زمین اور انسان‎

وسیم ساحل
بندہ ذرا غور کرے تو شائد اس لئے حضرت آدم کو اللہ تعالیٰ نے زمین پر اتارنے کو ہی ترجیح دی اور یوں زمین کی انسان سے دوستی تب سے ہی شروع ہوئی جب سے حضرت آدم نے اس پر قدم رکھا۔ قرآن مجید میں بھی ‘ زمین ‘ کا ذکر 450مرتبہ آیا ہے۔ قرآن پاک میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ ۔ ”اور اسی نے مخلوق کے لیے ذمین بچھا دی۔جس میں میوے ہیں اور خوشے والے کھجور کے درخت ہیں۔ائنات میں جتنے بھی سیارے ہیں ان سب میں صرف زمین ہی ایسا واحد سیارہ ہے جہاں انسان ایک نارمل طریقے سے اپنی ذندگی گزار سکتا ہے۔آج کے انسان نے چاند کو تو چھو لیا ہے لیکن ابھی تک وہاں مناسب اندازسے زندگی گزارنے کے قابل بالکل نہیں ہوا۔ سائنسدان اور ماہرین نے بھی یہ بات واضح کی ہے کہ دوسرے تمام سیاروں کی نسبت انسانی ذندگی کی بقاء کے لیے زمین ہی سب سے بہترین اور خوبصورت ترین سیارہ ہے۔
زمین انسان کی بقاء کے لئے جبکہ انسان زمین کو فنا کے لئے مصروف عمل دکھائی دیتا ہے۔ ہم اپنے اردگرد کے ماحول کوخراب کر کہ نہ صرف اپنے ساتھ بلکہ اس زمین پرموجود دوسری مخلوقا ت کے ساتھ بھی سراسر ذیادتی کر رہے ہیں۔ کہتے ہیں کہ وہ قومیں کبھی ترقی نہیں کرتیں جو اپنی مٹی سے پیار نہیں کرتیں ۔ بالکل اسی طرح انسان اگر زمین سے محبت کرے گا تو زمین بھی اسے ذندگی دے گی۔ آج ہم اپنی آنے والی نسلوں کے لئے کیا کچھ نہیں کررہے لیکن کیا ہم انہیں قدرتی طور پر ایک اچھا ماحول دینے کی بھی کوشیش کر رہے ہیں؟خدا نے انسان کو بے شمار قیمتی اور صاف ستھری حالت میں نعمتیں عطا کی ہیں اور مستقبل کی نسلوں کو بھی خدا کی اس نعمت کو استعمال کرنے کا برابر کا حق حاصل ہے اور یہ اب ہم پر منحصر ہے کہ ہم ان کا خیال کس قدر کرتے ہیں۔ انسان کی طرح دوسری مخلوقات بھی اس کرہ ارض پر ذندگی گزارنے اور یہاں کے وسائل سے فائدہ اٹھانے کا مساوی حق رکھتی ہیں۔ حیوانات اور چرند پرند قدرت کا انمول عطیہ ہیں اور ان کی قدرتی نشوونما صرف جنگلات میں ہی ممکن ہے۔ امریکی سائنسدانوں کے مطابق انسان کو مزید یہ خطرہ لاحق ہے کہ اگلے چند برسوں میں اس لیئر کا وجود ختم ہو سکتا ہے۔کہتے ہیں کہ زمین پھولوں میں مسکراتی ہے یعنی زمین کی مسکراہٹ پھولوں سے ہے۔ انسان کبھی پہاڑی علاقوںمیں سفر کرے تو اسے فطرت کو قریب سے دیکھنے کا موقعہ ملتا ہے ۔صاف ستھری آب و ہوا ، خوشگوار فضاء اور سرسبزو شاداب نظارے انسا ن کو اچھی صحت اور ایک خوشنما تا ثر دیتے ہیں۔ لیکن شہری علاقوں میں ذندگی گزارنے والے ایسے خوبصورت ماحول سے محروم رہ جاتے ہیںبلکہ شہروں کے اس قدر گرد آلود ماحول میں بھی انسان کا ذندہ رہنا کسی معجزے سے کم نہیں۔
قدرتی وسائل میں جنگلات کو مرکزی اور اہم حیثیت حاصل ہے اور درخت جو کہ آکسیجن بنانے والے کارخانے ہیں یا یوں کہہ لیں کہ یہ آکسیجن کے نہ ختم ہونے والے سلنڈر ہیں ۔ لیکن افسوس کی بات ہے آج کے انسان نے تو اپنے اس قدرتی وسائل کے خلاف خود ہی کریک ڈائون آپریشن شروع کر رکھا ۔جنگلات کابے دردی سے خاتمہ کیا جارہا ہے ۔ حالانکہ جنگلات تو زمین کی زرخیزی کا زریعہ بنتے ہیں اور درجہ حرارت کو کم رکھنے میں بڑے معاون ثابت ہوتے ہیںاس کے علاوہ یہ زمین کو سیلاب کی تباہ کاریوں سے بھی بچاتے ہیں 
آ
ج کہیں خشک سالی کا سامنا ہے اور کہیں سونامی کا اور کہیں زلزلوں کا ۔ اس وقت زمین کا انسان سے بڑا کوئی دشمن نہیں اور یہ دشمنی کا آغاز تب ہوا جب سے دنیا میں صنعتی انقلاب نمودار ہو ااوردوسرا یہ کہ آبادی میں خوب اضافہ ہوا۔ لیکن ابھی بھی وقت ہے کہ ہمیں زمین اور اپنی ذندگی کی بقاء کے لئے ذیادہ سے ذیادہ درختوں کو اس زمین کی زینت بنانا ہوگا۔ ہمیں قدرتی وسائل کے بے دریغ استعمال سے ہرممکن بچنے کی کوشیش کرنا ہو گی۔  ماحول کو بہتر بنانے کے لئے ایک عہد کرنا ہے۔  دن دنیا بھر کے لوگوں کو اس مقصد کے تحت متحرک کرنا ہوگا تا کہ وہ زمین کی حفاظت کو یقینی بنا سکیں۔  ماحولیاتی آلودگی اور کرہ ًارض کے درجہ حرارت میں مسلسل اضافہ دنیا کے لیے باعث تشویش  ہے اس کے  لیے ہمیں کچھ سوچنا ہو گا,  اپنا فرض ادا کرنا ہو گا ورنہ بربادی ہمارا مقدر ہے
اپنا تبصرہ لکھیں