شازیہ عندلیب
کیا آپ جانتے ہیں کہ کس جانور کا بچہ سب سے ذیادہ معصوم اور بھولا بھالا ہوتا ہے؟ وہ کون سا جانور ہے جس کے بچوں کی معصومیت کے مقابلے میں اسکا بچہ اول آئے گا،یعنی مسٹر معصوم یا پھرطفل معصوم؟؟جی آپکا جواب درست ہے اس جانور کا نام ہے گدھا۔ویسے میلہ مویشیاں پر جانوروں کی نمائش کے موقع پر گدھوں کے بچوں کا بھی مقابلہ حسن ء معصومیت ہونا چاہیے جس شخص کے گدھے کا بچہ سب سے ذیادہ معصوم ہو ا س شخص کو انعام میں گدھا گاڑی دینی چاہیے۔گدھا اور اسکا بچہ ہمارے معاشرے کا مقبول ترین جانور ہے۔ یہ بار برداری،تعمیراتی کام سواری سے لے کرلڑاائی فساد میں ہر جگہ کام آتا ہے۔بظاہر یہ بڑے بڑے کانوں والا چھوٹا سا جانور بڑے کام کی چیز ہے۔یہ اتنے کام کی چیز ہے کہ ہمارے بڑے بڑے قومی جرنیلوں نے ان کے سر پہ بڑے بڑے کارنامے سر انجام دیے۔شہر تعمیر کیے، پل بنائے، عمارتیں اور پلازے بنائے ڈیم بنائے اور ڈیم فول بنائے۔بعد ازاں انکی برادری کی تعمیراتی خدمات کو سراہتے ہوئے انکی برادری اور آل اولاد کو بڑے بڑے سارکاری عہدوں پر فائز کیا۔اس جانور کی تجارت کرنے والے خاندان آج وطن عزیز میںکلیدی عہدوں پر فائز ہیں۔وہ بڑی کامیابی سے کارنامے سر انجام دے رہے ہیں۔ تحقیق سے یہ ثابت ہو چکا ہے کہ انسان جیسا پروفیشن یا پیشہ اپناتا ہے اسکی بیشتر خصلتیں اسی پیشے سے ہم آہنگ ہوتی ہیں ۔ ان افراد کی بات چیت سوچ اسٹائل حتیٰ کہ بو باس بھی انہی پیشوں جیسی ہو جاتی ہے۔ اس طرح اساتذہ اور لیکچرار حضرات ہر بات میں لوگوں کو سمجھاتے نظرآئیں گے۔ جبکہ سیاستدان ہر معاملے میں اپنی چالبازیوں میں بازی لے جائیں گے جبکہ شو بز والے اپنی سج دھج اور شو بازی سے باز نہیں آئیں گے۔ جبکہ مرغبان حضرات سے انڈوں اور مرغیوں کی مہک،باغبانوں سے پھولوں کی خوشبو کسانوں سے فصلوں کی مہک بھینسوں اور گوالوں سے دودھ اور کائو ڈنگ کیک کی خوشبو جبکہ خر کار یعنی گدھوں کے تاجروں سے گدھوں کی ہی مہک آئے گی اور ان جیسی ڈھتائی کا مظاہرہ کریں گے۔ہماری ایک بزرگ کزن اکثر ایک کہانی سنایا کرتی تھیں۔ بزرگ اس لیے کہ وہ میرے پاپا کی ہم عمر تھیں اور انہیں پاپا کے بچپن کے قصے اکثر یاد ہیں۔ اس کے علاوہ اس وقت کے کئی وزیر و سفیر ان کے شاگرد رہ چکے ہیں۔ مجھے بھی ان کی شاگردی کا شرف حاصل ہوا تھا میں نے نرسری کلاس میں ان سے پڑھا کرتی تھی۔جب میں میٹرک میں ہائی فسٹ ڈوین لی تو انہوں نے کہا کہ تمہاری بنیاد اچھی تھی اس لیے تم فسٹ آئی ہو ۔جب ہسٹری میں میرا خراب رزلٹ آیا تب انہوں نے کسی قسم کا دعویٰ کرنے سے اور کوئی بیان دینے سے گریز کیا بالکل اپنے شاگرد سیاستدانوں کی طرح یہ تو تھیں ایک استاد کی استادیاں۔ وہ اکثر ہمیں اپنے گھر کی تیسری منزل پر بنے تکونے کمرے میں بیٹھ کر کہانیاں سنایا کرتی تھیں۔انکی کہانیاں بہت سبق آموز ہوتی تھیں۔ہم سارے بچے اس چھوٹے سے کمرے میں ٹھس ٹھسا کر انکے کمبل میں بیٹھ جایا کرتے تھے اور وہ ملکہ بلقیس سے لے کر ہر مزے کی کہانی فرمائش پر سناتی تھیں۔ ملکہ بلقیس کی کہانی وہ بڑے ذوق و شوق سے سنایا کرتی تھیں۔ شائید اس لیے کہ وہ ملکہ بھی انکی ہی ہم نام تھی۔خیر وہ سخت سردی میں ایک چھوٹی سی کوئلوں کی انگیٹھی دہکا کر کمرے میں رکھ لیا کرتی تھیں۔ سلگتے کوئلوں کے انگارے کمرے کو خوب گرم کر دیتے تھے۔ پھر وہ چائے کی کیتلی سے گرما گرم چائے انڈیلتی جاتی تھیں اور چائے کی چسکوں کے ساتھ ہزار داستان، الف لیلوی داستانیں اور آخر میں چرواہے اور شہزادی کی کہانیاں سنائی جاتیں۔ ہر دفعہ پرانی کہانیاں سننے کا نیا مزہ ہوتا تھا۔چرواہے کی کہانی میں ایک شہزادی کی شادی ایک امیر آدمی سے ہو جاتی تھی۔شہزادی اس میر آدمی کے ساتھ خوش تو بہت تھی مگر اس نے اپنے بادشاہ باپ سے یہ شکائیت کی کہ ابا جان باقی سب تو ٹھیک ہے مگر مجھے اس کے پاس سے بکروں اور بھیڑوں کی بو بہت آتی ہے۔ بادشاہ یہ سن کر بڑا حیران ہوا اس نے اپنے وزیر باتدبیر کو اس امیر شخص کے شجرہء نصب معلوم کرنے بھیجا۔کچھ روز بعد وزیر باتدبیر کے جاسوس کوسوں دور کے ایک ملک سے یہ خبر لائے کہ مذکورہ شخص ایک خاندانی چرواہا تھا۔ بھیڑ بکریاں بکرے اور دنبے کی خرید وفروخت انکا آبائی پیشہ تھا۔پھر وہ ترقی کرتے کرتے خچروں اور گدھوں کا بیوپار کرنے لگے۔پھر اس نے مزید اجناس کی تجارت شروع کر دی اور رئیس اعظم بن گیا۔جب اس کے پاس بہت سی دولت آگئی اس نے حاکم وقت کی بیٹی کو پیغام بھیجا اور اسکی دولت سے متاثر ہو کر وہ بادشاہ کا داماد بن گیا۔بے شک اب وہ ایک دولتمند شخص تھا مگر اس کے پاس سے اسکے آبائی پیشے کی بوباس نہ گئی اور نہ ہی اس کے اٹھنے بیٹھنے اور بول چال میں سے اسکے آبائی پیشے کے اثرات خارج ہوئے ۔شہزادی کو تب پتہ چلا کہ اسکا شوہر کیوں عجیب طرح سے ہنستا ہے اور ہنکارے بھرتا ہے۔
خیر وطن عزیز میں اس خاص جانور کی برادری بہت متحرک ہے۔ اس طرح انکا پورا گروہ تیار ہو گیا۔اگر اہل دانش میدان سیاست میں اپنی نگاہ بیناء دوڑائیں تو انہیں ہر جانب اسی جانور کی اصناف نظر آئیں گی۔صرف سرکاری مشینری پر ہی اکتفا نہیں بلکہ یہ تو عوام الناس کے لیے بھی بڑے کام کی چیز ہے۔آج کے دور گراں میں جبکہ بجلی ،پانی اور پٹرول ایک نایاب اور کمیاب چیز بنتی جارہی ہے۔عقلمند اور زمانہ شناس لوگ بجا طور پر اس جانور کے مناسب استعمال سے کفائیت شعاری اور عقلمندی کا ثبوت دے سکتے ہیں۔یہ بات مشاہدے میں آئی ہے کہ کئی سلیقہ شعار خواتین نے گدھا گاڑی میں آرائشی جھالریں اور پردوں کے ساتھ قالین بچھا کر اسے ڈرائنگ روم کی طرح آراستہ و پیراستہ کر دیاہے۔آج کل کے پاکستانی دور گراں میں جب کہ وطن عزیز میں بجلی پانی اور گیس جیسی چیزیں کمیاب اور مہنگائی کی فراوانی ہے،عقلمند اور سیانے لوگ بجا طور پر ایسی سستی سواری استعمال کردانشمندی کا ثبوت دے سکتے ہیں۔اگر گدھا گاڑی کو چاروں جانب ڈنڈے لگا کر اس پر ٹینٹ لگا لیے جائیں تو یہ ایک چلتا پھرتا تمبو نماء گھر بھی ہو سکتا ہے جو کہ افغان خاندانوں کے لیے بہت مفیدثابت ہو سکتا ہے۔ڈنڈوں کے ساتھ ساتھ اس شاہی سواری کے چاروں ڈنڈوں پر اگر مٹی کے تیل کے دیے یا لالٹین لٹکا لیے جائیں تو آرائش کے ساتھ ساتھ لالٹین اسٹریٹ لائٹ اور سرچ لائٹ کاکام بھی بخوبی سرانجام دے سکتے ہیں۔اسی طرز پر مخیر حضرات بیل گاڑیوںکو بھی مفید و موثر سواری کے طور پر استعمال کر سکتے ہیں۔گدھا گاڑی اگر شاہی سواری ہے تو بیل گاڑی شہنشاہی سواری ہے۔اسے امراء اور رئوساء شاہی بگھی کے طور پر استعمال کر کے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔بے شک تھوڑے سے ردو بدل کے ساتھ یہ ویگنوں اور سوزوکیوں کا بہترین نعم البدل ثابت ہو سکتی ہے۔اس میں اعلیٰ خاندانی اور رئیس لوگ آرام سے آ جا سکتے ہیں۔اسی پر بس نہیں بلکہ شادی بیاہوں پر بھی یہ سواری دولہا دولہن کو لانے کے لیے استعمال کی جا سکتی ہے۔اس طرح ہنگامی حالات میں جب کہ پولیس ناکے لگاتی ہے یا کر فیولگتا ہے دولہا دولہن پا پیادہ جانے کے بجائے بیل گاڑی استعمال کر سکتے ہیں۔ جیسا کہ پچھلے برس کراچی کے ایک محلے میں پولیس کے ناکے کی وجہ سے ایک دولہا دولہن کو سواری نہ ملنے کی وجہ سے شادی ہال سے پیدل جاناپڑا۔اسی طرح اسلام آباد کے ایک پوش علاقے کے متمول گھرانے نے دور اندیشی کا ثبوت دیتے ہوئے مہندی لانے کے لیے بیل گاڑی کو استعمال کیا۔یہ جس زمانے کا واقعہ ہے اس وقت پٹرول کی آج کی طرح قلت نہ تھی۔تاہم جس دولہے کی مہندی بیل گاڑی میں لائی گئی وہ اس کے بعد تین مرتبہ د ولہا بنا۔جبکہ دو عدد ولیمے صرف چائے پر ہی بھگتائے۔ظاہر ہے جب شادی بیاہ اس قدر سستا ہو جائے تو کئی لوگوں کا بار بار شادی کرنے کو تو جی چاہے گا۔ورنہ عام طور پر شادی بیاہوں کے دعوت و طعام پر اٹھنے والے اخراجات کے ڈر سے لوگ سالہا سال شادی ہی نہیں کرتے۔اب آپ نے دیکھا کہ گدھا گاڑی اور بیل گاڑی کے استعمال سے کتنے ہی مسائل آپ ہی آپ حل ہو گئے۔
ذکر ہو حیوانی سواری کا ا ور نام ٹانگے کا نہ آئے تو موضوع تشنہ رہ جائے گا۔لاہور کی مال روڈ کی ٹھنڈی سڑک پر چلنے والے سبک رفتار تانگے کس با ذوق لاہوری کو پسند نہیں۔بڑے بڑے باذوق اور رنگین مزاج لوگ اس سواری سے لطف اندوز ہواکرتے تھے۔بلکہ ہماری پاکستانی فلمی صنعت میں تانگے اس قدر پاپولر ہو گئے تھے کہ ان پر کئی فلمیں ریلیز ہوئیں۔ فلموں کے ہیرو اور ہیروئنیں پوری فلم میں تانگے دوڑاتی اس پر چڑھ کر رومانس کرتے اور گانے پکچرائز کرواتے تھے۔اس کے علاوہ فلم یکے والی بہت ہٹ ہوئے تھی۔اور تانگوں کے فلمی گانے تو بیشمار ہیں اور بہت مشہور بھی ہوئے۔ بس اس کے بعد سے ہر کوچوان خود کو فلمی ہیرو سمجھتا اور تانگوں کے گیت لہرا لہرا کر گایا کرتا تھا۔ایک زمانہ تھا جب بسوں اور گاڑیوں کے ساتھ ساتھ راولپنڈی کی سڑکوں پر اسکولوں کی جانب تانگے جاتے نظر آتے تھے۔ یہ تانگے سکول کے بچوں کو لانے لے جانے کے لیے مخصوص ہوتے تھے۔اسی طرز پر آج کے دور میں گدھا گاڑیاں بھی متعارف کروائی جا سکتی ہیں۔نیز گدھا گاڑی اور بیل گاڑی کے ساتھ ساتھ تانگے کی سواری سے پٹرول کی قلت کا رونا بھی ختم ہو سکتا ہے جو کہ سب کے لیے ہی کمیاب ہے۔
اس نئی سواری کی تحقیق پی ایچ ڈی اور محققین کے لیے تحقیق کے نئے دروازے کھول رہی ہے۔انہیں چاہیے کہ خالی آسامیوں کا انتظار نہ کریں بلکہ تحقیق کریں حیوانی ٹرانسپورٹ پر۔ اس لیے کہ پٹرول کی قلت وطن عزیز میں کبھی ختم نہیں ہو گی۔اس لیے کہ ہماری حکومتی مشینری گدھوں اور خچروں کی برادری سے بھری پڑی ہے۔حکومت بدلنے یا س سے بہتر حکومت آنے کا بھی کوئی امکان نہیں ہے۔لہٰذا اپنے خیالات اور ترجیحات بدلیں۔اپنی سوچ بدلیں ،اپنا لائف اسٹائل بدلیںاپنی سواریاں بدلیں۔موجودہ حکومت ایک مضبوط حکومت ہے۔ یہ اپنا وقت پورا کرے گی۔چاہے کوئی کام پورا ہو نہ ہو یہ ہر شعبے کا حساب کتاب پورا کرے گی۔جیسے ریلوے کا وقت پورا ہو گا، جیسے ہوائی جہازوں کا وقت پورا ہو گیا۔اب گاڑیوں کا وقت بھی پورا ہونے کو ہے۔ پٹرول کی قیمتیں پھر آسمانوں کو چھونے لگی ہیں۔ اس سے پہلے کہ پٹرول اور مہنگائی کے شعلے آسمان کو چھونے لگیں آپ پٹرول کا ستعمال ہی چھوڑ دیں۔سزوکی کار کی جگہ گدھا گاڑی، ٹیوٹا کی جگہ گھوڑا گاڑی پجارو کی جگہ اونٹ گاڑی اور پراڈو کی جگہ ہاتھی کی سواری اپنائیں۔اپنی زندگی کو سہل اور حسین بنائیں۔جہاں تک رفتار کا مسئلہ ہے تو ٹریفک کی ذیادتی کی وجہ سے وہ تو پہلے سے ہی بہت کم ہو چکی ہے۔اس لیے اس میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ حکمران طبقہ عوام کو اس سواری استعمال کرنے کی ترغیب دے۔ اس کے لیے تمام وزراء اور اراکین پارلیمنٹ کو پٹرول کی بچت کے لیے گدھا گاڑیاں، خچر گاڑیاں اور گھوڑا گاڑیاں استعمال کرنی چاہیں، تاکہ عوام بھی انہیں فخر سے استعمال کریں اس طرح ملک میں پٹرول کا بحران ختم ہونے میں مدد ملے گی۔ان مشوروں پر لوکل ٹرانسپورٹروں کو بھی سنجیدگی سے سوچنا چاہیے۔پٹرول اور گیس کی خاطر لائنوں میں لگنے سے بہتر ہے کہ گدھا گاڑی پر بیٹھ کر منزل مقصود پر پہنچا جائے۔اس کے بے بہا فوائد ہیں ایک تو پٹرول کی بچت اوپر سے بائیوگیس والا حیوانی ایندھن مفت کا۔جی ہاں گھوڑے اور گدھے خود تو گھاس پر پلتے ہیں جبکہ آپ کے چولہے کے لیے ایندھن مفت کا فراہم کرتے ہیں۔اس مفید ایندھن سے آپ بائیوگیس بھی تیار کر سکتے ہیں ۔لیجیے اپنے خالی گیس کے سلنڈر بھریں بائیو گیس سے اور جلائیں اپنے چولہے دن رات۔۔۔وہ بھی بالکل مفت۔اب صرف موبائیل کال ہی مفت نہیں بلکہ ایندھن بھی مفت دستیاب ہے۔آج اور ابھی اس مفید مشورے پر عمل کریں۔جلدی کریں کہیں بازار میں گدھے اور گھوڑے نایاب نہ ہو جائیں۔ورنہ مارکیٹ میں گدھے گھوڑے بلیک ہونے لگیں گے۔ ویسے بھی الیکشن کے زمانے میں ہارس ٹریڈنگ عام ہو جاتی ہے۔اگر گھوڑے ختم ہو گئے تو گدھوں کی بھی باری آ جائے گی۔ ایک تازہ ترین اطلاع کے مطابق گدھوں کی مذکورہ بالا افادیت کے پیش نظر اعلیٰ نسل کے گدھوں کی قیمتوں میں تیزی آگئی ہے۔اس لیے جلدی کریں اب گھوڑے گدھے بیچ کے سونے کا وقت گیا۔ اگر گدھے بھی ہاتھ سے نکل گئے تو پھر آپ کیا کریں گے۔کسی نے گدھا گاڑی کے لیے کیا خوب کہا ہے۔اس سے پہلے کہ یہ آرٹیکل سودا گران خچران اور خر کی نگاہوں میں آ جائے اور سارے گھوڑے گدھے انکی زاتی ٹرانسپورٹ میں خرچ ہو جائیں آپ اس سے فائدہ اٹھائے ۔پہلے جائیے پہلے پایئے۔
گدھا گاڑی ہے شاہی سواری
نہ پٹرول کا خرچہ نہ گیس کی بیماری
جہاں اسٹاپ آئے گدھا گھاس کھائے
گر چور پاس آئے اسے دولتی لگائے
گر ہے جیب چھوٹی اور کنبہ بڑا
کم خرچ بالا نشین ہے یہ سواری
محسوس ہو کمی چھت کی اگر
لگا کر ٹینٹ بنا لو گھر
گھومو پھرو پھر نگر نگر
ہے سب سے سستی یہی ڈگر
kia khob likha hai………….lakin ap yeah to batana hi bhool gai k kis country main ghaday sub say ziada pay jatay hain…………or yeah kitni kisam kay hotay hain….in kay rutbay kia hotay hain.jasay ajkal pakistan main in ka rutba sub say ziada hai…………………….they rule over 18 karor people……………………
AOA, Pervaiz sahab aAp nai khood hi swal ka jwab bhi dai diya .Mai hairan hoon k iss janwar k barai mai apki maloomat or mzid janna ka tajasuus kitna zyada hai.lagta hai ap ka in sai bohot qribi rabta hai.any way article parhnai or shahi swari sai lutf andoz honai ka shukriya.
Shazia
The information on this blog is useful.