سسرال پاکستان کا ہو یا آسٹریلیا کا داماد کے گھر آنے پر ککڑ پکانے کی روایت آج بھی قائم دائم ہے۔ ایک وقت تھا جب داماد جی کی اچانک آمد ہوتی تو گھر یا گاؤں کے کسی مرغے کی جان ضرور جاتی اور وہ بیچارہ دسترخوان کی زینت بن جاتا۔ اگر اپنے گھر میں مرغیاں نہ ہوتیں تو دائیں بائیں کے کسی گھر سے فوراً کسی مرغے شرغے کا بندوبست کیا جاتا اور اگر ہمسایوں کے ہاں سے بھی مرغ دستیاب نہ ہوتا تو گھر کے کسی مرد کو فوری طور پر سائیکل یا موٹر سائیکل پر ‘ان سرچ آف مرغا’ کے عظیم مشن پر روانہ کر دیا جاتا کہ اس دور میں دیسی مرغ یا مرغی سے بڑھ کر مہمان کے کھانے میں پیش کرنے کے لیے کوئی اور چیز نہیں ہوا کرتی تھی۔ بھلا ہو برائلر مرغیوں کا کہ جن کے آ جانے سے سسرالیوں کا یہ صدیوں پرانا مسئلہ اب مستقلاً حل ہو چکا ہے اور داماد ہی کیا کسی بھی مہمان کے آ جانے پر گھر کے قریب ہی کسی بھی دکان سے کسی بھی وقت چکن نامی مرغ نما ککڑ ضرور دستیاب ہوتا ہے جو تھوڑی ہی دیر میں کڑاھی، قورمہ یا روسٹ کی صورت دسترخوان پر سجا دیا جاتا ہے۔
گزشتہ دنوں کرسمس کی چھٹیوں میں سڈنی سے ہزار کلومیٹر کا سفر طے کر کے جب رات دیر سے بیوی بچوں سمیت سسرالی گاؤں پہنچے اور کھانے میں ہم داماد جی اینڈ فیملی کو فرائیڈ چکن پیش کیا گیا تو یہ ‘سسرالی مرغ نامہ’ لکھنے کا خیال آیا۔
شہزادہ پردیسی
سڈنی آسٹریلیا