی ہے۔ دار الحکومت دہلی میں انفکشن کی چین توڑنے کے لیے چھ روز کا لاک ڈاون لگا دیا گیا ہے۔ لیکن جس طرح پہلی لہر کے لاک ڈاون میں پولیس کی جانب سے کافی سختی کی جا رہی تھی اس بار اتنی سختی نہیں ہے۔ شاید پہلے والے لاک ڈاون میں بہت زیادہ تنقید ہونے کی وجہ سے اس بار نرمی برتی جا رہی ہے۔ لیکن کہا نہیں جا سکتا کہ لاک ڈاون سے کتنا فائدہ ہوگا۔ الہ آباد ہائی کورٹ نے اترپردیش کے چھ شہروں میں لاک ڈاون لگانے کی ہدایت دی ہے لیکن ریاستی حکومت کا کہنا ہے کہ ہم اس پر عمل کرنے میں خود کو بے بس پاتے ہیں۔ سپریم کورٹ نے اس حکم پر اسٹے دے دیا ہے۔ ایک بار پھر یومیہ مزدوروں نے شہروں سے اپنے گھروں کو لوٹنا شروع کر دیا ہے جس کی وجہ سے بس اڈوں اور ریلوے اسٹیشنوں پر زبردست بھیڑ دیکھی جا رہی ہے۔ اس بھیڑ سے بھی کرونا کے پھیلنے کا خدشہ ہے۔ ادھر ہری دوار میں کمبھ میلے میں لاکھوں کی بھیڑ اکٹھی ہو رہی ہے۔ وزیر اعظم نے اپیل کی ہے کہ اس اشنان کو علامتی کر دیا جائے۔ دیکھیے اس پر عمل ہوتا ہے یا نہیں۔ شدید تنقید کے بعد بی جے پی نے مغربی بنگال میں اپنی انتخابی ریلیوں کو محدود کر دیا ہے اور ایک ریلی میں پانچ سو افراد سے زائد پر پابندی لگا دی ہے۔ کانگریس صدر راہل گاندھی نے پہلے ہی مغربی بنگال کی اپنی تمام ریلیوں کو منسوخ کر دیا تھا۔ وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی نے اعلان کیا ہے کہ وہ کلکتہ میں اب مزید ریلی نہیں کریں گی۔ مجموعی طور پر صورت حال انتہائی نازک اور تشویش ناک ہے۔ کب کس کا نمبر آجائے کہا نہیں جا سکتا۔ اچھے بھلے اور تندرست آدمیوں کے بھی دو ایک روز کی بیماری کے دوران ہی راہی ملک عدم ہوتے دیکھا جا رہا ہے۔
اگر دیکھا جائے تو اپریل کا مہینہ زیادہ خطرناک ثابت ہو رہا ہے۔ اہل علم کے لیے یہ مہینہ بہت نقصاندہ ثابت ہو رہا ہے۔ تین اپریل کو مولانا ولی رحمانی، چار اپریل کو پروفیسر ظفر الدین، پانچ اپریل کو دانشور مصنف اور استاد پروفیسر انیس چشتی اور چھ اپریل کو ماہر تعلیم اور صحافیہ فاطمہ زکریا کا انتقال ہوا تھا۔ ان کے علاوہ بھی کئی لوگ دنیا سے جا چکے تھے۔ ابھی ان لوگوں کا غم تازہ تھا ہی کہ 16 اپریل کو جامعہ ہمدرد میں استاد پروفیسر اشتیاق دانس اور پٹنہ کے بزرگ صحافی ریاض عظیم آبادی، 19 اپریل کو معروف فکشن رائٹر مشرف عالم ذوقی اور 20 اپریل کو معروف افسانہ نگار اور دور درشن کے سابق پروڈیوسر انجم عثمانی، جماعت اہلحدیث کے ایک بڑے محقق مولانا خالد حنیف صدیقی، تبسم فاطمہ زوجہ مشرف عالم ذوقی اور ہفت روزہ نئی دنیا کے سابق صحافی فاروق سلیم نے دنیائے فانی کو الوداع کہہ دیا۔ جبکہ 21 اپریل کو عالم اسلام کی ممتاز علمی شخصیت مولانا وحید الدین خاں اور مکتبہ جامعہ کے سابق جنرل منیجر اور ماہنامہ کتاب نما و نئی کتاب کے ایڈیٹر شاہد علی خاں کا انتقال ہو گیا۔ مولانا وحید الدین خاں کی درجنوں کتابیں اردو اور انگریزی میں شائع ہو کر مقبول خاص و عام ہو چکی ہیں۔ تقابل ادیان پر مولانا کو اتھارٹی سمجھا جاتا تھا۔ انھوں نے مسلمانوں اور خاص طور پر مسلم نوجوانوں میں جدید فکر پیدا کی تھی۔ مسلم نوجوانوں پر ان کی فکر کا گہرا اثر تھا۔ مولانا خالد حنیف صدیقی نے دہلی میں موری گیٹ کی مسجد اہلحدیث میں آخری سانس لی۔ وہ ایک انتہائی باصلاحیت عالم دین اور ایک منجھے ہوئے قلم کار و مصنف تھے۔ ان کی کئی کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ انھوں نے تاریخ اہلحدیث پر بڑا کام کیا تھا۔ فاروق سلیم انتہائی شریف النفس، خلیق اور ملنسار انسان تھے۔ انھوں نے اپنی صحافتی زندگی کا باضابطہ آغاز دہلی میں علی صدیقی کے اخبار ”اردو مورچہ“ سے کیا تھا۔ اس سے پہلے بھی وہ کئی اخباروں میں کام کر چکے تھے۔
میں چاہتا ہوں کہ کم از کم تین شخصیات یعنی پروفیسر اشتیاق دانش، انجم عثمانی اور مشرف عالم ذوقی کو اپنی طرف سے خراج عقیدت پیش کروں۔ پروفیسر اشتیاق دانش کا اٹھ جانا علمی و ادبی دنیا کا زبردست خسارہ ہے۔ وہ ایک ماہ سے کرونا سے متاثر تھے اور مجیدیہ اسپتال جامعہ ہمدرد میں زیر علاج تھے۔ اعظم گڑھ میں پیدا ہونے والے اشتیاق دانش نے جامعة الفلاح سے فراغت کے بعد 1990 میں مسلم یونیورسٹی علیگڑھ سے انگریزی میں ایم اے او راسلامیات میں پی ایچ ڈی کی تھی۔ انھوں نے لندن میں بھی تعلیم حاصل کی تھی۔ وہ پہلے مسلم یونیورسٹی علیگڑھ میں اسلامک اسٹڈیز کے شعبے میں اسسٹنٹ پروفیسر رہے۔ 1994 میں اسسٹنٹ پروفیسر کی حیثیت سے جامعہ ہمدرد آگئے۔ لیکن کئی برس قبل اس وقت کے وائس چانسلر کے ساتھ اختلافات کی وجہ سے انھوں نے یونیورسٹی چھوڑ دی تھی اور مقدمہ بازی میں الجھ گئے تھے۔ بہرحال مقدمہ ختم ہو گیا تھا اور توقع تھی کہ وہ جلد ہی ایک بار پھر اپنے عہدے پر بحال ہو جائیں گے۔ لیکن مشیت ایزدی کچھ اور تھی۔ لہٰذا اس کی نوبت ہی نہیں آئی۔ اسی درمیان وہ دہلی کے ایک تھنک ٹینک ڈاکٹر محمد منظور عالم کے ادارے ”انسٹی ٹیوٹ آف آبجکٹیو اسٹڈیز“ سے وابستہ ہو گئے۔ وہ اس کے فائنانس سکریٹری تھے اور دیگر ذمہ داریاں بھی سرانجام دیتے تھے۔ اشتیاق دانش مغربی ایشیا کے موضوع پر اتھارٹی سمجھے جاتے تھے۔ سال 2015 میں اس وقت مجھے خوشگوار حیرت ہوئی جب انھوں نے اپنا شعری مجموعہ ”شور خاموشی“ عنایت کیا اور فرمائش کی کہ میں اس پر تبصرہ کروں۔ اس وقت تک مجھے معلوم نہیں تھا کہ وہ شاعر بھی ہیں۔ ان کی شخصیت میں شعرا کی خصوصیات بھی نہیں تھیں۔ لیکن اس مجموعے سے اندازہ ہوا کہ وہ 1984 یا اس کے پہلے سے ہی طبع آزمائی کر رہے ہیں۔ میں نے اس مجموعے پر تبصرہ کیا جو کئی اخباروں میں شائع ہوا۔ ان سے میرا ایک اور تعلق تھا۔ ریڈیو وائس آف امریکہ کے لیے رپورٹنگ کے دوران مختلف موضوعات پر ماہرین کے ایکسپرٹ کمنٹس بھی لینے پڑتے ہیں۔ جب بھی مجھے مغربی ایشیا سے متعلق کسی رپورٹ پر کمنٹ کی ضرورت پڑی تو میں نے ان کو فون کیا اور انھوں نے اس موضوع پر برجستہ تبصرہ کیا اور اتنی معلومات بہم پہنچا دی جو رپورٹ کے لیے کافی سے بھی زیادہ ہوتی۔ ان کا اس طرح اچانک چلے جانا میرا ذاتی خسارہ بھی ہے۔ وہ ایک مصنف بھی تھے۔ انگریزی اور اردو دونوں زبانوں میں ان کی تصنیفات شائع ہوئیں اور مقبول عام ہوئی ہیں۔ وہ انگریزی میں بھی شاعری کرتے تھے۔ ان کے ایک دوست اور آئین و قانون کے ماہر پروفیسر فیضان مصطفیٰ کے مطابق انھوں نے بہت دلچسپ موضوعات پر کام کیا جیسے کہ اسلام اینڈ گلوبلائزیشن، اسلام اینڈ ملٹی کلچرلزم، اسلام اینڈ پروموشن آف نالج، اسلامی و عالمی قوانین میں انسانی حقوق اور اسلام اور جدیدیت۔ ابھی حال ہی میں ان کی ایک کتاب ڈاکٹر حمید اللہ پر آئی ہے جس کا نام ہے ”دی لیگیسی آف محمد حمید اللہ“۔ ان کی تقریباً ایک درجن انگریزی کتابیں شائع ہوئی ہیں جو امیزون پر موجود ہیں۔
انجم عثمانی متعدد کتابوں کے مصنف تھے۔ ان کے طنزیہ و مزاحیہ مضامین کا ایک مجمورہ ”شگفتگی کی تلاش میں“ سال 2015 میں شائع ہوا تھا۔ غالب اکیڈمی حضرت نظام الدین نئی دہلی میں اس کتاب کا اجرا ہوا تھا۔ انھوں نے مجھے بھی اظہار خیال کی دعوت دی تھی۔ اس وقت میں نے جو مضمون پڑھا تھا اس کا ایک اقتباس پیش کرنا چاہتا ہوں۔ ”انجم عثمانی اردو ادب کے واسکو ڈی گامہ ہیں۔ واسکو نئی نئی دنیاو ¿ں کی تلا ش میں سمندروں کی خاک چھانتا تھا اور آنجناب بحر ادب میں غوطے لگاتے ہیں اور نادرالوجود خیالات کے لعل و گہر لے کر پہلے سطحِ ادب پر اور پھر ساحلِ ادب پر جلوہ افروز ہوتے ہیں۔ ایک زمانے سے کسی نہ کسی شے کی تلاش میں سرگرداں ہیں۔ لیکن جب انھوں نے دیکھا کہ نقادانِ ادب ان کے ذوقِ تلاش و جستجو کو وہ اہمیت نہیں دے رہے ہیں جو اہمیت دنیا نے واسکو ڈی گامہ کے ذوقِ جستجو کو دی تو انھوں نے آواز لگانی شروع کر دی کہ اے مالکانِ مملکتِ علم و قلم میری مدد کرو، میرا کہیں کچھ کھو گیا ہے۔ اب یہ تو نہیں معلوم کہ ادب کے کسی جغادری نے ان کی آواز پر توجہ دی یا نہیں۔ البتہ ان کی تلاش و جستجو کا سفر اب بھی گرم ہے۔ اس بار انھوں نے ایک ایسی شے تلاش کرنے کی کوشش کی جو فی زمانہ نایاب نہیں تو کمیاب ضرور ہے۔ انھوں نے کئی دروازوں پر دستک دی اور کئی اصحابِ خیر و کشادہ دست صاحبانِ شگفتہ قلم کے سامنے دست سوال دراز کیا۔ لیکن بھلا کون ہے جو ایسی متاع گراں مایہ اور بیش قیمت شے، یعنی شگفتگی، مفت میں ان کے حوالے کر دیتا۔ ہاں اگر انھوں نے پرکشش شرح سود پر قرضِ شگفتگی مانگا ہوتا تو ممکن ہے کہ کوئی انھیں دے بھی دیتا۔ بہر حال! آنجناب ہر دروازے پر دستک دے کر ناکام و نامراد لوٹ آئے اور اب لوگوں کے سامنے اپنا کشکول وا کر دیا اور ”شگفتگی کی تلاش میں“ نامی کتاب لے کر باذوق قارئین کے دلوں پر دستک دینی شروع کر دی۔ دراصل انھوں نے جب دیکھا کہ لوگ بہت بخیل ہوتے جا رہے ہیں اور زخمی دلوں پر بزلہ سنجی کی مرہم پاشی سے گریز کر رہے ہیں تو انھوں نے خود ہی اپنا خزانہ کھول دیا اور یہ اعلان کر دیا کہ: صلائے عام ہے تشریف لائے جس کا جی چاہے۔ آئے اور مجھ جیسے کم مایہ شخص سے قہقہوں اور مسکراہٹوں کی سوغات لے جائے۔ یہ سوغات بلا قیمت ہے۔ شرط صرف اتنی ہے کہ اس گنج گراں مایہ کے حصول پر اگر قہقہہ نہ لگا سکیں تو مسکرا ضرور دیں۔ اس زمانے میں مسکراہٹوں کی بھی بڑی اہمیت ہے۔ بقول انجم عثمانی ”قہقہوں سے زیادہ مسکراہٹیں قیمتی، معنی خیز اور خوبصورت ہوتی ہیں، سو مسکراتے رہیے“۔
مشرف عالم ذوقی کثیر التصانیف ناول نگار تھے۔ ان کی کم از کم چار درجن کتابیں شائع ہوئی ہیں۔ میں نے ان کے ایک معروف ناول ”آتش رفتہ کا سراغ“ پر جو مضمون لکھا تھا اس کا ایک اقتباس پیش ہے۔”720 صفحات پر مشتمل ناول ”آتش رفتہ کا سراغ“ ایک ایسا ”آئینہ ہند نما“ ہے جس میں سادہ لوح اور سیدھے سچے مسلمانوں کے شب وروز دکھائی دیتے ہیں تو اسلام کے نام پر مسلمانوں کے ساتھ چھل کپٹ، عیاری، مکاری اور فریب دہی میں طاق نام نہاد مسلم رہنماو ¿ں کی کرتب بازیاں بھی نظر آتی ہیں۔ ایک اصول پرست، ایماندار اور قدروں کے لیے جان تک دینے کا جذبہ رکھنے والا مگر عسرت و تنگ دستی کی زندگی گزارنے والااردو صحافی بھی موجود ہے اور چیختی چنگھاڑتی اور خون میں لت پت سرخیوں کے بل بوتے پر مسلمانوں کے جذبات سے کھلواڑ کرنے والے اور اپنے مفادات کی تکمیل میں ماہر ایسے اردو صحافی بھی ہیں جو صحافت کے نام پر بدنما داغ ہیں۔ ہر چیز کو خبر بنا کر بیچنے اور انسانیت کو رسوا کرنے والے میڈیا کی کارستانیاں بھی ہیں۔ ان سب سے بڑھ کر حکومت و انتظامیہ میں منظم اور خفیہ طریقے سے درانداز ہو جانے اور تمام کلیدی پوزیشنوں پر فائز ہو جانے والے مخوص فکر کے لیڈر، کیڈر اور عہدے دار بھی دکھائی دیتے ہیں جو درپردہ طور پر مسلمانوں کے خلاف جنگ چھیڑے ہوئے ہیں اور ستم ظریفی یہ ہے کہ وہ اتنے مکار اور چالاک ہیں کہ ان کے نمائندے مسلمانوں میں گھس کر ان کا کام کرتے ہیں لیکن کسی بھی لمحے میں یہ احساس نہیں ہونے دیتے کہ ان کے چہروں پر ماسک لگے ہوئے ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ اس ناول میں ایک ایسا کردار بھی ہے جو منظر پر بس چند مکالموں کے لیے آتا ہے لیکن اس کی ذات پورے ناول پر چھائی ہوئی ہے۔ ناول نگار در اصل اس کیرکٹر کے سہارے مسلمانوں کا ایک مثالی اور حقیقی کردار پیش کرنے کی کوشش کرتا ہے اور پوری دنیا کو یہ پیغام دینا چاہتا ہے کہ دیکھو حقیقی مسلمان ایسا ہوتا ہے اور اسے ایسا ہی ہونا چاہیے۔ اس طرح یہ پورا ناول آزاد ہندوستان کی تاریخ میں مسلمانوں کے ساتھ کھیلے جانے والے خفیہ مگر خطرناک کھیل کو اس طرح بے نقاب کرتا ہے کہ سب کچھ آئینہ ہو جاتا ہے“۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ حالات کو بہتر کرے اور پوری دنیا میں کرونا وائرس کی شکل میں جو قیامت صغریٰ برپا ہے اس کا سلسلہ بند ہو۔ ورنہ کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ دنیا اہل علم و فن سے اور خدا ترس لوگوں سے خالی ہو جائے۔