سفر القدس شریف الحمدللہ ہم بیت المقدس کے مبارک سفر سے واپس آئے ہیں ۔ ایسی سر زمین جس کی برکتوں کا تذکرہ قرآن مجید میں آیا ۔ ۔ انبیاء کی سر زمین۔ ۔ ہمارا قبلہ اول ۔ وہ جگہ جہاں محشر کا میدان لگے گا ۔ – دنیا میں وہ واحد جگہ جہاں تمام انبیاء ایک ہی وقت میں اکٹھے ہوئے۔ ۔ جہاں پہلی دفعہ نماز با جماعت ادا کی گئی۔ ۔ وہ مقام جہاں آسمان کا دروازہ ہے ۔ ۔ وہ مقام جہاں سے حضور صل اللہ علیہ وسلم معراج پر تشریف لے گئے۔ بیت المقدس وہ جس کی چپہ بھر زمین بھی ایسی نہیں جس پر فرشتوں اور انبیاء کا سجدہ اور قدم مبارک نہ پڑے ہوں ۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فر مایا ۔ تین مساجد ایسی ہیں ۔جن کی طرف سفر کرنا عبادت ہے مسجد الحرام ‘مسجد نبوی اور مسجد اقصٰی (بیت المقدس) ام المومنین حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا کی روایت کے مطابق بیت المقدس میں ایک نماز پڑھنے کا ثواب ہزار نماز کے برابر ہے ۔ وہ سر زمین جس میں حضرت ابراہیم علیہ السلام ان کی بیوی حضرت سارہ رضی اللہ عنہا اور انکے بیٹے حضرت اسحاق علیہ السلام اور انکی بیوی حضرت رفقہ رضی اللہ عنہا اور حضرت یعقوب علیہ السلام اور حضرت یوسف علیہ السلام کے مبارک گھر اور ان کی قبریں موجود ہیں ۔ حضرت سلیمان علیہ السلام ، حضرت داود علیہ السلام ، حضرت موسیٰ علیہ السلام، حضرت یونس علیہ السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور لاکھوں انبیاء کا مسکن ۔ جہاں ایمان کی تازگی کے ساتھ انبیاء سے قربت کا احساس اور بڑھ جاتاہے ۔ وہ راستے جو انبیاء کی گزر گاہ تھے ان کے مقدس قدم اس سر زمین پر لگے تھے ۔ وہ پہاڑیاں جن پر انبیا ء بکریاں چراتے رہے۔ اس موقع پر اپنی قسمت پر رشک بھی آرہا تھا اور آنکھوں سے شکر کے آنسو بھی جاری تھے ۔کہ کیا میں اس قابل تھی کہ میرے رب نے مجھے اس سر زمین پر قدم رکھنے کے لیے قبول کیا ۔ الحمدللہ ہم اس چرچ میں بھی گئے جہاں ساتھ ہی مسجد عمرفاروق موجود ہے ۔جب حضرت عمر فاتح بن کر یروشلم میں داخل ہوئے ۔ عیسائی پادری سے ملاقات ہوئی ۔اس وقت وہ اس چرچ میں تھے جس کے بارے میں عیسائیوں کا عقیدہ ہے کہ اس جگہ حضرت عیسی علیہ السلام کو صلیب پر چڑھایا گیاتھا ۔ وہاں حضرت عمر کی ملاقات کے دوران نماز کا وقت ہو گیا ۔عیسائی پادری نے وہاں نماز پڑھنے کا انتظام کروا دیا ۔مگر حضرت عمر فاروق نے اپنی دور اندیشی اور فہم و فراست کی وجہ سے چرچ سے باہر نکل کر نماز اس لیے پڑھی ۔ ایسا نہ ہو کہ بعد میں آنے والے مسلمان اس چرچ کو گرا کر اس جگہ پر مسجد بنا دیں۔حضرت عمر فاروق نے جہاں صحابہ کے ساتھ مل کر چرچ سے باہر نکل کرنماز پڑھی وہاں مسجد عمر بنا دی گئی ۔مسجد اور چرچ ایک ہی جگہ موجود ہیں ۔بعد میں آنے والے عیسائی اس احسان کو نہ بھول سکے ۔ یروشلم میں وہ مقام بھی موجود ہے جہاں حضرت رابعہ بصری نے غار میں مراقبے کے لیے وقت گزارا۔ تل ابیب کے قریب وہ ساحل بھی موجود ہے جہاں مچھلی نے حضرت یونس علیہ السلام کو اگلا تھا ۔اور وہ مقام جہاں حضرت یونس ایک سال تک رہے پھر اپنی قوم کی طرف چلے گیے ۔وہاں ہم نے باجماعت ظہر کی نماز ادا کی ۔ وہاں ہماری ملاقات اس مسجد کے امام صاحب سے ہوئی ۔جنہوں نے ہمیں قران و حدیث اور مقام یونس کے حوالے سے معلومات دیں۔ انہو ں ہمیں بھرپور خوش آمدید کرنے کے بعد بتایا کہ وہ فلسطین میں رہنے کے باوجود 27 سال سے مسجد اقصی میں دو رکعت نماز ادا نہیں کرسکے ۔انہوں مزید یہ بھی فرمایا کہ آپ بہت خوش نصیب جن کو اللہ سبحانہ و تعالی نے بیت المقدس کی زیارت اور عبادت کی توفیق بخشی ۔یہ سن کر سب آنکھیں اشک بار ہو گئیں اور اپنے رب کے سامنے جھک گئیں۔ وہ امام مسجد ہی نہیں بلکہ مجاہد بھی تھے دس سال جیل میں ظلم وستم نشانہ بھی رہے ۔ انہوں نے بتایا کہ تین اعمال ایسے ہیں جن کے بعد انسان ایسے ہوجاتا ہے جیسے انسان اسی دن ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا ہو 1۔ سچی اور پکی توبہ کرنے کے بعد 2۔ حج مبرور ۔ ایسا حج جس میں کوئی گناہ نہ کیا جائے۔ 3۔ مسجد اقصیٰ میں نماز پڑھنے سے ایک بات بتاتی چلوں کہ فلسطین کے بہت سارے شہروں کے مسلمان بیت المقدس کا سفر نہیں کرسکتے ۔ان کے لیے بہت پابندیاں ہیں۔ مسجد اقصی یروشلم میں ہے ۔اس شہر پر بھی اسرائیل کا قبضہ ہے وہاں مقامی مسلمانوں کو بہت دبا کر رکھا جاتاہے ۔اچھی جاب کے دروازے ان کے لیے بند ہیں ۔وہ مشکل کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں ۔لیکن میرے اور آپ کے حصے کا کام کر رہےہیں۔ مسجد اقصٰی کے لیے اپنی جانیں قربان کر رہے ہیں ۔مسجد اقصی کے امام کا کہنا تھا کہ یہ مسجد صرف فلسطینیوں کی نہیں بلکہ تمام مسلمانوں کا قبلہ اول ہے ۔اور اسکی زیارت کے لیے سب مسلمانوں کو سفر کرنا چاہیے ۔جو کہ ایک بہت بڑی عبادت اور آج کی ضرورت ہے ۔تاکہ اسرائیل کو پتا چلے کہ ہم سب ایک ہیں اور اپنے قبلہ اول بیت المقدس سے محبت کرتے ہیں ۔اور مزید فلسطینی غریب مسلمانوں کی مالی مدد بھی کر نی چاہیے ۔تاکہ ان کی مشکل میں کچھ آسانی پیدا ہو ۔اور وہ زندہ جذبوں کے ساتھ مسجد اقصی کی حفاظت کے لیے ڈٹے رہیں۔ مسجد اقصی وہ جگہ ہے جہاں حضرت داود کا تخت سجتا تھا۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کے زمانے میں اسے تعمیر کیا گیا تھا ۔ معراج کے وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بیت المقدس لے جایا گیا جہاں آپ نے تمام انبیاء علیہ السلام کی جماعت کروائی ۔جس جگہ آپ نے کھڑے ہو کر جماعت کروائی آج بھی وہ جگہ موجود ہے اس جگہ ایک مصلی اور چھوٹا سا چبوترا بنایا گیا ہے ۔ زیارات سے واپسی پر ہم مسجد میں داخل ہوئے ظہر کی جماعت ہو چکی تھی ۔ہمارے گروپ لیڈر اور امام حافظ محمد طیب صاحب نے مصلی رسول پر کھڑے ہوکر جماعت کروائی ۔ہم خواتین مردوں سے پچھلی صف میں تھیں ۔ایک عجیب خوبصورت تصور تھا کہ اس صف جہاں میں کھڑی ہوں وہاں کس نبی نے سجدہ کیا ہوگا ۔ الحمدللہ انتہائ خشوع و خضوع کے ساتھ ہم نے نماز پڑھی اور تمام امت مسلمہ کے لیے اجتماعی دعا کی ۔جمعہ کی نماز ہم خواتین نے گنبد صخرا میں ادا کی ۔ جبکہ مردوں نے مسجد قبلی میں نماز پڑھی ۔پوری مسجد صخرہ حرم شریف کی طرح بھری ہوئی تھی ۔اس۔کے باوجود ہم جہاں بیٹھنا چاہتے لوگ کوشش سے دوسرے کے لیے جگہ بناتے اور بھر پور طریقے سے ہمیں خوش آمدید کرتے خاص کر جب ان کو پتہ چلتا کہ ہم پاکستانی ہیں تو ان کی محبت کا انداز ہی مختلف ہوتا۔ امام صاحب نے مسجد اقصی کی آزادی اور اتحاد مسلمین کے لیے دعا کی ۔ ہمارے گروپ میں بچے اور جوان بھی موجود تھے ۔جن کہنا تھا کہ ہم مکہ مدینہ سفر کرتے ہیں تو ہمارا تعلق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مضبوط ہوتا ہے ۔لیکن بیت المقدس کے سفر سے تمام انبیاء کرام سے قربت کا احساس اور بڑھ گیا ہے ہم گروپ کے ساتھ تہجد کی نماز کے لیے روزانہ ہوٹل سے مسجد اقصیٰ میں جاتے ۔ صبح کے وقت ہر طرف سناٹا اور رحمت کی برسات ہوتی ۔ایسا پر نور سما جو بیان نہیں کیا جا سکتا ۔ہم تہجد کی نماز مسجد قبلی میں ادا کرتے ۔جو کہ گنبد صخرا کے ساتھ ہی ہے ۔ الحمدللہ ہم سب وہاں اپنی قسمت پر ناز کرتے اور قدم قدم پر اپنے رب کا شکر ادا کرتے ۔کہ اللہ تعالی نے ہمیں اس کی توفیق بخشی۔ الحمدللہ ۔ ہمارے گروپ کے سب لوگ ہی خوش مزاج اور تعاون کرنے والے تھے ۔ہمارے ساتھ فلسطینی گائیڈ بھی تھے جو انگلش میں رہنمائی کرتے تھے کچھ لوگوں کی آسانی کے لئے گروپ لیڈر اردو اور نارویجیین میں مزید خوبصورت انداز سے اس کی وضاحت کرتے ۔ جس سے سب کے لیے بات سمجھنا آسان ہو جاتا ۔ ہمارا یہ سفر درج ذیل مقامات کے دورہ پر مشتمل تھا بیت المقدس ، یروشلم ، الخلیل / ہیبرون (حضرت ابراہیم کی بستی) ، مقام نبی یونس ، بیت اللحم ( حضرت عیسٰی کی جائے پیدائش) ، مقام نبی موسیٰ ، اریحا (Jericho ) دنیا کے سب سے قدیم آباد شہر جو 12 ہزار سال پرانا ہے اور دنیا میں سطح سمندر کے لحاظ سے سب سے نچلا شہربھی ہے ، بحر المیت جسے بحر مردار بھی کہتے ہیں ، تل ابیب ، جافا اور فلسطینی اتھارٹی کے مرکز رملہ (جہاں یاسر عرفات میوزیم میں فلسطین کی جدوجہد آزادی کی تاریخ موجود ہے) واپسی میں اداس دلوں کے ساتھ سب کی خواہش تھی کچھ دن اور رہ لیں۔ اور سب یہ دعا تو تھی ہی کہ یا اللہ ہمیں بار بار مسجد اقصی ٰ میں نماز پڑھنے کی توفیق عطا فرما ۔ الحمدللہ ہمیں کسی مشکل کا سامنا نہیں کرنا پڑا ۔میری سب کے لیے تجویز ہوگی کہ جن کیلئے قانونی طور پر سہولت موجود ہے وہ مسجد اقصٰی کا سفر ضرور کریں۔ اس گھر کو آباد رکھنا بھی ہم سب کی ذمہ داری ہے ۔ہم مشکلات سے ڈرتے ہیں ۔کہیں مر نہ جائیں ۔یہ ایمان کی کمزوری ہے جب کہ ارشاد باری تعالی ہے ۔”اگر اللہ تمہیں نقصان پہنچانا چاہے تو کوئی بچا نہیں سکتا ۔ اور اگر اللہ بچانا چاہے تو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا “۔اس لیے ہمیں ہر کام اللہ کی رضا کے لیے کرنا چاہیے ۔ کو شش کریں اس مقدس سر زمین پر سجدہ کی تڑپ لیے ہوئے ضرور سفر کریں جہاں حشر کا میدان لگے گا ۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فر مایا ۔مسجد اقصی میں نماز ادا کرنے کے لیے سفر کرو اگر سفر نہیں کر سکتے تو اس کے چراغوں کے لیے تیل ہی بھیج دو ۔ آخر میں اللہ سبحانہ و تعالی سے دعا ہے کہ بیت المقدس اور فلسطینیوں کو اسرائیل کے ناجائز قبضہ سے آزادی نصیب فرما ۔اور ہمیں اس مقدس گھر کی بار بار زیارت نصیب فرما ۔آمین دعاگو ۔ دعاؤں کی طالبہ ام عبداللہ اوسلو ناروے.