حصہ اول عارف محمود کسانہ
پرنٹ میڈیا میں ”احادیث نبوی۔ ایک نازک معاملہ” کے عنوان سے میری شائع ہونے والی تحریر کے رد عمل میں قاری عبدالرشید کا کالم ‘ فتنہ انکار حدیث کی پیشگوئی” 25اور26کے جنگ میںدو قسطوں میں شائع ہوئیں اُن کے بعد اعجاز بٹ نے ”جائزہ تدوین حدیث” کے تحت 28اور 31کے روزنامہ جنگ میں بڑی تفصیل سے تدوین احادیث کا جائزہ پیش کرتے ہوئے بہت سی وضعی روایات پر تبصرہ کیا ۔انہوں نے اس امر سے اتفاق کیا کہ ہمارے کالم لکھنے کا مقصد انکار حدیث کی بجائے حضورۖ سے منسوب ایسی روایات جن سے شان رسالت پر حرف آتاہو اورا سلام کے بارے میں غلط فہمیاں پیدا ہوتی ہوں، اُن سے محتاط رہنے کا مشورہ دیا گیاتھا لیکن ہمارے ممدوح قاری صاحب نے اس کاغلط مفہوم لیا اور مقام شکر ہے کہ انہوں نے فتویٰ صادر نہیں فرمایا یہ الگ بات ہے کہ آج ایسے فتووں کو کون پوچھتا ہے۔ اعجاز بٹ نے بہت تفصیل سے اس موضوع پر لکھا ہے اور ہمارے بارے میں جو کلمہ خیر کہا ہے اُس پرہم اُن کے ممنون ہیں۔لیکن اس کے بعد ایک بار پھرقاری عبدالرشید نے 2 اور3 اپریل کے جنگ میں اسی موضوع پر لکھا اور انہوں نے ہم سے متعدد بار مزید وضاحت طلب کی۔ ان کی تائید میں 2 اپریل کے جنگ میں ضیاء الحسن طیب نے بھی طبع آزمائی کی اس لیے ضروری ہوگیا تھا کہ ان کی جواب طلب باتوں کے ساتھ اپنا نقطئہ نظر قارئین کے سامنے رکھا جائے تاکہ اس اہم اور نازک موضوع کے بارے میں اصل صورت حال سامنے آسکے۔ چونکہ بہت سی دیگر باتوں کی وضاحت کرنا مطلوب ہے اور کالم کا دامن تنگ ہے اس لیے غیر ضروری تفصیلات میں جانے سے گریز کرتے ہوئے ہمارے ممدوح کے اس اعتراض کہ خطبہ حج الوداع کے موقع پر حضورۖ نے کہا تھا کہ میںتمھارے لیے قرآن چھوڑے جارہا ہوںکی وضاحت میں عرض ہے کہ اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے سابق وائس چانسلر ڈاکٹر نصیر احمد ناصر نے اپنی کتاب پیغمبر آخر و اعظم میں یہ پورا خطبہ دیا ہے جس میں صرف یہی لکھا ہے کہ حضور نے فرمایا کہ میں صرف قرآن تمہارے درمیان چھوڑے جارہا ہوں جسے آپ ملاحظہ کرسکتے ہیں۔ یاد رہے اس کتاب کو رابطہ عالم اسلامی نے سیرت رسولۖ پر لکھی گئی بہترین کتاب قرار دے رکھا ہے۔ ہمیں حیرت ہوئی ہے کہ انہوں نے روایات کے انکار کی اصل وجہ یہ لکھی ہے کہ” طبیعت آزادی چاہتی ہے۔ نفس یورپ کی تہذیب و تمدن اور اغیار کے طور طریقوںپر عاشق اور فریفتہ ہے ا ور شہوت نفس کے لیے انکار کیا جاتا ہے”۔ ہماری حرمت قلم اس بات کی متقاضی ہے کہ اس پرتبصرہ نہ کیا جائے اور اس کا فیصلہ قارئین پر چھوڑ دیا جائے۔ ہمارے ممدوح نے انکار روایات کی ایک وجہ یہ بھی لکھی ہے کہ چونکہ قرآن میںصرف اصولی احکام ہیں اور ایسے لوگ قرآن کو تسلیم کرکے باقی پابندیوں سے بچنا چاہتے ہیں۔ ایک مذہبی شخص کی اس رائے نے ہمیں سوچنے پر مجبور کردیا ہے کہ وہ اللہ کی طرف سے عائد کردہ پابندی اور آزادی کی حدود سے مطمئن نہیں اور مزید پابندیاں عائد کرنا چاہتے ہیں۔ حالانکہ حدود اللہ سے یہ سب متعین ہوچکا ہے اور قرآن میں بار ہا اس کا ذکر موجود ہے کہ خود حضورۖ بھی انہی کی پابندی کرتے تھے۔ اگر بات یہاں تک بھی ہوتی تو شائدپھر بھی ہم یہ سطور نہ لکھتے لیکن ہمارے ممدوح کا یہ لکھنا کہ جب حضورۖ کا کوئی حکم پہنچے توتکبر اور نخوت سے حقارت آمیز لہجہ میں کہے کہ میں اسے نہیں مانتا۔اس بیان نے ہمیں دوبارہ لکھنے پر مجبور کردیا۔
کوئی مسلمان ایسا کہہ ہی نہیں سکتا۔ حضورۖ کا کوئی حکم ہو اور کوئی ایسا طرز عمل اختیار کرے، یہ ممکن ہی نہیں ہوسکتا۔ سوال یہ نہیں کہ حضور ۖ ایسا کہا ہے بلکہ سوال یہ ہے کیا واقعی ہی حضورۖ نے ایسا کہا ہے۔ حضورۖ کے حکم پر تو ہمارے ماں باپ قربان، اُن کا حکم تو ایک طرف رہا ہم توآپۖ کے جوتے مبارک کی توہین بھی برداشت نہیں کرسکتے اور برملا کہتے ہیں کہ
جو سر پہ رکھنے کو مل جائے نعلین پاک حضورۖ تو پھر کہیں گے کہ ہاں تاجدار ہم بھی ہیں
زیر آسماں ایسی اور کون سی جگہ ہے جہاں جنید و بایزید جیسی ہستیاںسانس بند کرکے آتی ہیں۔ ہم تو آپۖ کی بارگاہ میں بقول مولانا جامی عرض کرتے رہتے ہیں کہ
نسیما جانب بطحا گذر کن ز احوالم محمد راخبر کن اور فدائے روضہ خیر البشر کن
ہم تو التجا کرتے ہیں کہ اے
باد صبا تیرا گذر ہوجائے گر سوئے حرم بلغ سلامی روضة فیھا النبی المحترم
ہمارے لیے تو سب بڑا خوشی کا دن، سب سے بڑی عید اور سب سے سہانی وہ گھڑی تھی جب طیبہ کا چاندچمکا تھا اور پھر اللہ کی نعمت کا اس کے حکم کے مطابق شکر بجا لاتے ہوئے جشن مسرت مناتے ہیں اور اپنی عقیدت کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ
نہ جب تک کٹ مروں میں خواجہ یثربۖ کی عزت پر خدا شاہد ہے کہ کامل میرا ایماں ہو نہیں سکتا
اسی جذبہ محبت میں ہم کسی بھی ایسی روایت کو ماننے سے انکار کرتے ہیں جس سے آپۖ کی عزت پر حرف آتا ہو۔ آپۖ کے مرتبہ اور شان کے خلاف ہو۔ امت کی مائوں اور آپ کے صحابہ اکرام کی جس سے کوئی توہین ہوتی ہو یا اُن کی عزت پرحرف آتا ہو اور جو قرآن حکیم کی تعلیمات کے خلاف ہو۔قاری صاحب آپ ایسی روایات کو سینے سے لگانا چاہیں تو بے شک لگائیں لیکن ہم ایسی کسی بھی روایت کو نہیں مانتے۔ جہاں تک اُن کا یہ کہنا کہ روایات کے بغیر قرآن کی صداقت نہیں ہوسکتی تو عرض ہے کہ اگر آپ کی قرآن پرنظرہوتی تو ایسا کبھی نہ کہتے کیونکہ قرآن کی صداقت کی گواہی خود اللہ تعالٰی نے قرآن میںہی دی ہے کہ ہم نے اسے نازل کیا اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں(15/9) جبکہ روایات کے ضمن میں کوئی ایسی ذمہ داری نہیں لی۔پھر آغاز ہی میں فرمادیا کہ اس میں کچھ شک نہیں(2/2) مزید براں اس کے سچا ہونے کی یہ دلیل دی کہ اس میں کہیں بھی تضاد نہیں(4/82)۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ قرآن بار بار غور وفکر کی دعوت دیتا ہے اور قرآن حکیم میں اس بارے میں 750آیات ہیں جو کہ پورے قرآن کا آٹھواں حصہ بنتا ہے۔ یہاں تک کہ مومنین کے سامنے جب خدا کی آیات پیش کی جاتی ہیں تو وہ اندھے اور بہرے ہو کر نہیں گر پڑتے بلکہ ان پر غوروفکر کرتے ہیں(25/73)۔ جب قرآن کس کی صداقت میں کوئی شک و شبہ نہیں لیکن اس پر غور کیا جاسکتا ہے تو صدیوں بعد محض زبانی روایات جو انسانی کاوش ہے اس پر غوروفکر کیوں نہیں کیا جاسکتا۔ مزید براں یہ کہ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ ہم بخاری اور مسلم کی تمام روایات کو درست تسلیم کرتے ہیں اور اُن پر عمل کرتے ہیں لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے وہ خوداُن پر عمل نہیں کرتے اور نہ انہیں مانتے ہیں۔ اس کی تفصیل اگلی قسط میں ملاحظہ کریں جس میں روایات کے بارے میںاپنے ممدوح سے کچھ سوالات بھی شامل ہیں۔ ( جاری)