تحریر: ڈاکٹر شہلا گوندل
آج کا دن معمول سے ہٹ کر تھا۔ جونیئر سیکشن کے میتھس ٹیچر گلا خراب ہونے کی وجہ سے چھٹی پر تھے، اور ان کی کلاس کی ذمہ داری مجھے سونپ دی گئی ۔
میتھس ہمیشہ سے میرا پسندیدہ مضمون رہا ہے، اور بطور انجینئر، میں نے ہمیشہ اس میں ایک خوبصورتی دیکھی ہے۔ لیکن جونیئر بچوں کے ساتھ میتھس پڑھانے کا تجربہ کچھ الگ ہی تھا۔
کلاس میں داخل ہوتے ہی میری نظر ایک روشن آنکھوں والے بچے پر پڑی، جو انتہائی توجہ کے ساتھ اپنی نوٹ بک میں کچھ لکھ رہا تھا۔ میں نے اس کے قریب جا کر پوچھا، “کیا تمہیں کسی مدد کی ضرورت ہے؟”
وہ مسکرا کر بولا، “نہیں”
میری نظر اچانک اس کی نوٹ بک پر پڑی، اور مجھے حیرت کا جھٹکا لگا۔ وہاں calculus کا ایک سوال لکھا تھا:
اس نے یہ سوال حل بھی کر لیا تھا، اور وہ بھی بالکل درست!
میں حیران رہ گئی۔ یہ سوال تو سینئر کلاس کے لیے تھا!
“یہ کس نے سکھایا آپ کو؟” میں نے پوچھا
“مجھے شوق ہے اور میں سینئر سیکشن کے میتھس کے سوال حل کرتا ہوں “ ہمارے ٹیچر کہتے ہیں کہ میتھس کو سمجھنا دنیا کو سمجھنے جیسا ہے۔”
“اور آپ کا نام؟”
“روشن، میں انڈیا سے ہوں۔”
روشن کی یہ بات مجھے بہت متاثر کر گئی۔ اس کی ذہانت اور میتھس کے لیے شوق نے مجھے اپنے ماضی کی یاد دلا دی۔ مجھے وہ لمحہ یاد آیا جب میں NTNU میں تھی، اور میرے پروفیسر نے کوریڈور میں چلتے چلتے کہا تھا:
“I know that Indians are really good in Mathematics.”
ابھی میں اس کی کاپی دیکھ رہی تھی کہ ایک اور بچہ الجبرا کے سوال میں الجھا ہوا نظر آیا۔ اس کی نوٹ بک میں سوال میں لکھا تھا:
“شکریہ”
لیکن میرا ذہن ابھی بھی روشن کی نوٹ بک اور اس کی ذہانت پر الجھا ہوا تھا۔ میں نے اس سے کہا، “روشن، اگر تمہیں میتھس میں کبھی مدد کی ضرورت ہو، تو مجھے ضرور بتانا۔”
وہ مسکرا کر بولا، “کیا آپ مجھے integration by parts سکھا سکتی ہیں؟”
میں حیرت سے مسکرا دی۔ “کیوں نہیں؟ اگلے ہفتے میں آپ کے لیے ایک خاص سوال لے کر آؤں گی اور آپ جب چاہو مجھ سے مل کر میتھس کی نئی نئی چیزیں سیکھ سکتے ہو۔”
یہ سن کر مجھے ڈاکٹر عبدالسلام کا وہ مشہور واقعہ یاد آیا جب انہوں نے فزکس میں نوبیل انعام جیتنے کے بعد اپنے میتھس کے استاد کے گلے میں میڈل پہنایا تھا۔ وہ کہا کرتے تھے:
“میرا نوبیل پرائز میرے میتھس کے استاد مسٹر گنگولی کا ہے”
روشن کو دیکھ کر میرے دل میں بڑی شدت سے یہ خواہش جاگی کہ شاید میں بھی روشن جیسے بچوں کے لیے ویسا ہی کچھ کر سکوں جو ڈاکٹر سلام کے استاد نے ان کے لیے کیا تھا۔ مجھے یقین ہے کہ کسی دن، یہ بچہ اپنی ذہانت سے پوری دنیا کو روشنی دے گا۔
کاش ! میں اس کی کہانی کا ایک ننھا سا دیا بن سکوں ۔