سفرنامہء حج
زرتاج صدیقی
اوسلو
سفرنامہء حجاز کی کچھ یادیں ہیں جنہیں میں نے قلمبند کیا ہے۔ سن دو ہزار چھ کا آغاز ہوا تو ارادہ کیا کہ انشا اللہ اس سال فریضہء حج کی انجام دہی سے سبکدش ہوں گے۔ساتھ ہی اللہ تعالیٰ سے سرگوشی کی کہ ہم تو ارادہ کر لیا اب بلانا تیرا کام ہے۔رمضان المبارک میں باقائدگی سے تربیتی کورس میں حصہ لیا۔زاد راہ کا اہتمام کیا آخر کار رخت سفر باندھا۔ائیر پورٹ پر کافی انتظار کرنا پڑا مگر جب جذبہ صادق ہو اور ساتھ ہی ذہنی آمادگی بھی تو کوئی مشکل مشکل نہیں رہتی۔اگلے دن جدہ پہنچے وہاں تقریباً آٹھ گھنٹے کاغذات کی پڑتال میں لگے کیونکہ وہاں آنے والے حجاج کرام کا تانتا بندھا ہوا تھا۔وہاں کچھ وقت نماز پڑھنے میں گزارا۔کچھ ہم سفروں کا حال احوال پوچھنے میں گزارا۔نزدیک ہی پاکستانی ہندوستانی زائرین بھی تھے۔سب سے سلام دعا کرتے رہے اور ان سے بھی سلام دعا کرتے رہے اور انکی خیریت دریافت کی کچھ نے تو سمجھا ہم حکومت کے کارندے ہیں اور اور کچھ کوتو غالباًہماری ذہنی حالت پر بھی شک ہوا ہو گا۔لیکن ثواب کمانے کا موقع تھا اس لیے سودا مہنگا نہیں تھا۔الغرض جب جدہ سے فارغ ہوئے سوئے حرم روانہ ہوئے۔رات کا پچھلا پہر تھا۔جب کعبہ پر پہلی نظر پڑی تو کچھ عجیب سرشاری کی کیفیت تھی۔کعبہ کی معطر معطر فضاء روشنیوں سے منور تھی۔اپنی قسمت پر رشک آ رہا تھا ساتھ ہی بے یقینی کی کیفیت۔کہاں ہم گنہگار اور کہاں خانہ کعبہ کا دیدار۔جبیں سجدہ پہ سجدے کرتے گئی پر حق بندگی ادا نہ ہوا۔میرے جذبات کچھ ان اشعار کی عکاسی کر رہے تھے۔
حسن کو عشق کے آداب سکھا لوں تو چلوں
منظر کعبہ آنکھوں میں بسا لوں تو چلوں
کر لوں اک بار پھر سے طواف کعبہ
روح کو رقص کے انداز سکھا لوں تو چلوں
پھر در کعبہ سے اک بار لپٹ کر رو لوں
اور کچھ اشق ندامت کے بہا لوں تو چلوں
کعبہ کی فضاء دعاؤں سے معمور تھی۔اللہ تعالیٰ سے ڈائیریکٹ ڈائلنگ کا سلسلہ جاری تھا۔ہر شخص عربی زبان یا اپنی زبان میں اپنی اپنی عرضداشتیں پیش کیں۔طواف و عمرہ سے فارغ ہوئے تو احرام کی چادریں اتاریں۔تقریباًآٹھ روز وہاں رہے۔جب بھی موقع ملا طواف کرتے رہے۔بعد ازاں مناسک حج کے لیے روانہ ہوئے۔یہاں آ کے اپنی کم مائیگی کا احساس ہوا کہ اے انسان تیرا اصلی ٹھکانہ یہی خاک نشینی ہے۔یہ جگہ صبر وتحمل کا مقام بھی ہے اور قربانی و ایثار کی متقاضی بھی۔
میدان عرفات ہمیں روز قیامت کی یاد دلاتا ہے۔یہاں لوگوں کی آہ وزاری دیدنی تھی۔ہر آنکھ پر نم۔ ہر کوئی اپنے رب کو منانے کے جتن کر رہا تھا۔نماز عصر کے بعد قافلے مزدلفہ کی جانب روانہ ہو ئے۔وہاں مغرب اور عشاء کی نمازوں کے بعد کچھ کھایا پیا اور سو گئے۔اس قدر تھکے ہوئے کہ کسی کو کھلے آسمان کے نیچے پتھریلی زمین کا احساس نہ ہوا۔البتہ آنکھ کھلی تو پھر سردی کا احساس ہوا کہ سرد جہنم کیسی ہو گی۔جب مدینہ منورہ پہنچے تو یہاں میں ماضی کی تابانیوں میں کھو گئی کہ یہاں نبی پاک نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ عزم و ہمت کے چراغ جلائے۔اور بھٹکی ہوئی انسانیت کو راہ ہدائیت دکھائی۔اک بورڈ پر نظر پڑی لکھا تھا۔
welcome to the city of prophet(peace be upon him) You are our distinguish guests.
سر بے اختیار بارگاہ ایزدی میں سجدہ ریز ہو گیا۔کہ کہیں ہم بھی معزز و معتبر ٹھہرے اور ہمارا بھی استقبال ہو گیا۔مسجد نبوی میں گزارے لمحے سرمایہء حیات ہیں۔جب روضہء رسول پہنچے تو نگاہیں شرم سے جھک گئیں۔
عمل کی اپنی بساط کیا ہے
بجز ندامت کے پاس کیا ہے
بوجھل دل اور اشکبار آنکھوں کے ساتھ شہر نبی ﷺکو الوداع کہا۔میرے نزدیک حج کا فلسفہ یہی ہے کہ ہمیں صبرو استقامت اور آئندہ زندگی میں اس پر کاربند رہنے کا درس دیتا ہے۔