ارم ہاشمی
’’عاشی عاشی ! پھٹے بانس کی سی آواز جو شراب کے نشے سے کچھ اور اُونچی اور کرخت ہو گئی تھی،اُس نے ٹھوکر مار کر دروازہ کھولا۔۔
عاشی کے جسم کا جوڑ جوڑ دکھ رہا تھا ،آنکھوں کے پپوٹے بوجھل ہو رہے تھے، بڑی مشکل سے اس نے آنکھوں کو ذرا ساکھول کر دیکھا، نشے میں دھت شراب کی بوتل لئے وہ اِس کے سر پر کھڑا تھا، عاشی کے تن بدن میں آگ لگ گئی ،ہونٹ دانتوں میں دبا کر اِس نے کسی طرح اپنے غصے کو قابو میں کیا اور آنکھیں بند کر لیں،پھر دیوار کی طرف منہ پھیر لیا۔
’’عاشی ! سُن رہی ہے یا نہیں؟‘‘ اُس کا غصہ آسمان کو چھونے لگا۔اُس نے قریب پہنچ کر اِسے ٹھوکر لگائی مگر عاشی اِسی طرح بے سُدھ پڑی رہی، آج وہ حقیقتا بیمار تھی، بخار سے اس کا تمام جسم پھوڑے کی طرح دُکھ رہا تھا وَرنہ یہ گالی گلوچ اور یہ حیوانی سلوک اس کے لئے کوئی نئی بات نہ تھی، روزمرہ کی لڑائی، گالی گلوچ اور مار پیٹ اُس کی زندگی کا حصہ تھی۔
’’منہ سے پھوٹتی کیوں نہیں جنم جلی‘‘اُس نے چٹاخ تھپڑ مارا۔لیکن وہ خاموش رہی، وہ نشے میں دھت اُس پر پَل پڑا۔اُس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ اُس کی بوٹیاں کر ڈالے،عاشی بخار اور درد سے بلبلا رہی تھی۔بات کرتے کرتے بیگم عائشہ کی سسکیاں ہال میں گونجنے لگیں۔بمشکل انھوں نے اپنے جذبات کو کنٹرو ل کیا اور منیجر سے مخاطب ہوئیں۔
’’تم کہتے ہو بیوی چھوڑ کر چلی گئی!!بیوی کیسے چھوڑ کے جاتی ؟وہ کیسے چھوڑ کے جا سکتی تھی ،اس کا تو کوئی اوردَر ہی نہیں تھا‘‘۔اُن کی آنکھیں آنسوؤں سے بھری تھیں۔
’’ہماری فائل میں یہی لکھا ہے‘‘منیجر گھبرا گیا اور مشتاق احمد کی فائل اُن کے سامنے کر دی،
’’نوٹ کرو‘‘وہ کوئی بات سننے کو تیار نہ تھیں۔’’بیوی چھوڑ کر نہیں گئی تھی، اِس شخص نے اُسے طلاق دے کر گھر سے نکال دیا تھا،وہ تنہا اوربے سائباں تھی، وہ کتنے ہی روزفاقہ زدہ حالت میں سڑکوں پر رُلتی رہی تھی،، انہوں نے اپنی آنکھوں کو ہاتھ کی پُوروں سے صاف کیا،’’پھر اِس نے ایک عورت سے دوسری شادی کر لی، جس نے تمام جائیداد اپنے نام کرا کے اِنھیں گھر سے نکال دیا‘‘۔
’’جی میں ریکارڈ میں درستگی کراتا ہوں‘‘منیجر گھبرایا ہوا تھا۔اُس کے ہاتھ پیر پھولے ہوئے تھے۔
بیگم عائشہ بہت دنوں بعد ’’سائباں اولڈ ہوم ‘‘ کا معائنہ کرنے آئی تھیں، یہ اولڈ ہوم ساٹھ سال سے زائد عمر کے بے سہارا لوگوں کے لئے بنایا گیا تھا، اِس میں پچاس لوگوں کے قیام و طعام کا بندوبست کیا گیا تھا، قطار اَندر قطار کمرے تھے،جہاں بزرگ مَرد اور خواتین مقیم تھیں،صبح کے وقت اولڈ ہوم کے لان میں یہ معمر افراد لاٹھی کے سہارے واک کرتے نظر آتے تھے،اِس سے متصل ایک چھوٹا سا ہسپتال بنایا گیا تھا، جہاں اِن عمر رسیدہ لوگوں کو طبی سہولیات دی جاتی تھیں، اِس میں ایک بڑا ٹی وی لاؤنج بھی تھا، ایک کونے میں کچھ شیلف بنی تھیں، ایک ریڈنگ روم تھا جہاں روزانہ کے اخبارات کا مطالعہ کیا جا سکتا تھا،وہ بزرگ جنھیں پڑھنے میں زیادہ دلچسپی تھی، وہ اپنے پسند کے اخبارات اور کتابیں خود بھی منگوا لیتے ،اِس ریڈنگ روم میں اکثر حالاتِ حاضرہ پر بات چیت ہوتی،کبھی کسی سماجی موضوع پرلیکن گھوم پھر کر بات آج کل کے نوجوانوں کی اپنے گھر کے بزرگوں کی طرف بے توجہی پر آجاتی۔کوشش کی گئی تھی کہ اِنھیں یہاں گھر جیسا ماحول دیا جا سکے مگر تمام تر سہولیات کے باوجود اِن کے ذہنوں سے نہ تو اِن کا تلخ ماضی مٹایا جا سکتا تھا اور نہ ہی اِن کے پیاروں کی یادیں۔اتنے لوگ ایک ساتھ رہنے کے باوجود اپنی ذات میں اَکیلے تھے۔
’’آپ کے پاس اتنی بڑی عمارت ہے، کتنے ہی روم خالی پڑے ہیں،یہاں ایک بڑا ہوم انڈسٹری بنوایئے،اوراِنھیں ہر وقت فارغ رکھنے کی بجائے اِن سے چھوٹے چھوٹے کام لیجئے جیسے لفافے بنانا، اگر بتیاں بنانا، نلکیوں اوراِستعمال شدہ بوتلوں سے ڈیکوریشن کا سامان تیار کرناتاکہ ان لوگوں کا دل لگا رہے اور اولڈ ہوم کو کچھ آمدنی بھی ہوسکے ‘‘۔اِن کی تفریح کے لئے ٹی وی کا انتظام کیجئے ‘‘۔بیگم عائشہ مینجر کو رسمی ہدایات دے رہی تھیں۔
وہ ایک سوشل ویلفیئر ادارے میں سینئرآفیسر تھیں، اُنہوں نے کئی سال قبل ’’سائباں‘‘کے نام سے اِس اولڈ ہوم کی بنیاد رکھی، یہاں لاوارث اور بے سہارا لوگ رہ رہے تھے،ایسے لوگ بھی تھے جو سڑک کے حادثات میں لائے گئے اور جنھیں کوئی لینے نہ آیا یا پھر جائیداد کا مسئلہ،بہو سے ناراضگی ،بیٹا نہیں رکھنا چاہتا،ایسے مسائل دَرپیش تھے،یہاں کتنے ہی ایسے لوگ تھے جن کی اولادیں خود اِنھیں یہاں چھوڑ گئی تھیں، بڑھاپے میں وہ محض ایک بوجھ تھے اور اِنھیں گھر سے کسی پرانے سامان کی طرح باہر نکال دیا گیا تھا۔
اولڈ ہوم میں آنے والے ہر نووارد کا تہہِ دل سے اِستقبال کیا جاتا،اولڈ ہوم کی روایت تھی کہ ہر نئے آنے والے کے لئے چھوٹے پیمانے پر گیٹ ٹو گیدر کا انتظام کیا جاتا،تاکہ اِس نئے ماحول میں اُسے اجنبیت کا احسا س نہ ہو۔
بیگم عائشہ بہت پرکشش شخصیت کی مالک خاتون تھیں، وہ عمر کے اُس حصے میں تھیں کہ جب جوانی رخصت ہو چکی تھی، اور اُن کے بالوں میں چاندی جھلکنے لگی تھی، وہ منیجر سے بات کرتے ہوئے باری باری ایک ایک بیڈ کے قریب جاتیں۔
’’یہ بیڈنمبر سیون ہے اِن کا نام عبدالغفار ہے، یہ کافی عرصہ دماغی امراض کے ہسپتال میں رہے ہیں، دو دن پہلے اِن کا بیٹا انھیں یہاں چھوڑ گیا ہے، اِن کی عمر اَسی سال ہے۔یہ ایک پرائیویٹ فرم میں اکاؤنٹنٹ تھے،دس سال پہلے ان کی بیوی کا انتقال ہو گیا تھا، اَب بہو اِن کو ساتھ رکھنے کے لئے رضامند نہیں۔بیگم عائشہ نے بابا جی سے حال احوال پوچھا تو اُن کی آواز بھرا گئی’’ میں ایک معمولی اکاؤنٹنٹ تھا، زندگی بھر روکھی سوکھی کھا کر میں نے اپنے بیٹے کواعلیٰ تعلیم دلائی،،انجینئر بنایا، دُھوم دھام سے اس کی شادی کی، اب وہ خوش و خرم زندگی گزار رہا ہے، اس کے دو بچے ہیں لیکن اس کی زندگی میں میرے لئے کوئی جگہ نہیں رہ گئی،سال کے دو جوڑے کپڑے اور دو وقت کے کھانے کے سوا اسے میری کسی ضرورت کا احساس نہیں، اس کی بیوی مجھ سے بات نہیں کرتی، وہ بچوں کو میرے پاس نہیں آنے دیتی میں نے آج تک اپنے پوتوں کو گود میں نہیں لیا،جب میں اپنی عمر کے بوڑھوں کو نواسوں، پوتوں کے ساتھ کھیلتے دیکھتا ہوں تو دِل بہت ٹوٹتا ہے، بیٹا بہو کا ساتھ دیتا ہے، اس کی طرف داری کرتا ہے، اب وہ مجھے ساتھ رکھنے پر راضی نہیں‘‘بابا جی بات کرتے کرتے سسک پڑے۔بیگم عائشہ نے بابا جی کی بات دُکھ سے سنی۔’’باباجی کا پوری طرح خیال رکھا جائے، اِنھیں یہاں کھانے پینے اور رہنے سہنے میں کوئی تکلیف نہیں ہونی چاہئے‘‘ وہ منیجرکو ہدایات دیتے ہوئے آگے بڑھ گئیں۔
’’یہ بیڈ نمبر ایٹ ہے یہ صوبہ سندھ سے تعلق رکھتے ہیں، یہ ایک ہفتہ قبل روڈ ایکسیڈنٹ میں یہاں لائے گئے ہیں، اِن کی تفصیلات سندھ پولیس کو بھیج دی گئی ہیں، اُمید ہے جلد اِن سے متعلق معلوم کر لیا جائے گا اور اِنھیں اِن کے رشتے داروں کے سپرد کر دیا جائے گا‘‘۔
وہ منیجر سے تفصیلات جان رہی تھیں۔وہ سرکاری افسر ہونے کے باوجود بہت نرم مزاج رکھتی تھیں،مگر۔۔۔۔۔اُس وقت انکی حالت دیدنی تھی جب منیجرنے بیڈ نمبر نائن کی تفصیلات دیتے ہوئے کہا
’’ اِن کا نام مشتاق احمد ہے‘یہ سماعت و بصارت سے محروم ہیں اور اِن کی عمر ساٹھ سال ہے‘‘۔
’’آپ غلط کہہ رہے ہیں ، اِن کی عمر ساٹھ سال نہیں ہے‘‘اُن کا لہجہ کرخت ہو گیا۔
’’لیکن ہمیں تو اِن کی عمر ساٹھ سال لکھوائی گئی ہے‘‘منیجر پریشان ہو گیا،اس نے وضاحت کی’’اِن کی زندگی کی کہانی بڑی عبرت ناک ہے، یہ ایک رئیس زادے تھے۔عیش پرست انسان تھے، اِن کی بیوی اِن کو جوانی میں چھوڑ کر چلی گئی۔۔۔‘‘
چھوڑ کر چلی گئی؟؟وہ غصے سے چیخ اُٹھیں۔
’’چھوڑ کر چلی گئی یا اِنھوں نے گھر سے نکال دیا؟ ‘‘غصے سے اُن کا چہرہ سرخ ہو رہا تھا۔کمرے میں سکوت طاری تھا۔ کسی کو بھی بات کرنے کی ہمت نہیں ہو رہی تھی۔ہال میں موجود تمام لوگ بیگم عائشہ کی طرف دیکھ رہے تھے۔
’’آپ غیر مستحق لوگوں کو اِدارے میں کیوں داخل کر رہے ہیں؟؟‘‘بیگم عائشہ غضبناک تھیں’’اِن کی عمر 54سال ہے اورآپ کے ریکارڈ میں انھیں 60 سال کا بتایا گیا ہے‘‘۔
’’یہ اَندھے اور بہرے بھی ہیں‘‘۔منیجر نے دَبی دَبی زبان میں کہا
’’ ہاتھ پیر تو سلامت ہیں نا‘‘وہ کوئی بھی بات سننے کو تیار نہ تھیں۔منیجرکے چہرے سے پریشانی کے آثار نمایاں تھے۔
’مام! مشتاق احمد کو ڈاکٹر طلال کے کہنے پر یہاں ایڈمٹ کیا گیا ہے،وہ اِن کو اپنے ساتھ لائے تھے، میں اِنھیں اِسی وقت یہاں سے خارج کرتا ہوں ‘‘،’’نہیں !اَب اِس کی ضرورت نہیں ‘‘۔
’’مام! مشتاق احمد کی باقی کہانی بھی تو بتائیے، اُس کی مطلقہ بیوی کا کیا انجام ہوا؟‘‘واپسی پر بیگم عائشہ کی سیکرٹری نے اُن سے پوچھا
’’وہ ایک باہمت عورت تھی،شوہر کے تلخ روّیے نے بھی اُس کو ٹوٹنے نہیں دیا، شب و روزپریشانیوں کا ایک سلسلہ تھا،ہر طرف نااُمیدیاں تھیں لیکن وہ پُرعزم رہی، اُس نے مخالف حالات کا مقابلہ کیا اور راہ میں حائل ہر رکاوٹ کاسامنا کرتی دیوانہ وار آگے بڑھتی رہی۔ وہ تعلیم یافتہ تھی، اُس نے نوکری تلاش کی، پبلک سروس کمیشن کے مقابلے کے امتحان میں شریک ہوئی ، آج وہ آپکے سامنے ہے، بیگم عائشہ مسکرائیں۔
سیکرٹری حیرت زدہ ہو کر اِنھیں دیکھتی رہ گئی۔