خیال: ناز اجمل
میں، ناز، امید سے سفر کا آغاز کرتی ہوں۔
کبھی کبھی لگتا ہے جیسے ساری امیدیں مر چکی ہیں،
جیسے دل کے اندر کوئی چراغ بجھ چکا ہو۔
لیکن پھر بھی،
میں چلتی ہوں،
اندھیری، بھیگی ہوئی سرنگ میں
جہاں ہر قدم اک آزمائش ہے۔
میں اُس روشنی تک پہنچنے ہی والی ہوتی ہوں
جسے سب “نجات” کہتے ہیں۔
لیکن جیسے ہی میں ہاتھ بڑھاتی ہوں —
پھر سے گر جاتی ہوں۔
اور جب سنبھلتی ہوں،
تو روشنی کہیں اور جا چکی ہوتی ہے۔
یہ بار بار ہوتا ہے،
جیسے قسمت مجھے آزماتی ہو۔
اور میں تھک چکی ہوں۔
گرنے کے بعد میں خود سے سوال کرتی ہوں:
“ناز، کیا تو کمزور تھی؟
کیا راستہ غلط چن لیا؟
کیا کچھ اور بہتر ہو سکتا تھا؟”
اور انہی سوالوں میں الجھ کر
راستہ اور بھی دھندلا جاتا ہے۔
میں جانتی ہوں،
کہ بغیر گرے، بغیر رکے چلتے رہنا ہی نجات ہے۔
لیکن نجات کے رستے میرے ہی جوابوں سے بنتے ہیں،
اور میرے دل میں صرف سوال ہیں۔
میں نے ہمیشہ ناہموار راستوں سے نفرت کی،
پہاڑ، کانٹے، اندھیرے،
یہ سب میرے لیے کبھی خواب نہیں تھے — بس ڈر تھے۔
میں ایک سوچنے والی روح ہوں،
جو اتنا سوچتی ہے کہ خود ہی اپنی سوچوں کو مار دیتی ہے۔
اچھی بھی، بری بھی،
سب کچھ گم ہو جاتا ہے۔
اور جب میں اپنے اندر دیکھتی ہوں،
تو صرف خالی پن نظر آتا ہے،
ایک اندھیری سرنگ،
جس میں اب ڈر نہیں، بس ایک خاموشی ہے۔
ایک بے حسی۔
پھر بھی،
پوری شدت سے کہتی ہوں —
“میں اب بھی امید رکھتی ہوں۔”
ایمان اور محبت کی باتیں…
کبھی اور سہی،
جب الفاظ میرے ساتھ ہوں،
جب دل ہمت کرے۔
Recent Comments