ساؤتھ دہلی میں ایک رنگا ر نگ ادبی شام

افروز بانو

نہ ہو گر خوفِ دوزخ اور نہ لالچ بھی ہو جنت کا۔۔۔بھرم کھل جائے پھر ہم جیسے لوگوں کی عبادت کا
نئی دہلی، دہلی میں اردو کے نئے مرکزکھڑکی اایکسٹنشن میں ڈاکٹر فریاد آزرؔ کے اعزاز میں سماجی اور ادبی تنظیم تعمیر ملت فاؤنڈیشن کی جانب سے ایک ادبی شام کا اہتمام کیا گیا ،اس کا پہلا اجلاس فریاد آزر کی ادبی اور شعری خدمات کے سلسلے میں وقف تھا جس کی صدار ت آل انڈیا ریڈیو کے سابق افسر اور مقبول شاعر جناب اشرف عابدی نے کی اور نظامت کے فرائض ڈاکٹر ایم آر قاسمی نے ادا کئے۔اس اجلاس میں ڈاکٹر فریاد آزر کی ادبی خدمات پر مقررین نے اظہارِ خیال کیا اور اور موصوف کی شاعری کو عصری غزلیہ شاعری کی آبرو سے تشبیہہ دی۔تقریباً سبھی مقررین نے فریاد آزر کے اس شعر کو دہرایا:
ہاتھ ملتی رہ گئیں سب خو بسیرت لڑکیاں۔۔۔۔۔خوب صورت لڑکیوں کے ہاتھ پیلے ہو گئے
خالد شیخ نے فریاد آزر کی ان خدمات کا خصوصی طور پر ذکر کیا جو اردو کے فروغ کے سلسلے میں انھوں نے کیں ایڈووکیٹ عثمان سنبھلی نے ان کی طنزیہ و مزاحیہ شاعری کے حوالے سے گفتگو کی ۔ایم آر قاسمی نے فریاد آزر کی غزلوں کے حوالے سے سیر حاصل گفتگو کی، رؤف رضا نے فریاد آزر کی انٹرنیٹ پر اردو خدمات کے حوالے سے گفتگو کی اور یہ کہا کہ دلچسپ بات تو یہ ہے کہ اردو کا سب سے بڑا ادبی گروپ ادب ڈاٹ کوم ہے جو کہ گوگل کی مدد سے فریاد آزر چلا رہے ہیں اور شہباز ندیم نے ادبی تنظیم شناخت کی ادبی خدمات کے حوالے سے اور آزر کی نئی نسل کی ادبی آبیاری کے حوالے گفتگو کی جس انھوں نے ماہ نامہ انٹرنیشنل اردو میڈیا کے مدیرِ اعزازی کی حیثیت سے ار روزنامہ انقلاب کے ہفت روزہ کالم انٹر ویو میں صرف اور صرف نئی نسل کے ادبا اور شعرا کے انٹر ویو لیتے رہے کیوں کہ اس دور میں بھی نئی نسل کے لوگوں کی حوصلہ افزائی بڑے ادیب نہیں کرتے تھے۔ محمد ندیم منصوری، فہیم امروہوی ڈاکٹر اویس اور محمد ایوب خان نے بھی اظہارِ خیال کیا۔صدرِاجلاس اشرف عابدی نے فریاد آزر کو اس عہد کے ایک اہم غزل گو شاعر کے حوالے سے گفتگو کی جو آنے والے وقت کا اہم ترین شاعر قرار دیا جائے گا۔
دوسرا اجلاس ایک شعری نشست پرمبنی تھا جس میں دہلی اور قرب وجوار کے اس عہد کے اہم ترین شعرا نے اپنے کلام سے نوازا۔اس اجلاس کی صدارت مشہور و معروف شاعر جناب شہباز ندیم ضیائی نے کی اور نظامت کے فرائض ڈاکٹرایم آر قاسمی نے ادا کئے۔
قارئین کی دلچسپی کے لئے پسندیدہ اشعار کا انتخاب پیش کیا جا رہا ہے۔
سایہ گھر تھا،پھل تھے غذا اور پھول محبت کی خوشبو
ٓآنگن کا وہ پیڑ کٹا تو سار قصے پاک ہوئے
۔۔۔۔
ضائع مت کر دینا لمحے مٹھی بھر آزادی کے
پیچھے مڑ کر دیکھ لیا تو پتھر کے ہو جاؤ گے
اشرف عابدی
دلوں کو رفتہ رفتہ کر لیا تسخیر باطل نے
بالآخر پایہٗ تکمیل کو پہنچی تن آسانی
۔۔۔۔
مقید کر کے احکاماتِ ربانی کو سجدے میں
سپرد ابلیس کے کر دی گئی دنیا کی سلطانی
ڈاکٹرعرفان منصوری (علیگ)
عداوتوں کی جہاں پر ہوا زیادہ ہے
مراچراغ وہیں پر جلا زیادہ ہے
۔۔۔۔
کبھی حساب کریں گے اے زندگی تجھ سے
لیا ہے تجھ سے بہت کم دیا زیادہ ہے
ڈاکٹر ایم ۔آر قاسمی
نہ ہو گر خوفِ دوزخ اور نہ لالچ بھی ہو جنت کا
بھرم کھل جائے پھر ہم جیسے لوگوں کی عبادت کا
۔۔۔۔
اس تماشے کا سبب ورنہ کہاں باقی ہے
اب بھی کچھ لوگ ہیں زندہ کہ جہاں باقی ہے
ڈاکٹرفریاد آزرؔ
بد نظر اٹھانے سے پہلے سوچ لیجے گا
لاڈلی تمھاری بھی ایک دن جواں ہوگی
۔۔۔۔
وقت کا تقاضا تھا،ہونٹ سی لئے میں نے
میری بے زبانی ہی ایک دن زباں ہوگی
رضیہ منصوری
یہاں پردیس میں نیندوں کی بڑی قلت ہے
اگلے پیغام میں کچھ خواب روانہ کرنا
۔۔۔۔۔
بڑے معصوم طبعیت ہیں مرے شہر کے لوگ
ان کو آتا ہے دوانے کو دوانہ کہنا
رؤف رضا
ادھر سے گزرا تھا لیکن تری خوشی کے لئے
ستارے توڑ کے لایا نہیں کہ وقت نہ تھا
۔۔۔۔۔
زمین زادے مرا انتظار کرتے رہے
بلندیوں سے میں اترا نہیں کہ وقت نہ تھا
شہباز ندیم ضیائی
واسطے زلفوں کے رہتے تھے ہمیشہ فکرمند
پھر اچانک یہ ہوا زلفوں پہ اترانے لگے
دو سگی بہنوں سے دو گنجوں کی شادی ہو گئی
اور یہ بے زلف بھی ہم زلف کہلانے لگے
احمد علوی
یہ ترا کرم ہے ساقی، یہ ہے میری بدنصیبی
کہ بڑھاؤں ہاتھ جس پروہی جام ٹوٹ جائے
ماجد رحمٰن
کافی رات تک پروگرام جاری رہا اور آخرمیں ڈاکٹر عرفان علیگ صاحب کی طرف سے سبھی احباب کی خدمت میں پرتکلف عشائیہ پیش کیا گیا۔ڈاکٹر عرفان علیگ اور تعمیر ملت فاؤنڈیشن کے سکریٹری مرزا ذکی احمد بیگ کے شکریہ کے ساتھ محفل اختتام پذیر ہوئی

اپنا تبصرہ لکھیں