وقار احمد ملک
سال کا آخری دن بڑا خوشگوار تھا۔پورا دن سورج کی گرمی اور دسمبر کی سردی میں مقابلہ جاری رہا۔یہ مقابلہ سردیوں کے تمام موسم میں جاری رہتا ہے۔لیکن 15دسمبر سے31 جنوری تک سردیوں کی برفانی ٹھنڈک عظیم آفتاب کو مات دئیے رکھتی ہے۔سورج کی ہلکی ہلکی تمازت کے باوجود ہوا کا کوئی آوارہ جھونکا گرم چادروں،جرسیوں،کھدر کے موٹے کپڑوں کے باوجود جسموں کو سردی کا احساس دلا جاتا۔شا م کو اس سردی نے مزید بڑھ جانا تھا۔لیکن ہوائوں جی شدت اور بادلوں کی آمد نے شام سے پہلے ہی لوگوں کو گھروں کی راہ دکھا دی۔سرِشام ہی قصبے کا چھوٹا سا بازار ویران ہو گیا۔اکدکا دکانیں کھلی تھیں۔لیکن خریدار نام کو نہ تھا۔آج میں کئی سالوں بعد اپنے گائوں جا رہا تھا۔قصبے سے گائوں کا فاصلہ پانچ کوس سے زائد نہ تھا۔میں نے بس سے اتر کر ایک چھپرے ہوٹل میں قدم رکھا ہی تھاکہ برفانی ہوائوں نے موسم کی نزاکت کا احساس دلا دیا ۔مجھے گائوں تک کا فاصلہ پیدل طے کرنا تھا۔قصبے سے گائوں تک چلنے والے دو تین ٹانگے کب کے گھر جا چکے تھے۔میں نے مٹی کی دیواروں اور گھاس پھوس کے چھت والے اس ہوٹل میں تھوڑی دیر آرام کیا۔چائے کا ایک کپ پی کر باہر نکلا۔تو بوندا باندی شروع ہو چکی تھی۔میں نے کھجور والی مسجد میں نماز ادا کی۔مسجد میں بھی گنتی کے نمازی تھے۔جنھوں نے کہیں کہیں سے پھٹے ہوئے کھیس اوڑھ رکھے تھے۔باہر بارش تیز ہو گئی تھی۔کچے صحن میں کھجور کا درخت طوفانی ہوا میں سائیں سائیں کر رہا تھا۔لیکن مسجد کی اندرونی فضا مرطوب تھی۔ٹوٹے ہوئے کواڑوں سے اندر آنے والی ہوا جسموں پر ٹھنڈی چھریاں چلا رہی تھی۔نمازیوں کے گھر چونکہ قریب تھے۔اس لئے وہ ایک ایک کر کے بارش کے باوجود اپنے اپنے گھروں کو چل دیئے۔آخری نمازی چالیس پچاس کا ایک ادھیڑ عمر شخص تھا۔اس کا گھر شاید مسجد سے کچھ فاصلے پر تھا۔وہ بھی بارش رکنے یا آہستہ ہونے کا انتظار کر رہا تھا۔اس کے استفسار پر میں نے اس کو بتایا کہ یہاں سے پچاس کوس دور گائوں اتراء میں اپنے رشتہ داروں کے پاس جانا ہے۔اور یہ فاصلہ مجبورا پیدل ہی طے کرنا ہے۔اس نے مجھے مشورہ دیا کہ رات اس مسجد میں یا میرے گھر بسر کر لو اور صبح تانگے کے ذریعے چلے جانا۔اب رات کے وقت گائوں جانا خطرے سے خالی نہیں۔خطرے کی وجوہات اس نے آوارہ کتے،سانپ اور بھیڑیئے بتائے لیکن سب سے زیادہ خطرناک صدیوں پرانے رچھیاں کے قبرستان کو قرار دیا جو نیم پختہ سڑک کے دونوں طرف پھیلا ہوا تھا۔اور بعض روایات کے مطابق اندھیری راتوں میں خوفناک قسم کی چیخیں بھی سنائی دیتیں۔ میں اپنے آپکو پڑھا لکھا جدت پسند نوجوان خیال کرتا ہوں ۔اس شخص کی باتیں مجھے توپم پرستی اور قدامت کی مثالیں معلوم ہوئیں۔میں سفر دوبارہ شروع کرنے کا ارادہ کر چکا تھا۔لیکن بارش۔۔۔موسلا دھار بارش اور سردی میری راہ میں حائل تھی۔کوئی اڑھائی گھنٹے بعد بارش کا زور ٹوٹا۔میں مسجد سے نکل پڑا اور گائوں جانے والی سڑک پر ہو لیا۔بارش مکمل طور پر ختم نہں ہوئی تھی۔ہلکی ہلکی پھوار تیز ہوا میں اپنی قور بڑھا رہی تھی۔میں قصبے سے باہر نکلا تو ہر طرف کی پراسرا خاموشی ،اندھیرے اور ویرانی نے ماحول کو دہشت زدہ بنا رکھا تھا۔لیکن میں ھیران کن طور پر پرسکون تھا۔اور آہستہ آہستہ قبرستان کے قریب پہنچ رہا تھا۔
گائوں جانے کا اصل راستہ پکی سڑک کا ہے لیکن وہ عموما دن کے وقت تانگے،موٹر سائیکلوں اور اکادکا گاڑیوں کے زیر استعمال ہوتاہے۔یہ فاصلہ قبرستان والے شارٹ کٹ سے دوگنا ہے۔یہی وجہ ہے کہ میں جب بھی اپنے گائوں جاتا عموما اسی معروف رستے سے ہی جاتااور ہر دفعہ دن کا ہی وقت ہوتا۔اس راستے پر میں پندرہ برس بعد سفر کر رہا تھا۔اور وہ بھی مجبوری کی حالت میں۔آخری مرتبہ غالبا رچھیاں کے قبرستان میں دادا اور چھوٹے بھائی وسیم کی قبر پر فاتحہ پڑھنے آیا تھا۔دنیا کے جھمیلوں نے مجھے ان ہستیوں کو بھلانے پر مجبور کر دیا اور پندرہ برس کی طویل مسافت نے مجھے اپنے خون کی خوشبو سے دور کیئے رکھا۔داد جیسی بزرگ ہستی تو میری پیدائش سے پہلے ہی رخصت ہو چکی تھی۔لیکن ننھا وسیم جس کی مختصر زندگی میری بانہوں میں گزری۔جس کی آنکھوں میں مجھے سمندروں کی گہرائیاں نظر آئیں۔اس کے جسم سے مالٹوں کے اس باغ کی خوشبو آتی جس کا بور خزاں کی طویل بارشوں میں بھی اپنا وجود برقرا رکھتا ہے۔وہ بچہ جس کے انگ انگ سے پاکیزگی اور محبت کے شرارے پھوٹ رہے تھے۔اسے میں منوں مٹی تلے دبا کے بھول گیا تھا۔”زندگی فانی ہے” کے قول نے 15برس میرے جذبات کو سلائے رکھا۔لیکن اس رات جب میں اکیلا تھا۔بارش کے چھینٹے اور ہوائوں کے تھپیڑے مجھے کمزور بشر ہونے کے ثبوت فراہم کر رہے تھے۔اچھانک سمندر کی گہرائیاں میرے سامنے آگئیں اور مجھے مالٹوں کے اس باغ کی خوشبو محسوس ہونے لگی جو خزائوں کی تیز بارش میں نہا رہا تھا۔ بارش میرے گناہوں اور کثافتوں کو دھو رہی تھی۔ہوائیں مجھے پاکیزگی اور لطافت عطا کر رہی تھیں۔میری بانہوں میں ایک ننھا سابچہ ہمک رہا تھا۔وہ مسلسل مجھے تکے جا رہا تھا۔بڑی محبت کے ساتھ،چاہت کے ساتھ۔ہوا کی سیٹیاں آہستہ ہوئیں تو اس نے توتلی زبان میں مجھے مخاطب کیا”بھائی تم کہاں چلے گئے تھے مجھے اس جنگل بیابان میں چھوڑ کر؟کیا تمہارا خون اتنا سفید ہو گیا کہ سال میں ایک چکر بھی یہاں نہیں لگا سکتے؟شروع شروع میں مجھے بہت ڈر لگتا تھاجنوں ۔بھوتوں سے نہیں ویرانی سے۔شروع شروع میں مجھے تم پر اور تمام گھر والوں پر غصہ بھی آیا تھا لیکن اب۔۔۔اب میں اس ماحول اور تمہارے خلوص کے معانی جان گیا ہوںیہ قبریں یہ کتبے یہ شیشم یہ کیکر یہ ہوائیں،بادل،بارش،گرمی،سورج تمام میرے ساتھی ہیں لیکن تم میرے لئے اجنبی ہو۔بالکل اجنبی۔آج بھی مجبوری تمہیں یہاں لے آئی ہے۔ورنہ تم شاید اسی دن ہی یہاں آتے جس دن تمہاری طبعی ساخت روحانی ساخت کا دامن چھوڑ چکی ہوتی۔پھر تم اور میں برابر ہو جاتے۔پھر سے دوست بن جاتے۔پھر سے بھائی بن جاتے۔وسیم بولتا رہا ،بولتا رہا۔میں بھی سنتا رہا۔یوں بولتے سنتے زمانے بیت گئے۔صدیاں گزر گئیں۔کئی نسلیںجوان اور کئی نسلیں بوڑھی ہو گئیں۔لیکن اس رات،اس خوفناک رات کو وقت تھم گیا۔گھڑی کی سوئیوں نے حرکت بند کر دی۔اس رات متحرک چیزیں مجسم تھیں اور مجسم حرکت میں۔مردے بول رہے تھے اور جیتے جاگتے لوگ خاموش۔
مجھے اپنا آپ بہت ہلکا محسوس ہوا اتنا ہلکا کہ گیس کا غبارہ بھی مجھے اڑا کرلے جا سکتا تھا۔لیکن قدرت کو ابھی میری اڑان منظور نہ تھی۔شاید میرے کچھ امتحان ابھی باقی تھے۔اسی طرح کے امتحان،شوعر کے امتحان،ویرانیوں اور خاموشیوں کے امتحان۔مطلع بالکل صاف ہو چکا تھا۔بارش کب کی رک چکی تھی۔ہوا بھی ساکن تھی۔دور شاہ والا اور شمار کی آبادیوں کی بتیاں چھوٹی چھوٹی کہکشاں بنا رہی تھی۔ننھا جس میری جھولی سے غائب تھا۔میں اپنی سوچوں کو قابو کرنے میں مصروف تھا کہ گائوں اتراء کی مسجد سے اذان، فجر بلند ہوئی ۔سحر ٹوٹ چکا تھا لیکن اس کا اثر ابھی قائم تھا۔20 فٹ لمبی اور صدیوں پرانی بابا موسیٰ کی قبر کا مجاور اگر ”حق ہو” کا نعرہ بلند نہ کرتا تو نہ جانے میں کتنی دیر وہیں پڑا رہتا۔قبرستان کی ریتلی زمین میں ٹھنڈک واپس آرہی تھی۔اس زمین میں میرے رویے اور گزر جانے والے کے جسم کی ٹھنڈک بھی شامل تھی۔میں اپنے گائوں ۔۔۔اپنی جنم بھومی کی طرف رواں دواں تھا۔