سری ادب کا بے تاج بادشاہ
محمد حنیف
رات ہو تے ہی ہم تینوں بھائی لحاف میں دبک جاتے ۔ابا جی کو ئی کتاب ہاتھ میں تھام کر بلند آواز سے پڑھنے لگتے۔ہمارے عل و ہ امی جان بھی ان کہانیو بڑے غورسے سنتیں۔میں نے اس وقت تک اسکول جا نا نہیں شروع کیا تھا چناچھ ابا جی کی زبانی کہانیاں سن کر بڑا لطف آتا۔ ان ققرں میں کبھی الہ دین کے چرغ رگڑ نے پر جن نرآمد ہوتا کبھی علی بابا کی مر جنیاہا تھ میںخنجر لے کر نا چنے لگتی سند بادجہا زی کا پیر تسمہ پاء تواکرخوابوں میں آکر ڈرایاکر تا۔ کبھی افراسیناب کی سرزمیاں ادرعمرو عیا رکی عیاریاںنھے سے ذہن کو پر یشان کردیتں۔ اور پھر کھبی اسا ہوتا کہ دو آدمی ہاتھ میں پستول لئے برے لوگو کا پیچھا کر تے ہوئے دکھائی دتے ۔ان کے نام فریدی اور حمید تھے۔ میں ان کہا نیو ںکوسنتے ہوئے نہ جانے کب نیند کی آغوش میں پنچ جا تا اور صبح اٹھ کر سب سے پہلے یہی سوال کرتا کہ پھر کیا ہوا؟رات کے انتظارمیں اس کتاب کو ہاتھ میں لے کرسردایاں کی لقوپردں کی مدد سے کہانی پڑ ھنے کی کو شش کرتا ۔اک تصویر آج تک ذہن کے گوشوں میں محفوظ ہے۔اکیاادھ کھلے ہو نٹوں والی حسنہ۔سیڑھیوںسے ادند ھا کرتا ہوا ایک شخص اور اس کے عقب میں کھڑا ایک پراسر ار آدمی جب اسکول جا نا شروع کیا اورتھوڑی اردوپڑھنا سیکھ لیاتو تصویر کے ادپر لکھی تحریر کو اٹک اٹک کر پڑ ھ سکا۔ لکھا تھا” ابن صفی کی جاسوسی دنیا” تصویر کے بعد والے صفحے پر لکھا تھا ”چاندنی کا دھواں” یہ میرا ابن صفی سے پہلا تعارف تھا ۔
چوتھی جماعت میں پہنچا تو ایک ہم جماعت کے پاس ایک بالکل نئی کتاب نظر آئی۔یہ عمران سریز کا ناول”بلی چیختی ہے” تھا جو کہ انہی دنوں شائع ہو ا تھا ۔دوست نے وہ کتاب عاریتاً پڑھنے کے لیے دے دی لیکن گھر میں اسے بڑے بھائی نے اچک لیا اور مجھے اس وقت تک انتظار کرنا پڑا جب تک کہ انھوں نے اسے پورا نہیں پڑھ لیا۔اس کے بعد یہ سلسلہ چل پڑا اور پہلے پہل جو ناول ہاتھ لگے وہ ستاروں کی موت اور ستاروں کی چیخیں تھے۔اوپر والی منزل پر چچا جان رہتے تھے ان کے پاس سے عمران سیریز کے ناول بھیانک آدمی ، جہنم کی رقاصہ اور جونک کی واپسی پڑھنے کو ملے ۔انہی دنوں ہمارے گھر کے سامنے والے جنرل اسٹور کے مالک نے دکان کا آدھا حصہ لائبریر ی کے لیے مختص کر دیا ۔اب تو ہمارے وارے نیارے ہوگئے ۔گھر سے جو بھی جیب خرچ ملتا وہ سب لائبریری کے کرایہ کی نذر ہو جاتا ۔ابن صفی کے جتنے بھی ناول ہاتھ لگے وہ سب پڑھ ڈالے ۔اب ہر ماہ نئے ناول کا انتظار رہتا ۔ان ناولوں کے سرورق اس قدر دیدہ زیب معلوم ہوتے کہ ناول ختم کرچکنے کے بعد انھیں مسلسل دیکھتا رہتا اورکہانی سے ان کا تعلق جوڑنے کی کوشش کرتا ۔اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ میں نے واٹر کلر میں ان سرورق کی نقل بنانی شروع کی تاکہ ناول واپس کرچکنے کے بعد وہ سرورق میرے پاس محفوظ ہو جائیں۔یوں ابن صفی کی تحریروں نے بچپن سے ہی ذہن پر اپنے اثرات مرتب کرنے شروع کر دئیے اور یہ اس کا نتیجہ تھا کہ میں اسکول میں اپنی جماعت میںہمیشہ پہلی پوزیشن لیتا رہا اور فریدی کے کردار کو پیش نظر رکھتے ہوئے ہر قسم کی خرافات سے اپنا دامن بچائے رکھا ۔وقت گزرتا رہا اور ابن صفی ایک غائبانہ استاد اور بزرگ کی مانند قدم قدم ساتھ چلتے رہے ۔
جولائی ١٩٧٢ء میں ایچ اقبال نے الف لیلیٰ ڈائجسٹ کا ابن صفی نمبر شائع کیا تو اپنے محبوب مصنف کے بارے میں پہلی بار سب کچھ جاننے کا موقع ملا ۔
ستمبر ١٩٧٨ء میں ،میں نے ابن صفی کے اسکیچز بنا کر بذریعہ ڈاک ان کو روانہ کیے تو ان کا مشفقانہ جواب آیا کہ کراچی آنا ہو تو ان سے ملاقات کروں ۔لیکن یہ میری بدقسمتی رہی کہ میں اس ملاقات سے محروم رہا ۔ایک برس گزر گیا اور ١٩٧٩ء کے اواخر میں ابن صفی علیل ہو گئے اور پھر ٢٦،جولائی ١٩٨٠ء کو وہ اس دنیا سے اپنے چاہنے والوں کو روتا چھوڑ کر رخصت ہو گئے ۔
١٩٩٦ء کے لگ بھگ احمد صفی نے ابن صفی پر پہلی ویب سائٹ ibnesafi.comکا آغاز کیا اور یوں میرا ان سے پہلی مرتبہ رابطہ ہوا ۔میں ان دنوں ٹورانٹو میں مقیم تھا اور احمد صفی بھائی ڈاکٹریٹ کے سلسلے میں ٹرائے ،نیو یارک میںرہائش پزیر تھے ۔پھر یہ رابطہ گھریلو تعلقات میں تبدیل ہو گیا چنانچہ جب کراچی جانا ہوا تو ناظم آباد والے گھر میں آپا (بیگم ابن صفی ) اور ایثار بھائی سے ملاقات ہوئی اور ہم دیر تک ابن صفی کے تذکرے سے ان کی یادوں کو تازہ کرتے رہے ۔چند تکنیکی وجوہ کی بنا پر احمد بھائی کی تخلیق کردہ ویب سائٹ بند ہو گئی تو پھر راقم الحروف نے احمد بھائی کی اجازت سے ibnesafi,infoکا ٢٠٠٥ء میں اجرا کیا۔
اس ویب سائٹ کی بدولت راشد اشرف ،خر م شفیق اور عقیل عباس جعفری کے علاوہ کئی اور ہستیوں سے ملاقات اور تعلقات کا شرف حاصل ہوا ۔راشد اشرف نے وادی اردو نامی ویب سائٹ تخلیق کر کے ابن صفی کے بارے میں جس قدر تخلیقی کام کیا جو کہ مسلسل جاری ہے، اس کے لیے وہ قابل تعریف ہیں ۔دوسری طرف خرم شفیق نے اپنے تحقیقاتی مضامین اور سائیکو مینشن ،رانا پیلس اور دانش منزل جیسی کتابیں منظر عام پر لا کر ابن صفی پر تحقیق کرنے کے عمل کو بے حد سہل بنا دیا ہے ۔
ادھر راشد اشرف نے پھر ایک نئی مہم کا بیڑا سر پراٹھالیا ہے ۔ابن صفی کے حوالے سے ایک نئی کتاب کا اجرا جس میں ابن صفی پر اب تک لکھے گئے چیدہ چیدہ مضامین اکٹھا کر دئیے گئے ہیں ،اس سلسلے میں راشد اشرف نے مجھ سے اس خواہش کا اظہار کیا کہ میں بھی اس کتاب کے لیے اپنے خیال قلم بند کروں۔
حقیقت تو یہ ہے کہ ابن صفی پر لکھنے کے لیے جب بھی قلم اٹھایا ہے تو عباس حسینی کے وہ تاریخی کلمات ذہن میں گونجنے لگتے ہیں جو انھوں نے جاسوسی دنیا کے گولڈن جوبلی نمبر ”شعلوں کا ناچ” کے پہلے ایڈیشن میں تحریر کیے تھے ۔
”دنیا میں کچھ شخصیتیں ایسی گزری ہیںجنھوں نے ادب کی تاریخ میں اپنے لیے جگہ حاصل کر لی ہے مگر کچھ لوگ ایسے بھی گزرے ہیں جن کی شخصیت نے تاریخ بنائی ہے ۔ابن صفی کا تعلق دوسرے طبقے سے ہے ۔ان کی عظیم شخصیت اردو ادب میں ایک نئی تاریخ کا آغاز کرتی ہے ۔”
ابن صفی کی شخصیت اور تحریروں کے بارے میں بہت کچھ لکھا جا چکا ہے اور یہ سلسلہ مسلسل جاری ہے۔
ابن صفی نے جب جاسوسی ناول نگاری کا آغاز کیا تو اس وقت عریانیت اور بے حیائی سے بھرپور رومانی ناولوں کا زور تھا اور نوجوان نسل کے ذہن و اخلاق پر فحش لڑیچر کے مقابل پاکیزہ اور دلچسپ کہانیوں او رناولوں کو لا کر نئی نسل کو گھٹیا قسم کے ادب سے بچانا ایک دقت طلب کام تھا ۔لیکن انھوں نے نوجوان نسل کے ذہنوں پر مرتب ہونے والے فحاشی اور بے راہ روی کے رحجان کو نہ صرف روکا بلکہ ان کی توجہ تفریحی اور پاکیزہ ادب کی جانب مبذول کی جو کہ دلچسپ ہونے کے ساتھ ہی ساتھ لوگوں میں بزرگوں کو عزت ، قانون کا احترام اور جرائم سے نفرت کا جذبہ پیدا کرنے اور قارئینمیں سائنسی طریقہ ٔ غور وفکر کی بنیاد ڈالنے میں بے حد معاون ثابت ہوا ۔چنانچہ یہ بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ وہ اپنے مشن میں پوری طرح کامیاب رہے اور انھوں نے ہوا کے رخ کو بدل دیا ۔یہی وجہ تھی کہ ان کی کہانیاں ہر جنس اور ہر فرد میں بے حد مقبول ہوئیں۔
ماہنامہ جاسوسی دنیا اردو زبان میں جاسوسی ناول نگاری کی پہلی کوشش تھی جس کے ذریعہ ابن صفی نے ادب کی ادب صنف میں انسپکٹر فریدی اور سرجنٹ حمید جیسے ناقابل فراموش کردار پیش کر کے مخلوق کو خالق سے برتر درجہ عطا کر دیا ۔اس سے قبل مغربی زبانوں میںاس قسم کی مثالیں عام پائی جاتی تھیں۔مثلاً ایڈگر ایلن پو نے ”ڈوین” جیسے ذہن کردار کو تخلیق کیا ۔مارس لیسبلانک کے آرسین لوپن، نسیلی چارٹرس کے سینٹ اور اگاتھا کرسٹی کے ”ہرکل پولرو” سے جاسوسی ادب سے دلچسپی رکھنے والا کون واقف نہیں۔اور پھر ”شرلاک ہومز” کا کردار تو اپنے خالق آرتھر کانن ڈائل سے اس قدر زیادہ مقبول ہوا کہ جب ایک ناول کے اختتام پر اس کردار کی موت کا منظر پیش کیا گیا تو لندن کی سٹرکوں پر لوگ احتجاجاً نکل آئے ۔چنانچہ مصنف کو شرلاک ہومز کو دوبارہ زندہ کرنا پڑا ۔لندن کی بیکر اسٹریٹ توآج بھی اس لیے مشہور ہے کہ وہاں پر شرلاک ہومز کی فرضی اقامت گاہ واقع تھی۔
ارل اسٹینلے گارڈنر کے ”پیری میسن” رچرڈ ایس راتھر کے ”سٹیل اسکاٹ” اور آئن فلیمنگ کے ”جیمز بانڈ” بھی شہرت میں کسی سے کم نہیں رہے ۔یہ تمام کردار ترجمہ ہو کر اردو پڑھنے والوں کے ذہن کو متاثر کرچکے تھے ۔چنانچہ ایسے مرحلے پر جب کہ مقابلہ اتنے جاندار کرداروں سے ہو ،ا ردو زبان کے نئے طبع زاد کرداروں کی مقبولیت خاصی مشکوک نظر آتی تھی اور یہ بے حد ضروری تھا کہ نئے کردار اس قدر جاندار ہوں کہ وہ مذکورہ بالا بین الاقوامی کرداروں کا مقابلہ کر سکیں۔یہ ابن صفی کی تحریر کا جادو نگاری تھی کہ ان کے پیش کردہ کردار فریدی، حمید پھر عمران برصغیر پاک و ہند میں سب سے بازی لے گئے ۔
ابن صفی کی تحریر یں ان کی زندگی میں اردو ادب کے نقادوں کے لیے ہمیشہ متنازع رہیں۔جہاں ایک طرف علامہ نیا ز فتح پوری نے انھیں اردو ادب کے لیے نا سور قرار دیا تو دوسری طرف بابائے اردو مولوی عبدالحق نے انھیں اردو ادب کا بہت بڑا محسن گردانا ۔نقادان ادب نے ان کے تخلیق کردہ سری ادب کو اردو ادب عالیہ کا ایک جزو تسلیم نہیں کیا۔حالانکہ دنیا بھر میں سری ادب کو ادب عالیہ کی شہ رگ سمجھا جاتا ہے اور اسے دنیا بھر میں جو بلند مقام حاصل ہے اس کا انداز اس وقت اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ شرلاک ہومز کے خالق کو سر کا خطاب ملا تو پیری میسن کے تخلیق کار ”ارل” کے لقب سے نوازے گئے اگرچہ اب برف پگھلنی شروع ہوئی ہے اور آج ہم اخبارات و رسائل اور ٹیلی وژن پر اکثر ابن صفی کا تذکرہ سنتے ہیں۔ابن صفی پر مذکراہ کا اہتمام کیا جا رہا ہے اور ان پر کتابیں لکھی جا رہی ہیں۔ان کے فن اور شخصیت پر ریسرچ بھی کی جا رہی ہے ۔ابن صفی کا کہنا تھا کہ اگر اج کا ادیب یا نقاد سری ادب کی اہمیت اور مقام تسلیم نہیں کرتا ہے تو نہ کرے ۔لیکن مستقبل قریب میں نہ صرف سری ادب کے مقام و اہمیت کو تسلیم کرنا پڑے گا بلکہ ان رجحانات کی بھی تحقیق کی جائے گی جن کی بنا پر آج کل کے ادیب اور نقاد ادب کی اس صنف سے الرجک ہیں۔غالب کو بھی تو اس کے دور میں کسی نے تسلیم نہیں کیا تھا لیکن آج ذرا اردو شاعری سے غالب کو نکال دیجئے تو پھر کیا باقی بچتا ہے ۔
متعدد قلم کاروں نے ان کے تخلیق کردہ کرداروں کو مستعار لے کر اپنے روزگار کا بندوبست کیا ۔بیسویں پبلشروں نے ان کے نام کے ساتھ نقطوں کی ہیرا پھیریاں کر کے دولت کمائی اور لاتعداد بدخواہوں نے اس درخت کی چھائوں میں بیٹھ کر اس کی جڑیں کاٹنے کی کوشش کی مگر اس درویش صفت انسان کا مقام اس سے کوئی نہ چھین سکا۔
محترم رئیس امروہوی نے ابن صفی کی موت کے بعد لکھا جب تک مرحوم زندہ تھے ہم سمجھتے تھے کہ ہم ان سے بے نیاز ہیں لیکن اب یہ محسوس ہوتا ہے کہ ہم نے کس بے شرمی اور سنگ دلی سے اپنے ایک باکمال ہم عصر کو نظر انداز کر رکھا تھا ۔یہاں ہم سے مراد عام قاری نہیںہ وہ تو ابن صفی کا عاشق تھا بلکہ اس میں وہ لوگ شامل ہیںجو ناول ،افسانے اور داستان سرائی سے تعلق رکھتے ہیں۔
ابن صفی برصغیر کے ایسے منفرد لکھنے والے تھے کہ ہر ماہ لاکھوں آدمی انھیں پڑھتے تھے ۔اس خطہ زمین کے کسی لکھنے والے کو اتنی بڑی تعداد میںمستقل پڑھنے والے قاری کبھی نہیںملے ۔ان جیسا ذود نویس شاید ہی کوئی ہو گا ۔ بعض اوقات وہ ایک ہی رات میں اپنا ناول مکمل کر ڈالتے تھے ۔ابن صفی نے تین سو کے قریب جاسوسی ناول لکھے اور ہر ناول متعدد بار چھپ چکا ہے ۔اردو کا کوئی اور ادیب اگر بڑی ہمت کرکے اپنا ناول چھاپے تو بھی دو چار ہزار کی تعداد میں چھپتا ہے ۔ابن صفی کا ہر ناول پہلی بار پچاس ،ساٹھ ہزار کی تعدا د میںچھپتا تھا او رپھر بھی ناول کے مارکیٹ میں آنے کے چوتھے دن اگر کوئی اسے خریدنا چاہتا تھا تو اسے بڑی پریشانی ہوتی تھی ۔ایک زمانے میں ان کا بارہ آنے والا ناول بلیک مارکیٹ میں پچاس روپے تک فروخت ہوا کرتا تھا اور لائبریری والے ایک روپیہ فی گھنٹہ کے حساب سے ان ناولوں کو کرائے پر دیا کرتے تھے ۔
ابن صفی کی تحریر کا جادو دانشوروں ،پروفیسروں ،ڈاکٹروں ،انجینئروں غرض کہ ہر پیشے سے تعلق رکھنے والے افراد ،طلبہ اور مزدور اور ہر طبقہ ٔ فکر کو متاثر کرتا ہے ۔انھوں نے ہر موضوع فکر کو اپنی کتابوں کی زینت بنایا ہے اور اس خوبی سے اسے پیش کیا ہے کہ کسی خاص موضوع کا تعین کرنا مشکل ہو جاتا ہے انھیں تشبیہات کا بادشاہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا ۔مثال کے طور پر ”خون کا دریا” میںلکھتے ہیں:
”ہولے ہولے چلنے والی خنک ہوا ایسے لگ رہی تھی جیسے سوئے جنگل کی خواب آور اور بوجھل سانسیں ۔”
”طوفان کااغوا”میںکیا خوب تشبیہ دیتے ہیں۔
”پہاڑیاں سبزے سے ڈھکی ہوئی تھیں اور ان کے درمیان ایک چھوٹی سی جھیل بالکل ایسے ہی لگ رہی تھی جیسے زمرد کے ڈھیر میںایک ہیرا پڑا جگمگارہا ہو ۔”
”رائفل کا نغمہ” میںرات کے گزرنے کو کتنے پیارے انداز میں بیان کیا ہے ۔
”رات آہستہ آہستہ نڈھال ہوتی جا رہی تھی ۔”
یا پھر موسم بہار کے اختتام کو ”برف کے بھوت” میں اس قدر بہتر انداز میںپیش کرنا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے ۔
”موسم بہار کا آخری پرندہ بھی دردناک آوازوں میںکراہتا ہوا اُڑ گیا۔”
ابن صفی نے اپنے تمام ناولوں میں انسانی نفسیات کے مختلف پہلوئوں پر نظر رکھی ہے اور یہ نظر اور تحقیق اس قد ر گہری ہے کہ ان کے تحریر کردہ نفسیاتی تجزیات کو ماہرین اپنے علوم میں اضافہ کے لیے استعمال کر سکتے ہیں۔مثلاً ناول”بے گناہ مجرم” میںعورت کی فطرت کا تجزیہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔
”عورت ایک ایسی ضرورت ہے جس سے پیچھا چھڑا نا محال ہے ۔یہ صرف انہی لمحات میں تم پرجان دیتی ہے جب تم اس کے جذبات ابھار دیتے ہواور اس کے علاوہ وہ صرف ماں بن سکتی ہے ،بہن بن سکتی ہے اور بیٹی بن کر وفا دار رہ سکتی ہے ۔”
”شادی کا ہنگامہ’ میں لکھتے ہیں:
” مرد عورتوں کے معاملے میں ہمیشہ اور ہر دور میں تنگ نظر رہے ہیں۔دراصل بات یہ ہے کہ وہ ہر حال میں عورت پر اپنی برتری جتانا چاہتے ہیں۔اگر انھیں ایسی عورتیں مل جاتی ہیں جو ان کی ذہنی سطح سے بلند ہوں تو انھیں باتونی اور دماغ چاٹنے والی کہہ دیتے ہیں۔”
ابن صفی نے اپنے ناولوں میں سماجی وسیاسی حالات پر تبصرہ کرنے کے علاوہ اپنے بلند پرواز تخیل کے باعث دنیا کی بہت سی ایجادات کی پیش گوئی کر دی تھی۔ان کی کہانیاں زندگی سے زیادہ قریب تر تھیں اور پڑھنے والوں کے دلوں کو چھو لیتی تھیں۔انھوں نے اپنی کہانیوں کے ذریعے برصغیر کی تین نسلوں کو اردو کی جانب راغب کیا۔
چند ماہ قبل ابن صفی کی عمران سیریز کے پہلے چار ناول اور جاسوسی دنیا کے ڈاکٹر ڈریڈ کے سلسلے کے چا ر ناول انگریزی زبان میں ترجمہ ہو کر منظر عام پر آئے تو نہایت مختصر عرصے میں ان کی تمام کاپیاں فروخت ہو گئیں ۔اس سے ابن صفی کی مقبولیت کا انداز ہ لگایا جا سکتا ہے جو کہ نصف صدی سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجود آج بھی جوں کی توں قائم ہے ۔
اردو زبان کو ابن صفی پر ہمیشہ فخر رہے گا کہ اس کے فروغ میںان کے لکھے گئے ناولوں نے جو کردار ادا کیا وہ آ ج تک کسی کے حصے میں نہیں آیا ۔