سب سے بڑی فکر … کیا پکائیں

انتخاب عابدہ بطول
اوسلو
عام طور پر جو بحث ارد گرد جاری ہو ، اس پر بہت سے لوگ اتنا مناسب اظہار خیال کر دیتے ہیں کہ مجھے بس انہیں پڑھنا اور سراہنا ہی اچھا اور کافی لگتا ہے ۔۔۔۔ البتہ آج اس “کچن” سے متعلقہ بحث پہ کچھ عرض کرنا چاہوں گی ۔
باورچی خانہ ۔۔۔۔۔ عورت کی دنیاوی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہو یا نہ ہو ۔۔۔۔ لیکن ایسا ضرور ہے اور ہم سب نے ہی یہ مشاہدہ کیا ہے کہ ہمارے معاشرے میں عورت کی ساری زندگی کا مرکز و محور کچھ اس طرح سے یہ کچن بن جاتا ہے کہ اس کی خوشی ، غم ، کامیابی ، ناکامی ہر چیز ہر جذبے کا دارومدار اسی پر ہونے لگتا ہے ۔۔۔
یہ مسئلہ عورت کا نہیں بلکہ معاشرے کا ہے ۔۔۔۔ہمارے ہاں زندگی کے تمام معاملات ، جذبات سب کھانے سے ہی جڑے ہوتے ہیں ۔۔۔۔ بہت سے گھرانے ہیں جہاں سب سے بڑا مسئلہ یہی ہے کہ کیا پکایا جائے ۔ انسان اپنے آخری وقت میں اسی فکر میں مبتلا رہتا ہے جس فکر میں وہ زندگی بھر مبتلا رہا۔۔۔۔ ہم نے ایسی خواتین بھی دیکھی ہیں جو بڑھاپے میں جب بہت زیادہ حواس میں نہیں رہتیں تو بس بار بار یہی پوچھتی ہیں کہ کیا پکے گا؟ کیا پکایا؟ ۔۔۔۔
میرا نکتہ صرف اور صرف یہ ہے کہ عورت باورچی خانے کی ذمہ دار ہے ۔۔۔۔ بالکل ہے ۔۔۔۔۔ لیکن یہ ذمہ داری اسے اتنا مصروف کر دیتی ہے کہ بعض اوقات اس کی زندگی میں آخرت کی فکر بھی کہیں پیچھے چلی جاتی ہے ۔۔۔۔۔
وہ عورت جو ساری زندگی خود کو گھر والوں کے لیے کھپا دیتی ہے اگر اپنی آخرت کے لیے وقت نہ نکال پائے تو یہ زیادتی نہیں ہے ؟؟؟
اور کیا ہم نہیں جانتے کہ ایسا “واقعتاً” ہوتا ہے ؟؟؟
میرا دل سے ماننا ہے کہ اس حوالے سے ہمارے معاشرے میں اعتدال قائم ہونے کی ضرورت ہے ۔ ہم نے اپنی ماؤں کو دعوتی کاموں کے ساتھ گھر اور باورچی خانہ سنبھالتے دیکھا ہے ۔۔۔ لیکن یہ بھی سچ ہے کہ کھانے میں سادگی ہی دیکھی ، دنیا بھر کی تراکیب میں الجھتے نہیں دیکھا ، نہ ہی بہت لمبے چوڑے دسترخوان سجاتے دیکھا ۔۔۔۔ صاف ستھرا اور خوش ذائقہ کھانا ، جو وقت پہ میسر ہو ۔۔۔۔۔بس۔۔۔۔۔
صرف باورچی خانہ ہی نہیں ۔۔۔۔۔ کوئی بھی کام جو زندگی کا مقصد اس قدر بن جائے کہ کسی درجے میں “الہ” کے قریب ہو جائے ۔۔۔۔۔ اس سے بچنا ہی چاہیئے ۔۔۔
۔۔۔۔ کھانا پکانے میں حد سے زیادہ مصروفیت ہو ۔۔۔۔۔ صفائی ستھرائی کا خبط کی حد تک نشہ ہو ۔۔۔۔۔۔ حد سے زیادہ آرگنائزیشن کا خبط ہو ۔۔۔۔۔۔ یا کچھ بھی ایسا ۔۔۔۔جس کے نتیجے میں فرائض تک کی ادائیگی متاثر ہونے لگ جائے ۔۔۔۔ہمیں روحانی بڑھوتری کے لیے اضافی کوشش کا وقت نہ ملے ۔۔۔۔۔ دین و دنیا کا علم حاصل کرنے کے بارے میں سوچنا مشکل ہو جائے ۔۔۔۔
جو بھی کام خدا اور بندے کے تعلق کو مضبوط بنانے میں ، دنیا میں بحیثیت خلیفۃاللہ اپنی ذمہ داری پوری کرنے میں حائل ہو ۔۔۔۔اسے اعتدال پہ لانا ہی چاہیے ۔۔۔۔
#نیرکاشف

اپنا تبصرہ لکھیں