کہانی :زینب بابر بٹ
ڈاکٹر زویا کی صبح ہمیشہ کی طرح مصروفیت اور الجھنوں میں گھری ہوئی تھی۔ ہر روز کی طرح وہ اپنے کام، مریضوں اور دنیا کے مسائل میں الجھی رہتیں۔ مگر آج صبح کچھ خاص تھی۔ جیسے ہی انہوں نے واٹس ایپ کھولا، سب سے پہلا پیغام ڈاکٹر شیریں کا تھا۔
ڈاکٹر شیریں، جو زویا کی قریبی دوست ہونے کے ساتھ ساتھ ایک بصیرت افروز شخصیت بھی تھیں، ہمیشہ ان کی خیریت پوچھنے اور زندگی کی گہری حقیقتوں پر بات کرنے میں پیش پیش رہتیں۔ آج بھی، ان کے پیغام میں وہی محبت اور فکر تھی:
“زویا، کیا تم نے حال ہی میں کچھ لکھا ہے؟ کوئی ایسی تحریر جو تمہارے خیالات کو ترتیب دے اور اس افسردہ موسم میں تمہیں لمحۂ موجود سے جوڑ دے؟”
زویا نے ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیا، مگر ان کے الفاظ میں وہ جذبہ نہیں تھا جس کی ڈاکٹر شیریں کو توقع تھی۔
“نہیں، اس بار کچھ نیا نہیں لکھا۔ دل و دماغ منتشر ہیں۔ لگتا ہے جیسے کچھ کہنے کے لیے بچا ہی نہیں۔ دنیا میں اتنا کچھ ہو رہا ہے کہ سوچیں قابو میں ہی نہیں آتیں۔ ایک حساس انسان ہونے کے ناطے ہر واقعہ دل پر اثر کرتا ہے، اور میں ان مسائل سے خود کو الگ نہیں کر پاتی۔”
کچھ دیر کے بعد ڈاکٹر شیریں کا مختصر مگر گہرا جواب آیا:
“زویا، بس لکھو۔ جو بھی دل میں ہے، بے ترتیب، بے ساختہ۔ جو تمہیں گھیرے ہوئے ہے، اسے لفظوں میں قید کر دو۔”
یہ الفاظ زویا کے دل پر ایک گونج بن کر اترے۔ ان جملوں نے ان کے ذہن میں بھٹکتی ہوئی بے شمار سوچوں کو ایک دھارے میں بدل دیا۔ انہیں فوراً یاد آیا کہ “لمحۂ موجود” کا تصور کتنا اہم ہے۔ یہ وہی سبق تھا جو انہوں نے اپنی نفسیاتی تعلیم کے دوران پڑھا تھا:
“ماضی گزر چکا، اور مستقبل کا وعدہ کوئی نہیں کرتا۔ جو کچھ بھی حقیقت ہے، وہ یہ لمحہ ہے جس میں تم سانس لے رہی ہو۔”
شیریں کے الفاظ نے زویا کو جھنجھوڑ کر بیدار کیا۔ ماضی کی تلخیاں اور مستقبل کی بے یقینی انسان کی زندگی کے ساتھ ایسے جڑ جاتی ہیں کہ موجودہ لمحے کی خوبصورتی دھندلا جاتی ہے۔ مگر حقیقت یہی تھی کہ لمحۂ موجود ہی انسان کے پاس سب کچھ ہے۔
شام کو زویا نے ایک خالی کاغذ لیا اور لکھنا شروع کیا۔ وہی الجھنیں، وہی منتشر خیالات جو ان کے دل و دماغ میں گھوم رہے تھے، آہستہ آہستہ لفظوں میں ڈھلنے لگے۔ انہوں نے محسوس کیا کہ جیسے ہی وہ اپنے خیالات کو قلم کے ذریعے باہر نکال رہی ہیں، ان کا دل ہلکا ہو رہا ہے۔
چند دن بعد، جب شیریں نے زویا کی تحریر پڑھی، تو ان کے چہرے پر مسکراہٹ آ گئی۔ انہوں نے زویا کو ایک پیغام بھیجا:
“زویا، تم نے ایک خوبصورت عمل شروع کیا ہے۔ یہی وہ لمحۂ موجود ہے جس کی ہم تلاش کرتے ہیں۔ یہ تحریر صرف لفظ نہیں، یہ تمہارا سفر ہے اپنے آپ تک پہنچنے کا۔”
زویا نے یہ پیغام پڑھا اور سکون کی گہری سانس لی۔ انہوں نے محسوس کیا کہ لکھنا نہ صرف ایک تخلیقی عمل تھا بلکہ ان کے لیے ایک ذریعہ بھی تھا اپنے خیالات کو سمجھنے اور اپنی الجھنوں کو سلجھانے کا۔
ڈاکٹر شیریں کا وہ مختصر سا مشورہ زویا کی زندگی کو ایک نئی سمت دے گیا تھا۔ لمحۂ موجود کو گواہ بنانا، اپنی الجھنوں کو تسلیم کرنا، اور ان کو لفظوں میں قید کرنا—یہی وہ حقیقت تھی جس نے زویا کو اپنے اندر کی دنیا سے جوڑ دیا تھا۔