ٹیلی فون کی گھنٹی بجی…ریسیوراٹھایا تو آواز آئی:
”میں شیلینڈر بول رہا ہوں، انٹلیجنس ڈپارنمنٹ سے، سعودی سفارت خانہ نے حکومت سے شکایت کی ہے کہ آپ مملکت سعودی عرب پر تنقید کرتے ہیں اور آپ کی تنقیدیں اخبارات میں شائع ہوتی ہیں”۔
میں نے جواب میں کہا:
”شیلینڈر صاحب! آپ تو جانتے ہیں ہم لوگ جمہوری ملک میں رہتے ہیں، یہاں تو لوگ اور اخبارات والے وزیر اعظم پر بھی تنقید کیا کرتے ہیں، کیا سعودی سفارت خانہ نے ہندوستان کو سعودی عرب سمجھ رکھا ہے، جہاں لوگوں کو بولنے لکھنے اور اظہارِ خیال کی آزادی حاصل نہیں اور جہاں ہر شخص منقارِ زیر پر بنارہتا ہے”۔
حکومت پر اور حکمراں پر تنقید کا حق اس دور میں دنیا کے بیشتر ملکوں میں لوگوں کو حاصل ہے اور ہندستان میں بھی یہاں کے ہر شہری کو یہ حق حاصل ہے۔ یہاں حکومت میں ایک ہزار خرابیاں ہوسکتی ہیں لیکن حاکم پر تنقید اور اس سے اختلاف کے حق تک یہ نظام اسلام کے دیے ہوئے حقوق کے عین مطابق ہے۔ سعودی عرب میں ایک ہزار اچھائیاں ہوسکتی ہیں لیکن یہ استبدادی نظام جس میں حکومت پر تنقید کا حق کسی کو حاصل نہ ہو بالکل غیر اسلامی ہے اور اسلام کا نظام اس جبر اور زبان بندی کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔ اس پابندی کی حدتک سعودی حکومت کا نظام یقینی طور پر غیر اسلامی ہے۔
اسلام کے سیاسی نظام میں ایک فرد کو یہ حق حاصل ہوتا ہے کہ حکمراں کا احتساب کرے یا ارباب ِحکومت پر تنقید کرے۔ حکمراں اگر غلطی کرے تو اسے متنبہ کرنا اور منکر پر نکیر کرنا ضروری ہے حضرت ابوبکر نے بیعت خلافت کے بعد لوگوں کے سامنے تقریر کی تو یہ الفاظ کہے:
فان احسنت فاعینونی وان اسأت فقوّمونی (کنز العمال ج٥،٣٤٩)
یعنی اگر میں درست طریقہ اختیار کروں تومیری معاونت کرو اور اگر میں غلط راستہ پر چلوں تو مجھے سیدھا کردو۔
ایک بار حضرت عمر نے لوگوں سے پوچھا اگر تم میرے اندر کوئی کجی دیکھو گے تو کیا کروگے ایک شخص نے صاف طور پر کہا”ہم اپنی تلوار کی دھار سے سیدھا کردیں گے” اس پر حضرت عمر نے فرمایا ”اللہ کا شکر ہے کہ اس نے عمر کی رعایا میں ایسے افراد کو رکھا ہے جو اس کی کجی کو اپنی تلواروں کی دھار سے سیدھا کرسکتے ہیں”۔
حضرت عمر ہی کا واقعہ ہے کہ وہ ایک مرتبہ اس حال میں خطبہ دے رہے تھے کہ ان کے جسم پر دو یمنی چادریں تھیں۔ اچانک حضرت سلمان فارسی کھڑے ہوئے اور کہنے لگے: واللہ ہم آپ کی بات نہیں سنیں گے، آپ پہلے یہ بتائیے کہ مال غنیمت میں جو یمنی چادریں آئی ہیں ان میں سے جب ہر ایک کے حصہ میں ایک چادر ہی آئی ہے تو آپ کے جسم پر دو چادریں کیوں ہیں۔ حضرت عمر نے اپنے بیٹے حضرت عبد اللہ سے گواہی دلوائی کہ دوسری چادر ان کی ہے جسے ان کے باپ نے ان سے مانگ لی تھی،تب سلمان فارسی بولے:” ہاں اب فرمائیے ہم سنیں گے اور آپ کی اطاعت کریں گے”۔
ایک مرتبہ ایک شخص نے خلیفہ حضرت عمر کو مخاطب کرکے کہا: اللہ سے ڈرو اور پھر اس نے زبان تنقید دراز کی۔ حاضرین میں سے ایک شخص نے اسے روکا اور کہا: بس کرو، بہت ہوگیا، حضرت عمر نے فرمایا اسے کہنے دو۔ اگر یہ لوگ نہ کہیں گے تو یہ بے مصرف ہیں اور ہم نہ مانیں گے تو ہم بے مصرف ہیں (ابویوسف کتاب الخراج)
اسلام کے نظامِ سیاسی میں حاکم اور امیر کا انتخاب ہوتا ہے۔ اسلام کے نظامِ حکومت میں ایک فرد کو حکمراں پر تنقید کرنے اور اس سے باز پرس کرنے کا حق حاصل ہوتا ہے۔ اسلام کے نظامِ خلافت میں بیت المال خلیفہ کی جاگیر نہیں ہوتا ہے بلکہ وہ صرف اس کا متولی ہوتا ہے، اس کی شخصی آمدنی اور خرچ پر بھی لوگوں کو احتساب کا حق حاصل ہوتا ہے۔
احتساب کی روح پورے طور رپر تو خلافت راشدہ کے زمانہ میں جلوہ گر رہی، لیکن مکمل طور پر مردہ کبھی نہیں ہوئی۔ اسلام کی تاریخ میں اس کے نمونے باربار ملتے ہیں۔ اسلام کی تاریخ میں سینکڑوں واقعات ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ روحِ احتساب اپنا کام کرتی رہی ہے۔ یزید کے خلاف حضرت امام حسین کا اقدام، اموی حکومت کے خلاف حضرت عبد اللہ بن زبیر کا اقدام، حضرت شیخ عبد القادر جیلانی کا ظالم حکمرانوں کو برسرمنبر ٹوکنا، شیخ الاسلام عزالدین بن سلام کا ان امرائے سلطنت کو بازار میں نیلام کروادینا جو شرعی طور پر آزاد نہیں کیے گئے تھے، حضرت امام ابوحنیفہ کا استبدادی نظام الٹنے کی کوشش میں حضرت زید بن علی کا ساتھ دینا، خلیفہ منصور کے زمانہ میں ظالم حکومت کے خلاف نفس ذکیہ کے بھائی جناب ابراہیم کا علم بغاوت بلند کرنا اور امام ابوحنیفہ کا ان کا ساتھ دینا، امام مالک کا جن کا لقب امام دارالہجرہ ہے محمد بن عبد اللہ ذو النفس الذکیہ کا ساتھ دینا جو خلیفہ عباسی کے مقابلے کے لیے کھڑے ہوئے تھے اور یہ جرأت مندانہ فتوی دینا کہ زبردستی کی بیعت کا اعتبار نہیں، مامون رشید کے مذہب اعتزال پر امام احمد بن حنبل کا نکیر کرنا اور احتساب کرنا، امام ابویوسف کا عدالت کے بھرے اجلاس میں خلیفہ کے وزیر کو مردود الشہادة قرار دینا وغیرہ ان جیسے احتساب کے واقعات سے اسلام کی پوری تاریخ بھری ہوئی ہے اور حکمراں پر احتساب اور منکر پر نکیر سے اسلامی تاریخ کا کوئی عہد پورے طور پر کبھی خالی نہیں رہا۔ لیکن افسوس اب یہ زمانہ آگیا ہے کہ دینی اداروں کے سربراہ بزدلی اور دولت پرستی کے وائرس کا شکار ہوگئے ہیں او رناانصافی کا رویہ اختیار کرنے کے لیے رشوتیں قبول کرتے ہیں اور لوگوں کو ان کی حق گوئی کی سزا دیتے ہیں اور ایک کفِ جو کے عوض ضمیر کو فروخت کررہے ہیں اور حق کی شمع روشن کرنے کے بجائے مداہنت سے کام لیتے ہیں۔
ایسے وقت میں جب عالم اسلام کی اینٹ سے اینٹ بجائی جارہی تھی،جب کارپٹ بمباری سے پہاڑوں پر رعشۂ سیماب طاری ہوگیا تھا،جب بعض مسلم ملکوں میں جوئے خون سروں کے اوپر سے گزررہی تھی، جب اغیار کی سازش سے جائز اور جمہوری حکومتوں کے تختے الٹے جارہے تھے اورجب اس سازش میں ”بڑے پاک طینت بڑے صاف باطن” قسم کے مسلم حکمراں بھی پورے طور پر شریک ہوگئے تھے، جب اسرائیل امریکہ کے اسلحہ سے ظلم کا پہاڑ توڑ رہا تھا اور جب اذ زاغت الابصار وبلغت القلوب الحناجر کا منظر سامنے آگیا تھا اس وقت دینی مدارس کے کچھ باحمیت اہل قلم اور اہل زبان علما تھے جنہوں نے کسی علمی جزیرہ میں بیٹھ کر درخت کے نیچے تحقیق کی بانسری بجانے یا ادب کا راگ الاپنے کے بجائے تحریر سے یا تقریر سے لوگوں کو جھنجھوڑنے اور ضمیر کو آواز دینے کا کام کیا۔ انہوں نے ”حالات بدل سکتے ہیں” اور ”عالم اسلام خون سے لالہ زار” اور عرب انقلابات اور شام ومصر کے حالات کے موضوع پر کتابیں لکھیں یابعض علماء نے تقریریں کیںاور ان کی آتش نوائی اور شعلہ بیانی یوٹیوب پر بھی موجود ہے اور ان اہل قلم سے جو صرف علمی نکتہ آفرینی اور شعروادب کے دائرہ میں محبوس تھے انہوں نے صاف کہہ دیا:
میں وہ صاف ہی نہ کہہ دوں جو ہے فرق مجھ میں تجھ میں
ترا درد دردِ تنہا مرا غم غمِ زمانہ
کیا اس وقت عالم اسلام کی ذمہ داری نہیں ہے کہ وہ مسجد اقصیٰ او سرزمین فلسطین کی بازیابی کے لیے سروں کو ہتھیلی پر لے لے اور جان کی بازی لگادے۔ اگر اس وقت جب ایک باحمیت شخص یہ دیکھتا ہے سرزمین فلسطین کے گردوپیش جو ریاستیں اور حکومتیں ہیں ان کے حکمراں غیرت ایمانی سے خالی اور عیش وعشرت کے دلدادہ ہیں۔ جب وہ دیکھتا ہے عرب حکومتیں دینی تحریکات کو دہشت گرد قرار دے رہی ہیں اور شام میں بشار الاسد اور ایران کے ظلم سے عوام کو نجات دلانے کے لیے کچھ نہیں کررہی ہیں اور اپنے مجاہدین کو بھی وہاں سے واپس بلانے کا حکم دے رہی ہیں او رمصر میں ظالموں کی پشت پناہی کررہی ہیں تو اس کا خون کھولتا ہے۔ وہ ان حکمرانوں کو اس عقاب کے مانند دیکھنا چاہتا ہے جو پہاڑوں کی چٹانوں پر بسیرا کرتا ہے۔ وہ انہیں صلاح الدین ایوبی کی طرح دیکھنا چاہتا ہے جسے تھوڑے عرصہ کے لیے مسجد اقصیٰ کے ہاتھ سے جانے کا ایسا غم تھا جیسے اس کا اکلونا بیٹا مرگیا ہے۔ جب تک یہ غم نہ ہوگا فلسطین دوبارہ حاصل نہیں ہوسکتا ہے۔
لوگ خوش ہوتے ہیں کہ مسلمانوں کے پاس، عرب حکومتوںکے پاس اور خلیجی ریاستوں کے پاس پٹرول کی دولت ہے۔ لیکن دولت کس کام کی ہے۔ اگر اس سے مسجد اقصیٰ کی بازیابی ممکن نہ ہو، وقار وعزت کی باز آفرینی نہ ہو، دولت کے زبردست ذخیرہ اور قارون کے خزانہ کے باوجود مسلمانوں کی عزت پامال ہے، اور اسرائیل اتنا طاقتور ہے کہ موجودہ عرب طاقتیں سب مل کر اس کا بال بیکا نہیں کرسکتی ہیں۔ فلسطین کو وا گزار کرنے کے لیے تو زبردست منصوبہ بندی کی اور منصوبہ بندی سے پہلے غم کی ضرورت ہے، غم گہرا نہیں ہوگا تو منصوبہ بندی کیسے ہوگی۔ منصوبے تو فکرواضطراب سے پیدا ہوتے ہیں۔
حرمین شریفین کی خدمت کی نسبت جنہیں حاصل ہے، انہیں تو طائر بلند بام ہوناتھا، وہ امریکہ اور یورپ کے دانہ ودام کا شکا رکیسے ہوگئے۔ سعودی عرب اور خلیجی ریاستوں کو پٹرول کے بدلہ امریکہ سے صرف اتنے ہی اور صرف اسی معیار کے اسلحے مل سکتے ہیں جسے اسرائیل منظور کرلے۔ امریکہ کی خارجہ پالیسی اسرائیل کی مرضی سے تیار ہوتی ہے۔ اسرائیل کتنا بھی ظلم کرے، بیروت کے پناہ گزین کیمپوں میں صابرہ اور شتیلہ میں قتل عام کرے، غزہ میں ہزاروں فلسطینیوں کو خاک وخون میں ملادے، مقبوضہ علاقہ میں لوگوں کو تہہ تیغ کردے، امریکی کانگریس میں مذمت کی ایک تجویز پا س نہیں ہوسکتی ہے۔ امریکہ میں اسرائیل کی لابی اتنی مضبوط ہے کہ وہ جدید ترین اور خطرناک ترین ہتھیار جن کا پروڈکشن ابھی شروع ہوا ہے اور جو ابھی امریکی فوجوںکے پاس بھی نہیں پہونچے ہیں وہ اسرائیل کے پاس پہونچ جاتے ہیں۔ امریکہ کی وہ مالی امداد، اربوں ڈالر کی خیرات جو ساری دنیا میں تقسیم ہوتی رہتی ہے،اس کا ایک تہائی حصہ صرف اس اسرائیل کو ملتا ہے جس کا ابتدائی اولین رقبہ ١٥کیلو میٹر سے زیادہ نہیں تھا۔ اسرائیل کو اربوں کھربوں ڈالر کی فوجی امداد ملتی ہے اور اسی کے بقدر اقتصادی امداد ملتی ہے اور اسی کے بقدر اس کو قرضے دیے جاتے ہیں اور پھر ان قرضوں کو معاف کردیا جاتا ہے۔ اسرائیل کو امریکہ کی طرف سے سادہ چیک دے دیا گیا ہے کہ جتنا چاہے امریکہ سے طلب کرلے۔ اسرائیل کے پاس اتنی دولت اور اتنی طاقت ہے کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کی بھی اسے پرواہ نہیں، تمام عرب ممالک اس کے جوتوں کی نوک پر ہیں۔ عرب ملکوں کے پاس موجود تمام ہتھیار اور ان کے ہوائی اڈوں کی تفصیلات دستاویز کی شکل میں اسرائیل کے پا س موجود ہیں۔ اس کے پاس وہ جوہری ہتھیار بھی ہیں جو کسی عرب ملک کے پاس نہیں ہیں۔
مسلمانوں کی عزت نیلام ہوچکی ہے اور اس کے سب سے زیادہ ذمہ دار وہ عرب ممالک ہیں جن کو اللہ نے پٹرول کی دولت سے نوازا تھا۔ لیکن اس دولت سے انھوں نے صنعتی انقلاب لانے اور اسلحہ سازی کی طرف توجہ کرنے کے بجائے عیش وعشرت کی رنگینیوں میں ڈوبناپسند کیا۔ انہوں نے پوری قوم کو صارفین کی قوم بنادیا۔حالانکہ ہونا یہ چاہیے تھا کہ وہ صرف ان ہی سامانوں کا استعمال کرتے جسے وہ خود بناتے۔ کم از کم ان کی صنعت اتنی ترقی یافتہ ہوتی کہ لوگ ان سے بھی سامان در آمد کرتے، در آمداور برآمد میں توازن قائم رہتا اور اسلحہ سازی کا تو حکم قرآن میں ہے ”واعدّولہم مااستطعتم” اور قرآن نے یہ بھی بتادیا ہے کہ اسلحہ سازی کا معیار کیا ہونا چاہیے”ترھبون بہ عدوّاللّٰہ وعدوّکم” یعنی معیار یہ ہونا چاہیے کہ دشمنوں پر تمہاری دھاک بیٹھ جائے۔ کیا کوئی مسلم ملک اس حکم خداوندی پر عمل کرسکا ہے؟
تمام عرب مسلم ملکوں میں استبدادی نظام جاری اورساری ہے، اس وقت دین اس بات کا تقاضہ کرتا ہے کہ ان ملکوں کے علماء اور دانشور اٹھیں اور حکومت سے اس بات کا مطالبہ کریں کہ ملک کے اندر ایک انقلابی تبدیلی لائی جائے اور ایسا تعلیم نظام رائج کیا جائے جس سے ایک طرف دین کو فروغ ہو، منکرات کے اڈے ختم کئے جائیں۔ دوسری طرف ملک کے اندر بڑے بڑے سانٹسٹ اور ٹکنوکریٹ پیدا ہوں اور ملک میں صنعتی انقلاب آئے ، اسلحہ سازی کے کارخانے قائم ہوں اور ہر اعتبار سے ملک کو خود کفیل بنایا جائے ، حکومت کو راہ راست پر لانے کی ذمہ داری علماء اور مفکرین پر ہے ۔امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی ذمہ داری سب سے زیادہ ان ہی پر ہے ۔
اس وقت صورت حال یہ ہے کہ یہودی اور عیسائی مسلمانوں سے ہزار گنا زیادہ طاقتور ہیں اور پھر وہ یہودی اور عیسائی جزیرة العرب کے اندراور اس کے گردوپیش موجود ہیں، ان کی فوجی چھائونیاں ہیں، ان کی کمپنیاں ہیں، ان کے ”این جی اوز” میں وہ وہاں برسرکار اور برسرملازمت ہیں، وہ پورے طنطنہ اور رعب داب کے ساتھ رہتے ہیں۔ یہ وہ یہودی اور عیسائی ہیںجن کے بارے میں زبانِ رسالتۖ نے فرمایا تھا: ”اخرجوا الیہود والنصاریٰ من جزیرة العرب، لایبقی دینان فی جزیرة العرب” یعنی جزیرة العرب سے یہود ونصاری کو نکال باہر کرو، جزیرة العرب میں اسلام کے ساتھ کوئی دوسرا دین نہیں رہ سکتا ہے۔
جب یہود ونصاریٰ دنیا میں اتنے زیادہ طاقتور ہوں کہ وہ قوتِ عظمیٰ بن چکے ہوں اور جب نہایت خطرناک ہتھیاروں کا ذخیرہ بھی ان کے پاس ہو اس وقت حرمین کی سرزمین کے گردوپیش ان کی موجودگی قیامت کا پیش خیمہ بن سکتی ہے۔ اِس وقت عالم اسلام کے قلب کی موت وحیات کا مسئلہ درپیش ہے، اس وقت ضرورت ہے کہ پورے عالم اسلام کو، اس خطرہ سے واقف کرایا جائے اوراہل علم کی جانب سے عرب حکمرانوں پر دبائو ڈالا جائے کہ وہ مستقبل کی صحیح منصوبہ بندی کریں۔ اس وقت جو حال ہے وہ بہت تشویشناک ہے ،اس اضطراب انگیز صورت حال پر کچھ باغیرت اور باحمیت لوگوں کا دل کڑھتا ہے اور وہ قاشِ دل کو سامنے لاتے ہیں اور خون دل میں قلم کو ڈبو کر غم انگیز اور حمیت خیز تحریریں لکھتے ہیں تو یہ بات بھی سفارت کاروں کو ناگوار گزرتی ہے۔
کان ان کے وہ نازک کہ گراں میری غزل بھی
٭ ٭ ٭