تحریر: ڈاکٹر شہلا گوندل
سعد عرف بیٹمون : کہاں گیا اسے ڈھونڈو
video-output-590BC79F-B476-48D1-B0A6-0E5CA4D70B1C
زندگی میں کچھ لوگ ایسے ملتے ہیں جن کا وجود اک ہوا کے جھونکے کی طرح ہوتا ہے۔سعد بھی کچھ ایسا ہی تھا، شوخ، جذباتی، ہنستا مسکراتا، زندگی سے بھر پور !
وہ ایسا شخص تھا جو اپنی ہر بات، ہر مذاق اور ہر عمل سے دوسروں کے دلوں کو چھو لیتا تھا۔ ٹویٹر پر میری اس سے سلام دعا، کچھ سپیسز اور چند DMs کے تبادلے تک محدود تھی ۔ میں اس کو زیادہ تو نہیں جانتی تھی جتنا جانا، اتنا ہی محسوس کیا کہ وہ ایک زندہ دل انسان تھا—بلکہ ایک جذبہ، ایک روشنی، اور محبت سے بھرپور دل کا مالک۔ میں اسے اپنے دوستوں، عثمان، وقاص، عمیر اور دوسرے ہم عمروں سے جب بات چیت کرتے دیکھتی تھی تو مجھے لگتا تھا کہ وہ یاروں کا یار ہے۔ جان چھڑکنے والا۔
6 نومبر کی بات ہے ٹرمپ کی جیت کے سلسلے میں میں نے ایک ٹویٹر سپیس بنائی ۔ سب اس میں شغل لگا رہے تھے ۔ سعد بھی آ گیا اور باقی سب لوگ بھی خوب شغل لگا رہے تھے۔ کاشف بھائی اور حنا میرے کو ہوسٹ تھے لیکن ان کے جانے بعد میں نے مرزا جواد کو کو ہوسٹ بنا دیا اور خود میں تھوڑی دیر کے لیے کسی ضروری کام میں مصروف ہوگئی۔ وہ ہمیشہ کی طرح خوش باش تھا، اپنی مزاحیہ باتوں اور چلبلی حسِ مزاح سے سب کو ہنسا رہا تھا۔ اس دن اسپیس میں وہ اپنی مخصوص مزاحیہ شخصیت کا مظاہرہ کر رہا تھا، جیسے وہ ہر کسی کے دل کو ہنسی کے پھواروں سے بھگونے کے لیے آیا ہو۔ اس کی آواز کی شوخی اور ہنسی میرے کانوں میں لگے AirPods کے ذریعے میری سماعتوں سے ٹکرا رہی تھی۔
پھر اچانک، اسپیس میں حکیم جی آئے۔ حکیم جی ان دنوں شدید صدمے میں تھے کیونکہ ان کے والد صاحب کی وفات کچھ دن پہلے ہی ہوئی تھی۔ پہلے تو سعد حکیم جی کے ساتھ ہنسی مذاق ہی کرتا رہا لیکن جیسے ہی حکیم جی نے اپنے ابا جی کی بات شروع کی، سعد کا لہجہ بدل گیا۔ وہ شخص، جو چند لمحے پہلے قہقہے لگا رہا تھا، اچانک خاموش، سنجیدہ اور ہمدرد بن گیا۔ اس نے ان کی باتیں نہ صرف تحمل سے سنیں بلکہ ان کے دل کو حوصلہ دینے کے لیے بڑےخوبصورت الفاظ استعمال کیے۔
“حکیم بھائی، صدمے کا وقت آسان نہیں ہوتا، لیکن آپ اکیلے نہیں ہیں۔ ہم سب آپ کے ساتھ ہیں۔” سعد کے یہ الفاظ حکیم جی کے لیے جیسے ایک مرہم کا کام کر رہے تھے۔ وہ ان کا درد محسوس کر رہا تھا، اور ایک اچھے دوست کی طرح ان کے غم میں شریک تھا۔
پھر، اسی لمحے، سعد نے مجھے ایک پرائیویٹ ڈی ایم کیا۔ وہ ہمیشہ دوسروں کے بارے میں فکر مند رہتا تھا، اور اس بار بھی اس نے حکیم جی کی اضطرابی حالت کے بارے میں لکھا:
“حکیم بھائی ٹھیک نہیں لگ رہے، پلیز ان پر نظر رکھیں۔ شاید انہیں کسی سے بات کرنے کی ضرورت ہو۔”
اور پھر، کسی کو کچھ بتائے بغیر، سعد چپکے سے اسپیس سے نکل گیا۔ وہ اپنی موجودگی سے روشنی بکھیر کر، بغیر شور مچائے، ہمیشہ کی طرح خاموشی سے اپنا کام کر کے چلا گیا۔ اس کے بعد میں نے بیٹھ کر حکیم جی کی اپنے ابا سے متعلق گفتگو سنی اور انہیں تسلی بھی دی۔
یہی تھا سعد کا کمال۔ وہ ہنساتا بھی تھا، اور درد کو محسوس بھی کرتا تھا۔ وہ ان نایاب انسانوں میں سے تھا جو اپنے الفاظ اور عمل سے دوسروں کے دلوں کو چھوتے ہیں۔ وہ ہر ایک کے لیے دوست، ہمدرد، اور ایک ایسا انسان تھا جو کبھی کسی کو تنہا محسوس نہیں ہونے دیتا تھا۔
15 نومبرکو جب اس کی موت کی خبر ملی، تو میرے دل کو جیسے ایک جھٹکا لگا۔ یہ کیسے ممکن تھا کہ وہ، جو زندگی سے بھرپور تھا، جو خود روشنی کی مانند تھا، اتنی جلدی بجھ جائے؟
اس کا حادثہ—پشاور کے ایک روڈ پر—ہم سب کے لیے ایک ناقابل یقین سانحہ تھا۔ وہ شخص جو چند دن پہلے ہنس رہا تھا، باتیں کر رہا تھا، دوسروں کو دلاسہ دے رہا تھا، اب ہمیں اپنی دعاؤں میں یاد رکھنے کے لیے چھوڑ چکا تھا۔
لیکن سعد کا کردار، اس کا دل، اور اس کی مسکراہٹ کبھی مدھم نہیں ہوگی۔ وہ ایک ایسی یادگار بن چکا ہے جو ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ زندگی میں دوسروں کے لیے جینا، ان کے دکھ درد کو سمجھنا، اور ان کی خوشیوں میں شریک ہونا سب سے بڑی خوبی ہے۔
حکیم جی کی وہ اسپیس اور سعد کے الفاظ ہمیشہ میرے دل میں محفوظ رہیں گے۔ اس نے نہ صرف اپنی موجودگی کا احساس دلایا بلکہ اپنی غیر موجودگی میں بھی ہمیں محبت، ہمدردی، اور خلوص کا مطلب سکھا دیا۔
سعد، تم نے ہمیں سکھایا کہ انسان کی اصل خوبصورتی اس کی شکل و صورت میں نہیں، بلکہ اس کے دل کے خلوص میں ہے۔ تمہارے بغیر دنیا واقعی ایک مخلص دل سے محروم ہو گئی ہے، لیکن تمہاری یادیں تمہیں ہمیشہ زندہ رکھیں گی۔
اللہ تمہیں جنت کے اعلیٰ درجات عطا کرے اور ہمیں تمہاری زندگی سے سیکھے ہوئے ہمدردی اور احساس کے سبق کو اپنی زندگیوں میں اپنانے کی توفیق دے۔ آمین