زمانے کے رنگ ڈھنگ

زمانے کے رنگ ڈھنگ
فیشن کے سنگ سنگ
شازیہ عندلیب
فیشن کی دنیا میں ہر روز نت نئے ڈیزائن اور اسٹائلز کی بھرمار نے تو مڈل کلاس طبقے کو ادھ موا کر کے رکھ دیا ہے۔کون سا فیشن کریں اور کون سا نہ کریں۔فیشن ہر روز جدید سے جدید تر ہوتا چلا جا رہا ہے۔فیشن ڈیزائنر ہر دور میں سرگرم عمل رہتے ہیں اور لوگوں کو نت نئے فیشن ڈیزائن اور اسٹائلز دینے کے لیے ہر وقت بر سر پیکار رہتے ہیں اسی لیے تو ہر اچھے برے وقت میں بر سر روزگار بھی رہتے ہیں۔اب یہی دیکھ لیں وبائی مرض نے پوری دنیا کو لپیٹ میں لے لیا اکثرکاروبار ٹھپ ہو گئے۔سوائے دو کروباروں کے ایک کھانے پینے کا کام اور دوسرا کپڑے کا کاروبار۔اور تو اور لوگوں نے وباء کے ڈر سے بیمار ہونا چھوڑ دیا اور مرنا بھی چھوڑ دیا کیونکہ وباء کے ڈرسے لوگوں نیاس قدر احتیاطیں کر لیں کہ سوسائٹی میں ٹرانسپورٹ کم ہو گئی اور فضائی آلودگی اور ریستورانوں کے غیر صحتمند کھانوں سے ایسی نجات ملی کہ لوگوں
کی عمومی صحت کا گراف اوپر چلا گیا
اور تو اور اس نئی وباء نے لوگوں کو صاف ستھرا رہنا سکھا دیا گھروں میں رہنا بتا دیا۔لوگوں نے وباء کے ڈر سے بہت کچھ چھوڑ دیا اک نہ چھوڑا تو فیشن نہ چھوڑا۔یہی وجہ ہے کہ چھوٹی عید پر جیسے ہی حکومت نے لاک ڈاؤن ختم کرنے کا اعلان کیا لوگ باگ اپنے گھروں سے یوں بازاروں کی جانب بھاگے جیسے بھیڑیں کئی روز تک باڑے میں بند رہنے کے بعد باڑے سے بھاگتی ہیں
اب لوگوں کو اس بات کی متلق پرواہ نہیں تھی کہ وہ بیمار ہو جائیں گے یا پھر سے گھروں میں نظر بند کر دیے جائیں گے بلکہ وہ وائرس کو منہ چڑاتے اسکی ہنسی اڑاتے اور اس پہ پھبتیاں کستے ہوئے کپڑوں کی دوکانوں پہ ٹوٹ پڑے۔لوگوں نے دوکانوں پر سے کپڑوں کا یوں صفایا کر دیا جیسے ٹڈی دل نے کھیتوں میں فصلوں کا صفایا کر دیا تھا۔ بازاروں میں لوگوں کی اس یلغار کا نتیجہ یہ نکلا کہ اب بڑی عید پر پھر سے لوگوں کو ایک اور لاک ڈاؤن اور اور نظر بندی کا سامنا ہے۔عینی شاہدوں کا کہنا ہے کہ کپڑوں کی قیمتیں ہوشربا اور آئسمان سے باتیں کرتی دکھائی دیتی تھیں لیکن اس ہوشربائی کے باوجود خواتین کپڑوں کے یوں ڈھیر لگا رہی تھیں جیسے کپڑے قیمتاً نہیں مفت میں بٹ رہے ہوں۔ اب کپڑے تو اکٹھے کر لیے مگر اب دکھائیں گے کسے؟؟
جب کہیں آئیں جائیں گے ہی نہیں۔
وہ جو شاعر نے کہا ہے کہ۔۔۔۔۔
اب بال بناؤں کس کے لیے
اب سنور کے جاؤں کس کے لیے
اب تو خواتین کے لیے یہی آپشن رہ گیا ہے کہ وہ یہ
خوبصورت لباس اپنے شوہروں کو جبکہ بچے اپنی ماؤں اور بہن بھائیوں کو پہن کر دکھائیں۔اس طرح دو طرح کے فائدے ہوں گے ایک تو باہر جانے کا خرچہ بچ جائے گا دوسرے لوگ نظر بد سے بھی بچ جائیں گے۔ایک پینتھ میں دو کاج۔
اگر آجکل کے فیشنوں کا جائزہ لیا جائے تو نوجوانوں میں سب سے ذیادہ رجحان برینڈڈ کپڑوں کا ہے۔فیشن کی دنیا میں کچھ بیبیاں، بابے اور مائیاں چھائے ہوئے ہیں۔نوجوان لڑکے لڑکیوں کی اکثریت انہی کے لباسوں اور اسٹائلز کو ترجیح دیتی ہے۔اور یہ نت نئے اسٹائلز ہیں کیا؟ ایسے تمام لباس جن کے دامن ٹیڑھے میڑھے کپڑے پھٹے پرانے پاجامے اور پینٹیں یا تو اس قدر ٹاٗئٹ ہوں کہ یوں لگے جیسے جسم پہ رکھ کر ہی سی گئی ہیں یا پھر اس قدر گھسے ہوں کہ پورے جسم کو ڈھانپنا مشکل نظر آئے۔ آستینیں اور گلے یا تو کندھوں سے پھٹے ہوئے ہوں یا پھر آستینیں اس قدر بڑی ہوں کہ کچن میں کام کرنا یا دعوت میں کھانا تناول کرنا مشکل ہو جائے۔شائید آستینوں کو ڈیزائن کرتے وقت فیشن ڈیزائنروں نے یہ نہیں سوچا کہ یہ کپڑے پہن کر لوگ دعوتوں اور پارٹیوں میں جائیں گے۔وہاں جا کر کھانا بھی کھائیں گے۔اور کھانا انہی ہاتھوں سے کھانا ہوتا ہے جن کی بانہوں پر آدھے میٹر کی آستینیں لگی ہیں۔جب ان آدھ گزی آستینوں سے کھانا ڈالیں تو میز پر پڑے سالن قورمے روسٹ اور بھاپ اڑاتے پلاؤ کا یہ آستینیں طواف کرتی ہیں پھر کھانا پلیٹوں میں منتقل ہوتا ہے۔اور جو گز بھر طویل باٹم والے فراکوں کو اٹھانے کے لیے تو کوئی نہ کوئی گھر یا برادری کے لوگ مدد کے لیے میسر آ ہی جاتے ہیں کہ چلو لڑکی کی رخصتی ہے تو اسے تزک و احتشام کے ساتھ رخصت کیا جائے لیکن یہ جو آستیں ہیں انہیں اٹھانے اور سنبھالنے کیایسی کوئی سہولت میّسر نہیں۔اس لیے ڈیزائنروں سے درخواست ہے کہ ڈیزائن کرتے وقت ہاتھ ذرا ہولا رکھیں اور آستینوں پہ کپڑوں کے تھان لگانے سے گریز کریں
پھر لباس جس قدر ٹیڑھا میڑھا ہو گا اسی قدر ماڈرن سمجھا جائے گا۔بڑی عمر کی خواتین کو یہ اسٹائلز ایک آنکھ نہیں بھاتے۔وہ انہیں پھٹے پرانے لباس ہی گردانتی ہیں۔جبکہ سر پہ دوپٹہ اوڑھنے والے کو دقیانوس، حجاب لینے والیوں کو انتہا پسند اور جسم ڈھانپنے والوں کو پینڈو سمجھا جاتا ہے۔جہاں تک کلچر کا سوال ہے تو اسکا تعلق لوگوں کے رہن سہن اور علاقائی آ ب و ہوا سے ہے۔اسلام فیشن سے نہیں بے حیائی سے منع کرتا ہے نوجوان اس لیے اندھا دھند مغرب کی تقلید کرتے ہیں کیونکہ مشرق اور مسلمان اپنے ٹرینڈز اور برینڈز نہیں چلاتے اور جو چلاتے ہیں وہ بھی
ذیادہ تر مغرب کی ہی نقالی کرتے ہیں۔اگر اسلام فیشن پر پابندی لگاتا تو عرب کی خواتین اس قدر خوبصورت لباس نہ پہنتیں۔اب یہ تو آپ کی اپی چوائس ہے کہ آپکا انتخاب کیا ہے۔وقتی خوشی اور واہ واہ کیلیے اس خالق کائنات کی نگاہوں سے گرنا یا پھر اسے بھی خوش رکھنا اور خود بھی خوش رہنا کیونکہ اللہ تبارک نے صاف کہہ رکھا ہے کہ
اے مومنوں تم جو چاہو حلال چیزوں میں
سے کھاؤ اور جو چاہو پہنو۔

اپنا تبصرہ لکھیں