سب سے مشہور موسیقار جوشوابیل

May be an image of 1 person and violin

جنوری کے اوائل کی ایک ٹھٹھرتی صبح کو واشنگٹن ڈی سی کے ایک میٹرو ٹرین اسٹیشن پر، ایک آدمی نے ڈبے سے اپنا وائلن نکال کر مشہور زمانہ موسیقار بیتھوون کے ترتیب دیے ہوئے موسیقی کے کچھ ٹکڑے بجانا شروع کیے۔ اس آدمی کو وہاں وائلن بجاتے بجاتے پنتالیس منٹ گزر گئے، اس دوران میں ہزاروں لوگوں کا اِدھر سے گزر ہوا۔ تین منٹ کے بعد پہلی بار ایسا ہوا کہ ایک پچاس سالہ ادھیڑ عمر شخص نے اس کے سامنے سے گزرتے ہوئے پہلے اپنی چلنے کی رفتار کم کی اور پھر محض چند لمحوں کے لیے رک کر اسے دیکھا ور اس کا وائلن بجتا سنا، اور پھر اپنی راہ لے کر چلتا بنا۔ پھر ایک منٹ کے بعد اس کے وائلن کے ڈبے میں ایک بڑھیا نے پہلا ڈالر پھینکا مگر رکے بغیر اپنی راہ لیے چلتی رہی۔ اس کے چند منٹ بعد ایک آدمی اس وائلن بجانے والے شخص کے ساتھ دیوار پر ٹیک لگا کر اسے سنتا اور دیکھتا رہا مگر اچانک ہی کچھ یاد آیا تو گھڑی دیکھی اور تیز تیز قدم اُٹھاتے ہوئے دوبارہ چل دیا، ایسا لگ رہا تھا کہ اس کا یہ چند لمحات ٹھہرنا بھی اس کے کام میں تاخیر کا سبب بن سکتا ہے۔ اس دوران میں جس ذی روح نے اس شخص پر سب سے زیادہ اپنی توجہ مرکوز کی وہ ایک تین سالہ معصوم بچہ تھا جو اپنی ماں کی انگلی تھامے چل رہا تھا۔ سامنے سے گزر جانے کے باوجود بھی وہ دور جاتے ہوئے مڑ مڑ کر اس شخص کو وائلن بجاتے دیکھتا رہا اور چلتا رہا۔ یہ بچہ اکیلا نہیں تھا جس نے اس وائلن نواز کو اتنی توجہ اور دلچسپی سے پیچھے مڑ مڑ کر دیکھا تھا اور بھی کئی ایک چھوٹے بچوں نے ایسا کیا تھا اور والدین اپنے بچوں کو ذرا ٹھہرنے کی ضد کے باوجود مجبور کر کے اپنی راہ چلتے رہے۔ اسی طرح پنتالیس منٹ اور گزر گئے، اب تک صرف چھ ایسے لوگ تھے جنہوں نے اس شخص کو کچھ دیر کے لیے رک کر سنا یا دیکھا تھا۔ تقریباً بیس لوگوں نے اس کے سامنے پیسے ڈالے اور پھر اپنی اپنی زندگی کی مصروفیات کے ہاتھوں مجبور ہو کر چلتے بنے تھے۔ اب تک اس آدمی کے پاس بتیس ڈالر اکٹھے ہوئے تھے
جب اُس نے وائلن بجانا بند کیا اِسے واپس اسے ڈبے میں ڈالا۔ کسی نے اس آدمی کا شکریہ ادا کیا اور نہ ہی اس کے لیے کھڑے ہو کر تالیاں بجائیں۔ اس وائلن نواز کے سامنے سے گزرنے والا کوئی شخص بھی نہیں جانتا تھا کہ یہ آدمی دنیا کا سب سے اچھا اور سب سے مشہور موسیقار جوشوابیل ہے۔ اور یہ موسیقار کسی عام سے نہیں بل کہ ایک تاریخی وائلن سے جس کی قیمت پینتیس لاکھ ڈالر تھی پر ایک مشکل ترین سُر بجا کر لوگوں کو سنا رہا تھا۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکے صرف دو دن پہلے اسی موسیقار نے واشنگٹن ڈی سی میں اپنا ایک شو کیا تھا جس میں داخلہ ٹکٹ کی قیمت ایک سو ڈالر تھی اور شائقین کے لیے ٹکٹ تھوڑے پڑ گئے تھے۔
جوشوابیل نے میٹرو اسٹیشن پر بھیس بدل کر وائلن بجانے کا یہ تجربہ مشہور اخبار واشنگٹن پوسٹ کے کہنے پر کیا تھا جس کے ذریعے وہ لوگوں کے ذوق، پسند، ترجیحات اور لوگوں کے معاشرتی احساسات کا اندازہ لگانے کی کوشش کر رہے تھے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگر لوگوں کے پاس فن کی تاریخ کے سب سے قیمتی فن پارے سے بجائے جانے والی موسیقی کے عظیم مقطع کو سننے کا وقت نہیں ہے تو ظاہر ہے کہ ان سے کئی ایسی چیزیں چوک جاتی ہوں گی جن کو دیکھنے، سننے یا محسوس کرنے کی حسرت لیے لوگ دنیا سے کوچ کر جاتے ہیں

اپنا تبصرہ لکھیں