زندگی بھی اک حادثہ ہے

عمر فراہی

umarfarrahi@gmail.com

کچھ پانج سال پہلے کی بات ہے دیوالی کی چھٹی میں گاؤں جانے کا ارادہ ہوا – سوچا کہ رشتہ داروں کو دینے کیلئے کچھ ایسی  کھجوریں لے لیتے ہیں جو اکثر گاؤں میں نہیں ملتیں اور پھر ہم اور ہماری اہلیہ ممبئ کے بھنڈی بازار علاقے میں گئے ۔ کھجوروں کی  منڈی کے اندر اتفاق سے ایک بزرگ مسلمان تاجر کی دکان پر پہنچے انہوں نے ہمیں کچھ کھجوروں کا نمونہ دکھایا اور پھر مول بھاؤ کرکے اسی نمونے کے چار کلو وزن والے پانچ ڈبے نکلوائے -اہلیہ نے کہا کہ کارٹون کھول کر دیکھ لیجئے کہیں ڈبے میں دوسری کھجور نہ ہوں – میں نے کہا تم عورتوں کو ہر جگہ شک کرنے کی عادت ہے – میں نے کہا دیکھتی نہیں ہو مسلمان آدمی ہے اور چہرے پر لمبی لمبی داڑھی بھی ہے کیا وہ دھوکہ کرے گا – مگر احتیاطاً ہم نے بھی پوچھ ہی لیا کہ چچا کھجور تو برابر ہے نا – بزرگ نے کہا بھائی بے  فکر ہوکرلے جاؤ وہی کھجور ہے جو میں نے دکھایا ہے -کھجور گھر پر لیکر چلے آئے اور پھر دوسرے دن ڈبے کو توڑا تو کیا دیکھتے ہیں کہ ساری کی ساری کھجوروں میں بھکڑی لگی ہوئی ہے – اب تو اہلیہ کا غصہ دیکھنے کے لائق تھا-انہوں نے کہا جائیے اور یہ سارا ڈبہ اس کے منھ پر مار کے آئیے تاکہ اسے سبق ملے- لیکن کام کی مصروفیت اور اندھیری سے بھنڈی بازار کے سفر کے علاوہ  ہمارا دوسرے دن صبح ٹرین کا ٹکٹ بھی تھا اس لئے میں ایسا نہ کر کے صرف افسوس اور صبر کرکے ہی رہ گیا ۔ اور سوچتا رہا کہ ہم مسلمان تاجروں اور دوسروں میں کیا فرق ہے اگر میں مسلمان نہ ہو کر ہندو ہوتا تو میرے ذہن میں اس دھوکہ بازی سے کیا پیغام جاتا…!اور اگر ایسے دوسرے کاروبار میں بھی جہاں مسلمان ہیں اگر اپنے غیر مسلم گراہکوں کے ساتھ اسی طرح دھوکہ دھڑی کے ساتھ پیش آتے ہونگے تو کیا  مسلمان تاجروں کی اس حرکت سے پوری قوم بدنام نہیں ہوگی -جیسا کہ بائیس سال پہلے بھی یہ واقعہ ہمارے ہی ساتھ پیش آیا جب ہم ایک کمپنی میں سروس کر رہے تھے – وہاں بھی کئی سالوں سے ایک مسلمان بھنگار والا کمپنی کا بھنگار لے جایا کرتا تھا – ماشاء اللہ یہ بزرگ بھی وہی لمبی داڑھی کے ساتھ ساٹھ پینسٹھ کی عمر سے کم نہیں تھے- ایک بار انہوں نے کمپنی میں مشینوں سے کھرادے گئے لوہے کے بھنگار کا کچھ پانج چھ بنڈل بنایا اور اپنے کانٹے سے وزن کرکے ہمیں حساب بتا دیا – مجھے اس کے وزن میں شک لگا اس لئے میں نے کہا کہ میں اسے دوسرے کانٹے پر چیک کرونگا- اس نے کہا بابو ہم بے ایمانی تھوڑی کریں گے آج ہم دس سال سے مال اٹھا رہے ہیں ۔ مگر دوسرے انجینئر بابو نے کبھی کچھ نہیں پوچھا – چونکہ میں بضد تھا کہ مال کو دوبارہ وزن کیے بغیر نہیں لے جانا ہے وہ گھبرانے لگا کہ کہیں چوری پکڑی گئی تو دوبارہ کمپنی سے مال نہیں ملے گا ۔ شاید یہی سوچ کر اسے پسینہ بھی چھوٹ رہا تھا اس کی یہ حالت دیکھ کر میرا یقین اور بھی پختہ ہو گیا کہ کچھ تو ضرور دال میں کالا ہے لیکن اس کی ضعیفی پر رحم بھی آرہا تھا – میں نے بھی اسے اطمینان دلایا کہ دیکھئے میں آپ کے کاروبار کا نقصان نہیں کرونگا لیکن آپ مجھے ایمانداری سے بتا دیجئے کہ آپ کے وزن میں فرق کتنا ہے اور میرے سے پہلے انجینئر وں کو کتنے میں سیٹ کیا تھا اس نے اپنی مجبوری ظاہر کرتے ہوئے سچ بتا دیا کہ ہر بنڈل میں چالیس سے پچاس کلو کا فرق ہے لیکن اس اضافی وزن میں سے آدھا ان کو کمیشن دے دیتا تھا – میں نے کہا ٹھیک ہے آئندہ ایسا مت کرنا کیوں کہ مجھے بھی کمپنی کو جواب دینا ہے اور پھر ہم مسلمان ہیں کچھ تو اپنی تاریخ کو زندہ رہنے دو- ہم یہ نہیں کہتے کہ غیر مسلم بے ایمان نہیں ہوتے لیکن اس کا یہ مطلب تو نہیں کہ ہم بھی ویسا ہی کریں-ہندوستان میں اکثریت غیر مسلموں کی ہے اس لئے ان کی بدعنوانی اور برائی قابل گرفت نہیں ہوتی خاص طور سے ایک ایسے سیکولر سرمایہ دارانہ لادینی نظام میں جہاں انصاف بھی دولت کے ترازو میں تولا جانے لگا ہے مسلمانوں کو محتاط رہنے کی ضروت ہے ۔ چونکہ میڈیا بھی جو کہ وزن سے ہی بک رہا ہے ہماری کسی بھی لغزش کو نہ صرف رائی کا پہاڑ بنانے کو تیار ہوتا ہے بلکہ ہر مسئلے کو مذہب سے جوڑ دیا جاتا ہے – یہ بات ہم نے اس لئے بیان کی ہے کیونکہ آجکل سوشل میڈیا پر اردو ہندی اور انگلش میں لکھی ہوئی ایک تحریر گشت کررہی ہے جس میں مسلمانوں سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ اپنی خریداری مسلمان تاجروں سے ہی کریں – دلیل یہ دی گئی ہے کہ بیس کروڑ مسلمان عید کی خریداری میں اگر ایک ہزار روپئے بھی خرچ کرتے ہیں تو بیس ہزار کروڑ روپئے کا کاروبار ہوتا ہے اور اس بیس ہزار کروڑ کے کاروبار میں دس فیصد کا بھی منافع طئے کر لیا جائے تو دو ہزار کروڑ کا فائدہ غیر مسلم تاجروں کے حصے میں جائے گا- لہذا مسلمانوں کو اپنی معیشت میں اضافہ کرنے کیلئے اپنی تجارت اور خریدو فروخت کا معاملہ صرف مسلمانوں سے ہی کرنا چاہئیے تاکہ مسلمانوں کا پیسہ مسلمانوں میں ہی رہے اور مسلمانوں کی ترقی ہو – بظاہر یہ بات کہنے اور سمجھانے میں تو بہت خوبصورت لگتی ہے اور مسلمانوں میں ایسا سوچنے والے بھی ہیں لیکن یہ سوچ خود مسلمانوں کیلئے بھی نہ صرف  بہت ہی خطرناک ہے بلکہ اسلام کے دعوتی مزاج اور انسانی مساوات اور رواداری کی صفات کے خلاف بغاوت بھی ہے-اس میں کوئی شک نہیں کہ دشمن کے خلاف کبھی معاشی بائیکاٹ کی حکمت عملی بھی اپنائی جاتی ہے لیکن ملک عزیز میں نہ تو سارے غیر مسلم مسلمانوں کے دشمن ہیں اور نہ ہی مسلمان کسی قوم سے حالت جنگ میں ہیں ۔ جیسا کہ ہم اوپر بیان کر چکے ہیں کہ  مسلمان تاجر بھی تمام کے تمام ایماندار نہیں  ہیں اور وہ خود اپنے فائدے کیلئے ہندو مسلم کی تفریق نہیں کرتے- اس کے برعکس غیر مسلموں کی عام اکثریت مصیبت کے وقت یا تو مسلمانوں کے ساتھ ہوتی ہے یا غیر جانبدار ہے -اس کے علاوہ  ہندوستان میں مسلمان جہاں معاشی, معاشرتی, تعلیمی اور ٹکنالوجی کے  میدان میں پسماندہ ہیں اور اپنی اس پسماندگی کیلئے برادران وطن کی ہر ممکن تعاون کی  ضرورت بھی ہے مسلمانوں کی یک طرفہ سوچ انہیں مزید پسماندگی کے دلدل میں ڈھکیل سکتی ہے – ویسے عام طورپر تجارت کا یہ اصول بھی نہیں ہے کہ اسے ایک ملک ایک قوم اور خطے تک محدود کیا جائے بلکہ گلوبلائیزیشن کے موجودہ دور میں تو اب ہر ترقی یافتہ ملک اپنے سے زیادہ آبادی والے ملک سے اپنی تجارت کو فروغ دینے کیلئے کوشاں ہے-اس معنی میں اگر دیکھا جائے تو ہندوستان میں مسلمان جو صرف دس سے پندرہ فیصد ہی ہیں اسے اپنی تجارت کو فروغ دینے کیلئے غیر مسلم آبادی کی شدید ضرورت ہے – تجارت اور معیشت کے علاوہ بھی اگر دیکھا جائے تو ہندوستان میں صحت و تعلیم جیسے ادارے اور شعبے جو کہ کسی بھی قوم کی بنیادی ضرورت ہوتی ہے اس پر بھی غیر مسلموں کا ہی غلبہ ہے اگر ان اداروں کے غیر مسلم مالکان کی بھی یہی سوچ عام ہو جائے کہ انہیں صرف اپنی برادری کو ہی  فائدہ پہنچانا ہے تو پھر مسلمان صرف آپس میں خریدو فروخت کر کے کیا ترقی کر پائیں گے ؟ ترقی کرنا تو دور کی بات مسلمانوں کو اپنی بقا اور شناخت کے ساتھ قدم قدم پر مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے -اب میں آپ کے سامنے چار مہینہ پہلے اپنے ساتھ پیش آنے والے ایک حادثے کا ذکر کرتا ہوں -27 جنوری 2016 کو میں اور میری اہلیہ گجرات کے ایک قصبہ اتول سے ایک شیرنگ آٹو کے ذریعے  شادی کی تقریب سے والساڈ اسٹیشن کیلئے لوٹ رہے تھے کہ راستے میں آٹو رکشا ایک کھائی میں پلٹ گیا – اہلیہ تو صاف بچ گئیں لیکن میرے سر میں شدید چوٹ آنے کی وجہ سے میں وہیں بے ہوش ہوگیا -راہ گیروں نے  اسی وقت ایمبولنس کو فون لگایا اور ہم لوگوں کو آٹو سے باہر نکالا – خود اہلیہ نے بھی گجرات میں موجود رشتہ داروں کو فون سے اطلاع دی لیکن رشتہ داروں کے آنے سے پہلے ہی ہم پبلک کی مدد سے اسپتال پہنچ چکے تھے اور اسپتال والوں نے بھی اپنی ذمہ داری کا  مظاہرہ کرتے ہوئے فوری علاج شروع کر دیا – ہم یہ کہنا چاہتے ہیں کہ اگر گجرات کی اس غیر مسلم عوام نے ہمیں مسلم سمجھ کر وہیں تڑپتے ہوئے چھوڑ دیا ہوتا تو شاید رشتہ داروں کے آتے آتے کافی خون بہہ گیا ہوتا – مذہب بہرحال انسانیت کا درس دیتا ہے نفرت اور بغاوت کا نہیں -اس حادثے کے بعد میرے ذہن میں یہ بات بھی آتی ہے کہ اکثر سڑکوں پر جب کوئی اس طرح کا حادثہ پیش آتا ہے تو کوئ شخص یہ نہیں دیکھتا کہ زخمی ہونے والے کا مذہب کیا ہے -اور فوری طورپر مدد کیلئے دوڑ پڑتا ہے-اسی بات کو اگر ہم دوسرے طریقے اور انداز میں سوچیں تو ہم یہ دیکھتے ہیں کہ دنیا کی ایک بہت بڑی آبادی جس میں ملک عزیز کے غیر مسلم برادران وطن بھی ہیں وہ ایک عظیم حادثے میں مبتلا ہیں اور وہ ہے آخرت کا حساب اور جہنم کی آگ – سوال یہ ہے کہ مسلمان ایک مومن اور نائب رسول کی حیثیت سے صرف اس وجہ سے خاموش تماشائی رہ سکتا ہے کہ غفلت میں مبتلا لوگوں کا مذہب اور مسلک ہم سے مختلف ہے -اور ہم انہیں تباہ ہونے کیلئے چھوڑ دیں –  ایسا لگتا ہے کہ کوئ مسلم دشمن تنظیم یا جماعت بہت ہی منصوبہ بند طریقے سے غیر مسلموں اور مسلمانوں کے درمیان  نفرت اور عصبیت کی اس فکر کو پروان چڑھا کر اپنا الو سیدھا کرنا چاہتی ہے تاکہ مسلمانوں کو تباہی اور انتشار میں مبتلا رکھا جاسکے اور خود مسلمانوں میں بھی کچھ ایسےجذباتی اور متشدد ذہنیت کے لوگ ہیں جن کی تربیت اور پرورش ایک زمانے تک خالص مسلم ماحول اور معاشرے میں اس طرح ہوئی ہےکہ انہوں نے غیر مسلم آبادی کو ایک چیلنج کے طورپر تو قبول کیا ہے مگر اسلام کی رواداری دعوتی اصول اور اصلاحی مزاج سے ان کا دور تک کوئی واسطہ نہیں رہا – جبکہ سچ تو یہ ہے کہ عام حالات میں بھی زندگی ایک حادثہ ہے اور دنیا میں ہر انسان مشکل میں ہے جیسا کہ  قرآن میں انسان کو پیدا کرنے والے مالک حقیقی نے خود اس کی گواہی دی ہے کہ لقد خلقنا الانسان فی کبد – ہم نے انسان کو مشکل میں پیدا کیا ہے -اور پھر قرآن ہی کے ذریعے ہدایت بھی کر دی کہ وہ کیسے خود کو اس مشکل سے نکال سکتا ہے -اگر مسلمان یہ سمجھتا ہے کہ وہ اپنے مسلمان ہونے اور قرآن کی رہنمائی کی وجہ سے اس حادثے کا شکار نہیں ہے تو بھی اس کے اللہ کی طرف سے اس کے اوپر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے غیر مسلم برادران وطن کو جو کہ اس حادثے میں مبتلا ہیں انہیں باہر نکالنے کی جدوجہد کرے اور یہ اسی وقت ہو سکتا ہے جبکہ مسلمان غیر مسلم برادران وطن کے رابطے میں آںُیں نہ کہ ان سے دوریاں بنا کر اپنے رب کی نافرماں برداری کے مرتکب ہوں –

عمر فراہی               

umarfarrahi@gmail.com

اپنا تبصرہ لکھیں