تحریر: ڈاکٹر شہلا گوندل
ٹرین کی کھڑکی سے باہر مناظر تیزی سے گزرتے جا رہے تھے۔ میں ایئرپورٹ سے ٹرین پر سوار ہوئی تھی اور آسکر جانے والی اس ٹرین کی رفتار دوسری ٹرینوں سے زیادہ تھی اور سٹاپ بھی بہت کم۔
معمول کی لوکل ٹرینوں سے زیادہ گہما گہمی تھی۔ سامنے والی سیٹ پر ایک خاتون بیٹھی تھیں، سلور گرے بالوں کے ساتھ، ان کے باب ہیر کٹ کا انداز بہت دلکش تھا۔
ان کے ہاتھ میں پانچ براؤن رنگ کی سلائیاں تھیں ، ڈیزائن والا کاغذ بھی ساتھ پڑا تھا میز پر۔ وہ سفید اور ہرے رنگ کے دستانے بنا رہی تھیں۔ وہ منظر ایسا تھا جیسے کوئی پرانی، نرم گرم یاد میرے دل کے قریب آ رہی ہو۔
ان کے ہاتھوں کی پھرتی، سلائیوں کی حرکت اور وہ دھیما سا تبسم — یہ سب کچھ مجھے جکڑ چکا تھا۔ کچھ لمحے میں چپ چاپ دیکھتی رہی، پھر ہمت کرکے ان سے اجازت لی اور ان کے کام کی تصویریں اور ایک چھوٹی سی ویڈیو بنائی۔
video-output-7CC773FA-C3F8-447B-8898-30AD97EC57DB
انہوں نے مسکراتے ہوئے پوچھا، “تمہیں بننا آتا ہے؟”
“تھوڑا بہت۔” میں نے ہنستے ہوئے جواب دیا۔ “ایک دفعہ میں نے اپنی نوزائیدہ بیٹی کے لیے گلابی اور کالی اون کے جوتے بنائے تھے۔”
انہوں نے دلچسپی سے پوچھا، “کیا تم نے یہ کسی سے سیکھا؟ “
“جی، اپنی امی سے۔وہ اس کام میں ماہر تھیں”
“ہمارے زمانے میں یہ سکول میں سکھایا جاتا تھا۔” ان کے لہجے میں پرانی یادوں کا رس تھا۔
میں نے کہا، “اب بھی سکھایا جاتا ہے، مگر کم لوگ دلچسپی لیتے ہیں۔”
اسی دوران ٹکٹ چیکر آیا اور آس پاس کا ماحول تھوڑا بدل گیا۔ برابر والی سیٹ پر ایک نوجوان لڑکی بیٹھی تھی، سلور کلر کی بالیوں کے ساتھ، جو بار بار میری طرف دیکھ کر مسکرا رہی تھی۔ اس کے ساتھ ایک شخص تھا جو مسلسل میری اور ان خاتون کی باتوں کو بہت دلچسپی سے سن رہا تھا،
ٹرین تیزی سے چھوٹے اسٹیشنوں کو پیچھے چھوڑتی جا رہی تھی۔ مجھے ہر اسٹاپ پر لگتا کہ وقت کم ہو رہا ہے، جیسے کوئی خاص لمحہ مجھ سے دور ہو رہا ہو۔ پہلی بار میں نے اپنے اردگرد اتنی گہری نگاہوں سے کسی کو دیکھا تھا، شاید اس خاتون کے نرم انداز اور ان کے سلور بالوں کی کشش تھی، یا شاید ان کے ہاتھوں کی وہ روانی، جو میری ماں کی یاد دلا رہی تھی۔پہلا اسٹاپ للے سترام تھا اور اگلا اوسلو ایس۔
میرے دل میں اک عجیب سی خوشی تھی۔ سٹیشن کے قریب پہنچنے سے پہلے میں نے ان سے ان کا نام پوچھا۔ “سسل،” انہوں نے بتایا۔ “میں قریب ہی رہتی ہوں اور آج اپنی پرانی دوستوں سے ملنے جا رہی ہوں۔”
میں نے اپنا نام بتایا، ہاتھ ملایا، اور دل ہی دل میں دعا کی کہ ان سے دوبارہ ملاقات ہو۔ ان کی آنکھوں کی چمک اور ہاتھوں کی وہ ہنر مندی میری یادوں کا حصہ بن گئی تھی۔
ٹرین رکی، میں اوسلو ایس پر اتر گئی، اور ٹرین سسل کے ساتھ نظروں سے اوجھل ہو گئی۔
یہ ایک عام واقعہ تھا، یا شاید خاص، مگر مجھے اس وقت اس کا اندازہ نہیں تھا۔ وقت آگے بڑھ گیا، مگر سسل کی تصویر میرے ذہن میں ہمیشہ تازہ رہی۔ ان کی سلائیاں، ان کے ہاتھوں کی روانی، اور وہ ہلکی سی مسکراہٹ — یہ سب مجھے اپنی ماں کی یاد دلاتے ہیں۔
میں نے دوبارہ کبھی سسل کو نہیں دیکھا۔ لیکن ان کی اون سلائیوں نے مجھے اپنی ماں کی وہ یادیں لوٹا دیں جنہیں وقت کی دھول نے دھندلا دیا تھا۔ میں نے اپنی الماری کھولی اور اس میں سے سلائیاں اور اون نکال کے
اپنے بچوں کے لیے پیشانی کے بینڈ بنائے۔
میں نے سلائیاں ہاتھ میں لیں اور ایک لمحے کے لیے لگا کہ ماں کی روح میرے آس پاس ہے۔ وہ سسل تھیں جنہوں نے میرے اندر ماں کی محبت کے اس یاد کو جگایا تھا، جسے میں وقت کی بھول بھلیوں میں کھو چکی تھی۔
اب، شام کے وقت، جب میں سلائیاں اٹھاتی ہوں تو ایسا لگتا ہے کہ سسل کی وہ چمکتی آنکھیں اور میرے ماں کے لمس ایک ساتھ میرے دل کو گرما رہے ہیں۔
سسل سے دوبارہ ملاقات نہیں ہوئی، لیکن وہ میری زندگی میں ایک نرم سی روشنی چھوڑ گئیں۔ شاید بعض لوگ ہماری زندگی میں لمحہ بھر کے لیے آتے ہیں، مگر وہ ایک ایسا نشان چھوڑ جاتے ہیں جو کبھی مٹ نہیں سکتا۔
میں نے جانا کہ سسل کی سلائیاں صرف رنگ برنگی اون کا کھیل نہیں تھیں، بلکہ یہ زندگی کو جینے کا ہنر سکھاتی تھیں — محبت، صبر، اور یادوں کو سینے کا ہنر!
واقعی لا جواب تحریر
بے مثال پھرتی تسلسل گرمی نرمی یار کیا کیا بھر دیا تم نے سیسل سلائیوں میں مگر ہیں یہاں بھی سیکھنے و الے بس زرا کم کم