سفرنامہ ، منزلوں کی کہکشاں
شازیہ عندلیب اس سفر نامہ میں ہے پاکستان اور دنیا کے اہم شہروں اور ممالک کے سفر کی کہانی میری زبانی۔ناروے میں بسنے والے اہل علم اور محب وطن پاکستانی نارویجن احباب کی خدمت میں میری سفرنامہ کی کتاب پیش ہے۔ اسے عنقریب رونمائی کے لیے پیش کیا جائے گا ۔اس لیے آپ سے میری مودبانہ گزارش ہے کہ اپنے دیس اور اپنی زبان کی خاطر اسے پڑھ کر اپنی قیمتی رائے سے نوازیں تاکہ میں ساری دنیا کو بتا سکوں کہ میرا وطن کتنا پیارا ہے ۔صفحات 207
منزلوں کی کہکشاں
پیش لفظعرض مصنف
جنت کا دروازہ
میرا محبوب شہر راولپنڈی
کوہ نمک کا دل کھیوڑہ
تربیلا خوبصورت مگرخطرناک
پربتوں کی شہزادی وادیء سوات
رومانٹک ملکہء کوہسار مری
دل والوں کا شہر لاہور
فیصل آباد اور فصلی بٹیرے
ہیر کے شہر جھنگ کی جھلکیاں
روشنیوں اور رنگینیوں کا شہر کراچی
سنگا پور کی سیر
لندن کی شام روحوں کے ساتھ
سورج کی سرائے ناروے
جگنوئوں اور تتلیوں کا شہر اوسلو
سویڈن کا بارڈر اور سوات
بحیرہء فریڈرک کے ساحل پہ
قومی ایئر لائن
جہاز پہ کالا جادو
عرش کے سائے تلے
پیش لفظ،منزلوں کی کہکشاں نہ تو کوئی رائج الوقت سفرنامہ ہے اور نہ ہی خالصتاً معاشرتی علوم یا جغرافیائی معلومات۔بلکہ یہ صرف میرا ذاتی مشاہدہ ہے ۔میں نے جو کچھ دیکھا ، محسوس کیا ذہن کے پردوں سے اتار کے قلم کے حوالے کردیا۔پھر یادوں کے یہ نقوش تحریر بن کر آپ تک پہنچ گئے۔اگر اس کتاب کو سفرنامہ کہا جائے تو یہ کسی ایک جگہ کا نہیں بلکہ وقت کا سفر ہے، میری ذات کا سفر ہے ،میرے بچپن سے آج تک کا سفر ہے۔اس میں وہ قابل ذکر اور قیمتی لمحے ہیں جنہیں میں کبھی فراموش نہ کرسکی،ان میں وہ دکھ بھرے لمحے بھی ہیں جو کبھی کانٹا بن کر چبھتے ہیں تو خوشی کے وہ لمحے بھی ہیں جو میری سوچ کے چمن میں خوشبو بن کر بکھر تے ہیں۔ یہ وہ سفر ہے جو میں نے اپنے بچپن کے شہر راولپنڈی کے گلی محلوں سے شروع کیا اور جو آج بھی قطب شمالی کے ہمسایہ ملک ناروے کی شاہرائوں اور پگڈنڈیوںپہ جاری ہے۔ کبھی کبھی جب میں اپنے وطن کو ناکام اور ہم وطنوں کو مایوس قوم کی صورت دیکھتی ہوں تو دل دکھ سے رو دیتا ہے۔ میرا جی چاہتا ہے کہ میں ساری دنیا کو بتائوں کہ میرا وطن ایسا گیا گزراتو نہیں جیسا اسے ظالم سیاستدانوں اور دشمنوں نے بنا دیا ہے۔میرا جی چاہتا ہے کہ میں سب کو بتائوں کہ میرے وطن میں صرف بد کردار سیاستدانوں اور بدعنوان ارباب اختیار جیسے لوگ ہی نہیں بہت خوبصورت ذہین اور نیک لوگ بھی ہیں۔ میں انہیں اپنے وطن کی تصویر اپنی کتاب کے ذریعے دکھانا چاہتی ہوں ۔ میں اپنی یادیں اپنی گلیاں اپنے محلے اپنے سفر کی یادیں اپنے عزیز قارئین کے ساتھ شیئر کرنا چاہتی ہوں۔یہ عادت تو مجھے بچپن سے ہی پڑ گئی تھی کہ میں جہاں بھی جاتی ایک چھوٹا سا سفر نامہ لکھ دیتی۔یہ وہی یادیں ہیں جو آج کتاب کی شکل میں منزلوں کی کہکشاں بن کر آپ کے ہاتھوں میں سمٹ آئی ہیں۔کیا آپکو بھی میری طرح اپنے بچپن کی یادیں ستاتی ہیں؟ دلچسپ سفر کے لمحات یاد آتے ہیں؟؟، نیند کی آغوش میں جانے سے پہلے یادوں کی بارات اپنے دیس کی خوشبو کے ساتھ اترتی ہے؟؟؟تو پھر آئیں نا چلیں میرے ساتھ ساتھ نگر نگر کی سیر کرنے!!! یہ کتاب آپکو میرے سنگ سمندروں، پہاڑوں وادیوں زمین کی گہرائیوں اور پہاڑوں کی چوٹیوں اور فضائوں میں اڑاتی پھرے گی۔اس میں وطن عزیز کی گلیوں محلوں سے لے کر یورپ اور ایشیاء کے بڑے بڑے شہروں کے سیر سپاٹے ہیں۔یہ سب اللہ تعالیٰ کی رحمت اور میرے عزیز قارئین کی حوصلہ افزائی ہے کہ میں یہ کتاب مرتب کی ہے۔ہو سکتا ہے اس میں آپکے بچپن کا کوئی شہر یا پگڈندی بھی ہو جس سے آپکی یادیں بھی وابستہ ہوں۔آپکی مخلص و مشکور شازیہ عندلیب
قارئین کی دلچسپی کے لیے کتاب سے چند اقتسابات پیش خدمت ہیں
راولپنڈی عرف پنڈیتحریر شازیہ عندلیبکہنے کو تو راولپنڈی او ر اسلام آباد جڑواں شہر ہیں۔ مگر حقیقتاًیہ جڑواں کم اور سوتیلے زیادہ لگتے ہیں۔دونوں میں زمین آسمان کا فرق ہے اور اٹ وٹے کا ویر ہے۔ اسلام آباد اگر دارالخلافہ ہے تو یہ اسکے مقابلے میں خالی لفافہ ہے۔وہاں اگر دولتمندوں کی ریل پیل ہے تو یہاں صرف دھکم پیل ہے۔وہ اگر شہر امیراں ہے تو راولپنڈی شہر غریباں ہے۔اسلام آباد اگر پاکستان کا کنارہ ہے تو راولپنڈی قسمت کا مارا اور بے سہاراہے۔جغرافیائی اعتبار سے راولپنڈی سطح مرتفع ہے اسے ٹیبل لینڈ بھی کہا جاتا ہے۔ایسا علاقہ پہاڑی تو ہوتا ہے لیکن اسکی سطح ہموار ہوتی ہے۔ اسے پوٹھوہار کا علاقہ بھی کہا جاتا ہے۔راولپنڈی کی عرفیت یا نک نیم پنڈی ہے۔ راولپنڈی اسکا آفیشل نام ہے۔ شہر بننے سے پہلے یہ علاقہ راول گائوں کہلاتا تھا۔مقامی زبان پوٹھوہاری ہے جبکہ ہند کو اور سرائیکی بھی بولی جاتی ہے۔یہاں کے مقامی لوگ صاف اور گندمی رنگت کے قدآور لوگ ہیں۔راولپنڈی شہر کی سرحد سے باہر جائیں تو رنگ برنگے چٹانی پہاڑوں کے نظارے نگاہوں کو خیرہ کر دیتے ہیں۔قدرت کے دلفریب نظارے مسافروں کا دل موہ لیتے ہیں۔یہاں کی آ ب و ہوا بھی خوشگوار ہے۔ گرمیوں میں دو روز سے زیادہ گرمی نہیں پڑتی اسکے بعد بارش موسم خوشگوار بنا دیتی ہے۔سردیوں میں درجہ حرارت نقطہ انجماد سے نیچے گر جاتا ہے۔
راولپنڈی کی حدود میں داخل ہوتے ہی نالہء لئی مسافروں کا استقبال کرتا ہے۔َیہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ صبح صبح جب کشمیری بازار سے گزر ہوتا تو پوری سڑک انوا ع اقسام کے کھانوں کی اشتہا انگیز خوشبوئوں سے مہک رہی ہوتی تھی۔ان سب خوشبوئوں میں ٹیڈی نانبائی کے کلچوں کی خوشبو سب سے ذیادہ اشتہا انگیز ہوتی تھی۔اسکی دوکان نان نہاری کی دوکان سے زرا آگے صابن کے کارخانے کی بغل میں واقع تھی۔وہ دو لمبی لوہے کی سلاخوں کی مدد سے تازہ کلچے تندور کے باہر ڈھیر کرتا جاتا۔دو گھنٹوں میں وہ سینکڑوں کلچے فروخت کر لیتا تھا۔ٹیڈی نانبائی صبح سویرے لنگوٹ نماء دھوتی اور بنیان پہن کر تندور کے کنارے بیٹھ جاتا۔ وہ ہر روز اسی لباس میں نظر آتا۔ گویا دھوتی اور بنیان اسکا یونیفارم تھا ۔ جسے زیب تن کر کے وہ ہر روز اپنی ڈیوٹی سرانجام دیتا تھا۔تندور میں وہ لکڑیاں جلاتا تھا۔تندور کی حرارت کی وجہ سے سردیوں میں بھی اسکے جسم سے پسینہ ٹپکتا تھا،جو تازہ کلچوں کی سطح پہ جذب ہو جاتا تھا۔وہ لمبی ناک والا منخنی سا شخص تھا۔اس کی شکل کہانیوں والے پائپ پائڈر سے بہت ملتی تھی۔وہ پائپ پائڈر اپنی بانسری کی دھن پہ شہر کے سارے بچے اور چوہے اکٹھے کر لیتا تھا۔ٹیڈی نانبائی کی دوکان پہ بھی گاہکوں کے ساتھ ساتھ بچے اور چوہے کثرت سے نظر آتے تھے۔کشمیری بازار میں صدیق حلوائی کی دوکان سے لے کر ٹیڈی نانبائی کی دوکان تک چوہوں کی کمی نہ تھی لیکن ٹیڈی نانبائی کو یہ امتیاز حاصل تھا کہ اسکی دوکان پہ گاہکوں کے ساتھ ساتھ چوہوںکا بھی رش رہتا۔خیر ٹیڈی نانبائی
دوکانوں کے باہر آویزاں بورڈ بھی بڑے دلچسپ اور عجیب ہوتے ہیں۔ایک د وکان جو کہ سبزی منڈی اور اردو بازار کے بارڈر پہ واقع ہے، وہاں بورڈ پہ ایک انوکھی تصویر لگی ہوئی ہے۔ بچپن میں اس تصویر کو دیکھ کر میں بہت ڈرتی تھی ۔ اس بورڈ پہ لکھا ہوتا تھا کارنر سویٹ ہائوس اور اس پہ ایک خوفزدہ لڑکی کی تصویر بنی ہو تی تھی ۔ اسکا لباس بھی کہیں کہیں سے پھٹ چکا ہے۔ اسلیے کہ اس پہ ایک شیر حملہ کر رہاہے۔اب اس کا کیا مطلب ہے۔ شائید شیر لڑکی کو مٹھائی سمجھ کہ کھا رہا ہے یا پھر اسکو مٹھائی کھانے کی سزا دے رہا ہے۔ یا ہو سکتا ہے یہ لال حویلی والا شیر ہو۔یہ جاننا مشکل ہے۔اسی طرح موتی بازار کے بیچوں بیچ لیڈی ڈیانہ دہی بھلوں کی دوکان ہے۔ جیسے لیڈی ڈیانہ کی اسمارٹ نس کا راز موتی بازار کے دہی بھلوں میں ہی تو تھا۔ہاں لال حویلی کے پاس ہی ایک پرانا بوہڑ کا درخت بھی تھا۔ بوہڑ کا درخت، اور برگد کے درخت کی ایک خاص وجہء شہرت ہے۔ان دونوں اقسام کے درختوں پہ جن بھوت اورچڑیلیںرہائش رکھنا بہت پسند کرتی ہیں۔اس بوہڑ کے درخت پہ کوئی چڑیل وغیرہ تو نہیں دیکھی البتہ اسکے نیچے ایک بابا بیٹھا رہتا تھا۔ جو اسکی جانب دیکھتا وہ اسے عجیب آوازیں نکال کے ڈرایا کرتا تھا۔مجھے بھی اس سے بہت ڈر لگتا تھا۔ لیکن میں وہاں سے گزرتے وقت اسکی جانب دیکھتی بھی ضرور تھی۔پتہ نہیںوہ کس قبیلے کا تھا۔ لال حویلی والے بابے کا نام لے کر مائیں بھی اپنے بچوں کو ڈرایا کرتی تھیں۔
۔زیورات سے لدی پھندی دعوت نظارہ دے رہی ہو گی۔اسی پر بس نہیں بلکہ دوکان کے بورڈ پہ بھی ایک فلمی ہیروئن کی تصویر بھی پینٹ کی ہو گی۔جبکہ دوکاندارفلمی ہیروز کی طرح دوکانوں میں سج کے بیٹھے ہوتے ہیں۔یہ دوکاندار بہت خوش پوش ہوتے ہیں اور سارا دن فارغ بیٹھ کر گاہکوں کا نطارہ کرتے رہتے ہیں۔یہ دوکانیں خوبصورت فانوس اور قیمتی فرنیچر سے سجی ہوتی ہیں۔اکژ دوکانوں کے دروازے شیشے کے ہوتے ہیں۔ جبکہ ان دوکانوں پہ لکڑی کے ڈنڈوں پہ کوئی فلمی ہیروئن زیور پہن کرجھول رہی ہوتی ہے۔اسی طرح زرا آگے کپڑے کی دوکانوں پہ بھی فلمی ہیروئنوں کی تصاویر کو کپڑے پہنا کر اس سے ماڈل کا کام لیا جاتا ہے۔ البتہ کپڑوں والے دوکاندار زیورات کے دوکانداروں کی طرح مکھیاں نہیں مارتے رہتے اور نہ ہی راہگیروں کو دیکھتے رہتے ہیں۔بلکہ یہ دوکاندار راہگیر خواتین کو دعوت بھی دیتے ہیں۔ انکی دعوت کا انداز بڑا ہی عجیب اور دلچسپ ہوتا ہے۔ یہ لوگ طرح طرح کے ڈائیلاگ بول کر راہگیر خواتین کو اس طرح سے متوجہ کرتے ہیں۔وہ اس انداز سے دعوت دیتے ہیں۔ رانی بازار سے آگے اردو بازار کی جانب سے کہیں مڑیں تو رات کی رانیوں کا بازار آتا ہے۔ یہ وہ بازار ہے جو ہمارے معاشرے میں ناسور کی طرح پھیل رہا ہے۔رات کی رانیوں کے کوچے کے پاس ہی راجہ بازار ہے۔ رانی بازار سے آگے اردو بازار کی جانب سے کہیں مڑیں تو رات کی رانیوں کا بازار آتا ہے۔ یہ وہ بازار ہے جو ہمارے معاشرے میں ناسور کی طرح پھیل رہا ہے۔رات کی رانیوں کے کوچے کے پاس ہی راجہ بازار ہے۔
جگنوئوں اور تتلیوں کا شہر اوسلو تحریر شازیہ عندلیباوسلو سمندر کے کنارے آباد ایک قدیم شہر ہے۔ یہ ناروے کا کیپیٹل سٹی ہے۔موسم گرمامیں مقامی خواتین اور لڑکیاں دلکش رنگوں کے فراکس اور لانگ اسکرٹس میں تتلیوں کی طرح تیز ساحلی ہوائوں میں اڑتی پھرتی ہیں۔ ہاں بازار سردیوں میں شام چھ بجے اور گرمیوں میں آٹھ بجے بند ہو
جاتے ہیں۔ ریستوران البتہ رات گئے کھلے رہتے ہیں۔سردیوں کی ٹھٹھرتی راتیں طویل ،اور بہت ہی طویل ہوتی ہیں۔ اوسلو کا ساحلی شہر کہر اور دھند میں لپٹا طویل راتوں میںجگمگاتا رہتا ہے۔سمندر میںڈوبی روشنیاں دھند کی وجہ سے جگنو بن کر چمکتی ہیں۔گرمیوں کی شامیں یہاں بہت طویل ہوتی ہیں سورج دیر تک آسمان کے کنارے پہ ٹھہرا رہتا ہے۔اس وقت اکژر ریستوانوں کے باہر مرد وزن کرسیاں بچھا کر طویل شاموں کا نظارہ کرتے ہیںاور لطف اندوز ہوتے ہیں ۔ایک دن تو ایسا آتا ہے جب سورج ڈوبنا ہی بھول جاتا یا پھر تھکن اتارنے کے لیے ناروے کے ساحل پہ ٹھہر جاتا ہے۔ جی ہاں ہر سال سورج ناروچ کے مقام پر کھڑا رہتا ہے ۔اس روز سورج ڈوبتا نہیں۔ اسکا بڑا سا آتشیں گولا سمندر کے کنارے سے لگا سال بھر کی تھکن اتارنے کے لیے سستا لیتا ہے۔ گرمیوں کے دن اتنے طویل ہو تے ہیں کہ رات سکڑ کر دو گھنٹے کی رہ جاتی ہے۔کبھی کبھی سارا دن سورج چمکتا ہے۔ لوگ خوشی کے مارے چھوٹے بڑے ساحلوں پر مختصر لباسوں میںقلیلیں بھرتے نظر آتے ہیں۔کچھ لوگ توسن باتھ لے کر برائون ہو نے کی کوشش میں اپنی کھال تک روسٹ کر لیتے ہیں۔گرمیوں کی چھٹیوں میں اکثر نارویجن لوگ اپنا رنگ مختلف طریقوں سے برائون کرتے ہیں۔ ان میں سن باتھ کے علاوہ لان کی گھاس کاٹنا اور گھروں پر رنگ کرنا لان کی سجاوٹ اور گھروں کی مرمت خود کرنا شامل ہے۔ یہ کام عموماً میاں بیوی مل کر کرتے ہیں اس طرح ایک ٹکٹ میں دو دو مزے لیتے ہیں ۔ یعنی کہ کام کا کام اور برئون رنگت مفت میں۔ پھر یہ لوگ بڑے فخر سے چھٹیوںکے بعد کام پر اپنی برائون رنگت کے ساتھ اترا ئے پھرتے ہیں۔ایک طرف کاسمیٹک کمپنیز رنگت برائون کرنے والی کریموں کی خوب تشہیر کر کے پیسہ بناتی ہیں تو دوسری جانب تحقیقاتی کمپنیز ان کریموں ے مضر اثرات سے بچنے کے لیے لوگوں کو تنبیہ کرتی رہتی ہیں۔عجیب بات نہیں کہ ساری اقوام مغرب برائون رنگت کے لیے کتنی مشقت اٹھاتی ہیں اور برائون اور رنگدار نسلوں کو کمتر بھی جانتی ہیں۔ایک ہماری قوم ہے کہ گوری رنگت کے لیے مری جاتی ہے۔ میک اپ کی کمپنیاں رنگ گورا کرنے کی کریموں سے بہت دولت کماتی ہیں۔ رشتہ کرنے والے لڑکوں کو بھی گوری لڑکی ہی چاہیے ہوتیرا سی غلطی پر لمبے لمبے جرمانے۔اول تا گاڑی پارک کرنے کی جگہ ہی نصیبوں سے ملتی ہے۔ جو مل جائے تو بکھیڑے کئی۔ مثلاً گاڑی کی غلط پارکنگ پر جرمانہ،گاڑی مقرہ وقت سے زیادہ کھڑی کرنے پر جرمانہ، گاڑی مقررہ رفتار سے کم یا زیادہ چلانے پر جرمانہ۔غرض یہ کہ گاڑیاں اوسلو کمیونٹی کے لیے تو گویا دودھ دینے والی گائے ہیں۔اسی لیے کئی لوگ گاڑیاں رکھنا پسند ہی نہیں کرتے۔ جو لوگ شہر کے وسط میں رہتے ہیں وہ تو ساری زندگی شہر سے باہر ہی نہیں نکلتے۔ایک بہت ہووی ویٹ خاتون سے ایک تقریب میں ملاقات ہوئی۔ پوچھا آپ کبھی شہر سے باہر گہیں ہیں ۔ کہنے لگیں نہین شادی کو دس سال ہو گئے ہیں شہر سے باہر کبھی نہیں گئی۔ اس لیے کہ ہر چیز تو گھر کے پاس ہے۔ گھر کی پچھلی طرف بچوں کا سکول۔ فلیٹ کے نیچے دوکا نیں زرا سے آگے ہسپتال تو باہر جانے کی کیاضرورت ہے وہ اتراتے ہوئے گویا ہوئیں۔ تب مجھے انکے بھاری بھرکم بدن کی وجہ سمجھ آئی۔ مجھے وہ موٹی ولائتی مرغیاںیا دآگئیں جو مرغی خانے میں دانہ دنکا چگ کر دانہ والے برتنوں میں ہی چونچیں ڈال کر سو جایا کرتی تھین۔ پھر جب جاگتی تھی ،پھر دانا چگنا شروع کر دیتی تھیں۔کتاب حاصل کرنے کے لیے اس ای میل پر رابطہ کریں۔ andleebany@gmail.com
Musarrat Iftikhar Hashmi skrev innlegg på tidslinjen din
“Mje aapki book mil gæ he manzalon ki kahkashan prne lgi to ab khtm krne ko krne dil NHI kr raha its so interesting n informative itni achi book likhne pe mubarik ho gala lga ke Is dua ke sath Allah zamin c Aasman tk khushian ar kamyabian atta kre Amin “
سلام محبت مسرت آپا
آپی اپنی کتاب کے بارے میںآپ کے خیالات جان کر دلی و روحانی مسرت ہوئی۔کتاب پڑھنے اور میرے ساتھ نگر نگر کی سیر کرنے کے لیے تہہ دل سے مشکور ہوں ۔
آپی مجھے لوگ میلز میں بہت دعائیں دیتے ہیں مگر اتنی بھرپور اور پر خلوص دعا پہلی بار ملی ہے۔میرا دل اور روح دونوں آپ کے لیے اور آپ کے اہل خاندان کے لیے دعا گو ہے کہ اللہ آپ سب کا دامن مسرتوں اور کامیابیوں سے بھر دے۔
پر خلوص دعائوں کے ساتھ
شازیہ
>
Assalam u Alaikum
I hope you will be fine.
I have visited Urdu Falak blog. It is informative. I come to know more about Overseas Pakistanis living in Norway.
I want to know about your Book “Manzilon ki Kehkashan” . I want to read it , how and from where I can get this book?
Waiting for your kind reply
013/1/12 Shazia Andleeb
جی فاروق صاحب اردو فلک وزٹ کرنے اور کتاب پسند کرنے کا بہت شکریہ۔آپ اپنا ایڈرس بتائیں کس شہر میں ہیں۔فی الحال تو یہ کتاب تارکین وطن کے لیے ہی ہے لیکن اگر پاکستان میں کوئی اسے پڑھنا چاہے تو میں کتاب کے ڈسٹری بیوٹر سے بات کرتی ہوں کہ وہ اس کے لیے کیا کہتے ہیں۔
شکریہ شازیہ۔
Assalam u alaikum
Asal mein mein Gujrat gaya hua tha Email nahi dekh saka ,
Mein Peshawar Mein reh raha hoon aap distributer ya book shop bata dein takey wahan se hasil ki ja sakey. Ya phir aap wahan se bhijwa dejiye.
Thanks Regards
Best Regards
Umar Farooq,
Chughtai Dental Supply, Peshawar.
Assalam u Alaikum
Umeed hai Iman o Sehat Ki behtareen halat mein Hon gi.
Aap ki kitab “manzilon ki Kehkashan” agarche nahi parhi magar andaaza ho raha hai ke aap ne is mein Pakistan ko Jannat ke tour pe pesh kia hai. Pakistan Yaqinan Jannat ka tukra hai magar Aaqibat na andesh hukamranon ke chungal mein hai. Safarnama sirf Ser-o-Siahat hi nahi hota balke wo us ilaqey ke tamaddun aur saqafat ko bhi samny lata hai. Aap ne jo fehrist di hai is se to zahir hota hai ke aap ne mashriq aur maqrib ki saqafat se agahi ka besh baha zakhira fraham ker dia hai. Rawalpindi se aghaz ker ke aap ne Europe ki wadiywn aur Sahilon tk ke ahwal qalamband kiye hain jo k Qariin ky liey dilchaspi ka bais hoon ge.
Tafsilat to is kitab ko perh ker hi maloom ki ja sakti hain Ye bataiye ga ke isey kaisey hasil kia ja sakta hai? Pakistan mein ye kitab kahan pe dastyab hai ? Zar-e-Taawon waghairah se bhi agah kerin. Brah e Karam tafsilat se agah zrur kijiye ga..
Wassalam
Khair Andesh
Raja Muhammad Attique Afsar
AOA, Attique Afsar sahab,
Kitab ki psandidgi ka shukrya. Mai nai apni taraf sai kuch hqaik likhai hain is kitab mai.waqii tehzib o tmadan to khood hi a jata hai ap thik kehtai hain.yai to safarnamai ka hissa hota hai.mai jald hi book dealer sai pata kar k btaon gi k Pakistan sai isai kaisai hasil kiya ja sakta hai.
shukriya
Shazia
aoa,
after a very long time i started reading the literature again,and its realy nice to c that still in this time person like u are not only contributing thier share to uplift the urdu literature but also presenting the real spirit of urdu literature.i would love to have ur book so kindly tell me ,how can i get that? wish u best of luck
regards
Aysha javed
milan italy
ASSALAM O ALAIKUM
Bht bht shukrya link share karne ke lye,
Mein bunyadi taur par safarnama ka aashiq hun, Insha G / Q.A. Abbasi Sahab ko bht parha hai. Aap ki kitaab ka iqtibaas parh kar dil khush ho gaya bht hi khubsurat andaz e bayan hia, Pindi ke zikr ne dil moh lya subha ka waqt panjabi nashte sardyon ka zikr bht hi khoob aur norway kahani ka bhi jawab nahin, Bari khwahish hai ab ye kitaab poori parhna chahta hun, Aap pls bataein ye kese dastyab ho sakti hai???