دو کلو چینی کی رشوت
سہیل انجم، نئی دہلی
پچھلے دنوں ایک سمینار میں شرکت کی غرض سے نیپال جانے کا اتفاق ہوا۔ سمینار کا انعقاد کرشنا نگر نیپال کے ایک معروف تعلیمی ادارہ مرکزالتوحید کے ڈائرکٹر مولانا عبد اللہ مدنی نے کیا تھا۔ دورے کے دوران کئی خوشگوار تجربات ہوئے۔ ہمارے ساتھ ایک مقالہ نگار مولانا عبدالمعید بھی تھے جو ہیں تو ہندوستانی مگر ایک طویل عرصہ تک فیجی میں رہنے کے بعد انھوں نے وہاں کی شہریت حاصل کر لی ہے۔ ہندوستان اور نیپال کے درمیان آمد و رفت کے لیے پاسپورٹ ویزا کی ضرورت نہیں ہے۔ لیکن کسی دوسرے ملک کا کوئی شہری وہاں جانا چاہے تو اسے ویزا لینا پڑتا ہے۔ حالانکہ سونولی بھیرہوا سرحد پر کوئی چیکنگ نہیں ہوتی۔ کوئی غیر ملکی بھی آسانی سے داخل ہو سکتا ہے۔ لیکن اگر کہیں چیکنگ ہو گئی تو پریشانی ہو سکتی ہے۔ ہم لوگ ایک گاڑی میں تھے جس میں بستی ریلوے اسٹیشن پر ہم لوگوں کو لینے آئے ہوئے محمد احمد خان سمیت پانچ افراد تھے۔ جب ہم سرحد پر پہنچے تو وہاں ٹرکوں کی ایک طویل قطار لگی ہوئی تھی۔ ہماری گاڑی میں پانچ افراد تھے جن میں بستی ریلوے اسٹیشن پر ہم لوگوں کو لینے آنے والے کٹھمنڈو کے محمد احمد عرف پپو بھائی بھی تھے۔ سرحد پار جانے کے لیے ہندوستانی پولیس کے پاس گاڑی کی انٹری کرانی او راس پار کسٹم کرانا ہوتا ہے۔ انٹری کرانے کے بعد ایک پولیس والے نے نذرانہ مانگا۔ پپو بھائی نے کہا کہ ہم تو بارہا آتے جاتے ہیں کبھی ہم نے نہیں دیا۔ پولیس والے نے کہا کہ دینا پڑتا ہے۔ انھوں نے جیب میں ہاتھ ڈالا اور دس دس کے چار پانچ نوٹ جو ایک ساتھ رکھے ہوئے تھے نکالے اور اس کو تھما دیا۔ اس نے بھی بغیر دیکھے انھیں جیب میں رکھ لیا۔ اب ہم نیپال میں داخل ہو گئے۔ یہاں یہ بات بتاتے چلیں کہ سونولی وہی سرحدی مقام ہے جہاں سے بہت سے پاکستانی غیر قانونی طور پر ہندوستان میں داخل ہونے کی کوشش کرتے ہیں اور بعض اوقات پکڑے بھی جاتے ہیں۔ جموں و کشمیر کے لیاقت شاہ کو جو کہ مقبوضہ کشمیر سے ہندوستان آرہا تھا یہیں پکڑا گیا تھا۔
اندر داخل ہوتے ہی ایک چھوٹی سی عمارت پر امیگریشن کا بورڈ نظر آیا۔ ہم لوگ وہاں گئے۔ یہ ایک دو کمروں پر مشتمل انتہائی معمولی قسم کا دفتر تھا۔ اس کو دیکھ کر امیگریشن کا تصور تک نہیں ابھرتا۔ چند میزیں ڈالے آٹھ دس عہدے دار بیٹھے ہوئے تھے۔ انھیں پاسپورٹ دیا گیا اور دس منٹ کے اند راندر ویزا آن ارائیول مل گیا۔ عہدے داران اس دوران ہم لوگوں سے انتہائی خندہ پیشانی کے ساتھ گفتگو بھی کرتے رہے او رمولانا سے فیجی کے بارے میں معلومات حاصل کرتے رہے۔یہ دیکھ کر انتہائی خوشگوار حیرت ہوئی کہ نیپال میں کتنی آسانی اور سادہ طریقے سے کام ہوتا ہے۔ نہ کوئی پوچھ گچھ، نہ کوئی جامہ تلاشی اور نہ ہی کسی قسم کے شکوک و شبہات کا اظہار۔ اگر ہندوستان میں یہی ویزا لینا ہو تو مہینوں تک چکر کاٹنے اور متعدد پریشان کن سوالوں سے گزرنے کے بعد ویزا ملے گا۔ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان تاجر برادری کو ایسے ہی سرحد پر پہنچتے ہی ویزا آن ارائیول کی سہولت دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ لیکن اس پر عمل درآمد کب ہوگا کہا نہیں جا سکتا۔ اگر یہ سہولت میسر ہو جائے تو دونوں ملکوں کو کتنا فائدہ ہوگا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
اب ایک مرحلہ گاڑی کے کسٹم کا تھا۔ وہاں زبردست بھیڑ تھی۔ درجنوں گاڑیاں پارک کی ہوئی تھیں۔ میلے کا سماں تھا۔ دو تین چھوٹی چھوٹی عمارتوں میں کاونٹروں کے سامنے لوگوں کی قطاریں لگی ہوئی تھیں۔ کوئی گاڑی کا کسٹم کرا رہا ہے تو کوئی کسی اور چیز کا۔ ایک لڑکے کو دیکھا وہ تین کلو چینی کا کسٹم کرا رہا تھا جو کہ وہ سونولی سے نیپال لے جا رہا تھا۔ اس نے بتایا کہ ہر چیز کا بھنسار (کسٹم) کرانا پڑتا ہے۔ تھوڑی دیر کے بعد وہ بھی اسی طرح کے ڈاکیومنٹ لے کر قطار سے باہر آیا جیسے ڈاکیومنٹ گاڑی والوں کو مل رہے تھے۔ بہت سے لوگ اس کاونٹر سے ا س کاونٹر تک جاتے نظر آئے۔ بہت سی ایسی عورتیں بھی دکھائی دیں جو سر پر گٹھری لیے ہوئے بھنسار کروا رہی تھیں۔ لوگوں نے بتایا کہ آپ کوئی بھی سامان بغیر کسٹم کرائے نہیں لے جا سکتے۔ کاونٹروں پر فٹافٹ کام ہو رہا تھا۔ ہم لوگوں کی گاڑی کا بھی کسٹم ہوا۔ وہاں سے نکلے تو احمد نے بتایا کہ اب ہمیں محکمہ ٹرانسپورٹ سے پرمٹ لینی ہوگی۔ چونکہ یہ گاڑی ہندوستان کی ہے اس لیے نیپال کی سڑکوں پر چلنے کا لائسنس چاہیے۔ کچھ دور آگے بڑھے تو ایک معمولی سی عمارت پر محکمہ ٹرانسپورٹ کا بورڈ نظر آیا۔ وہاں بھی مشکل سے پانچ سات منٹ کے اندر ویسا ہی ڈاکیومنٹ مل گیا جیسا بھنسار کراتے وقت ملا تھا۔ اب یہ گاڑی پورے نیپال میں کہیں بھی آجا سکتی ہے۔ وہاں سے کرشنا نگر کے لیے نکلے جہاں سمینار ہونے والا تھا۔ مغرب کا وقت ہو چکا تھا۔ راستے میں دسیوں کلومیٹر تک گھنے جنگلوں کے درمیان سے گزرنا پڑا جہاں انتہائی شاندار سڑکیں تھیں۔ ویسی سڑکیں تو یہاں کے ہائی ویز پر بھی بہت کم دیکھنے کو ملتی ہیں۔
نیپال صدیوں تک شہنشاہیت کے زیر حکومت رہا۔ وہ دنیا کی واحد ہندو اسٹیٹ تھی۔ لیکن اس کے باوجود وہاں مسلمانوں کے ساتھ مذہب کی بنیاد پر کبھی کوئی تعصب نہیں برتا گیا۔ ماو نوازوں نے شہنشاہیت کے خلاف ایک عرصے تک خونیں تحریک چلائی تھی اور بالآخر وہ شہنشاہیت کے خاتمے میں کامیاب ہوئے۔ اب وہاں جمہوری حکومت قائم ہے۔ وہاں کے لوگوں نے بتایا کہ ماو نوازوں کی وجہ سے اگر چہ بڑی بد امنی رہی مگر اب وہ بات ختم ہو گئی ہے۔ البتہ سابق ماو لیڈروں کا سماج میں اب بھی دبدبہ ہے۔ ان لوگوں نے بہت سے غلط کام کیے تو کئی اچھے کام بھی کیے۔ اس وقت نیپال کے وزیر اعظم سشیل کوئرالہ شائد دنیا کے سب سے غریب وزیر اعظم ہیں۔ وہ نیپالی کانگریس کے صدر ہیں۔ ان کے پاس کوئی اثاثہ نہیں ہے۔ وزیر اعظم ہاوس منتقل ہونے سے قبل وہ کٹھمنڈو میں کرائے کے ایک معمولی سے مکان میں رہتے تھے۔ وزیر اعظم بننے سے قبل ان کا کوئی بینک اکاونٹ نہیں تھا۔ پہلی تنخواہ ملنے پر انھوں نے اکاونٹ کھلوایا۔ پچھلے دنوں وہ سرکاری دورے پر برما گئے تھے۔ اس وقت انھیں الاونس کے طور پر ڈالر ملے تھے جو ان سے خرچ نہیں ہوئے۔ انھوں نے اسے حکومت کو واپس کر دیا۔
مذکورہ سمینار ملک کے ایک جلیل القدر او رانتہائی شریف النفس عالم دین مولانا عبد السلام رحمانی کی حیات و خدمات پر مدرسہ خدیج الکبری کرشنا نگر (جھنڈا نگر) کے ڈائرکٹر مولانا عبد اللہ مدنی کے زیر اہتمام منعقد ہوا تھا۔ سمینار میں مولانا عبدالمعید (فیجی) اور شیخ صلاح الدین مقبول احمد (کویت) کے علاوہ بنارس، مو ، مبارکپور، ممبئی، لکھنو اور دہلی کے علاوہ نیپال کے متعدد مقالہ نگاروں کو بھی مدعو کیا گیا تھا۔ مولانا رحمانی ایک خدا رسیدہ بزرگ تھے۔ انھوں نے اپنی پوری زندگی انتہائی خندہ پیشانی، وسیع القلبی اور بے تعصبی کے ساتھ اسلام کی تبلیغ میں گزاری۔ انھوں نے اسلامی دعوت و تبلیغ کے مشن پر سے لے کر تک یعنی سات سال جزائر فیجی میں دعوتی و تبلیغی کام کیا تھا اور قادیانیت کے خلاف مسلمانوں کو بیدار کیا تھا۔ جس سے گھبرا کر انھوں نے حکومت پر زور ڈالا کہ وہ مولانا رحمانی کو فیجی سے نکال دے۔ بالآخر وہ کامیاب ہوئے اور کے بعد ان کو وہاں کام کرنے کا ویزا نہیں ملا۔ راقم الحروف کے ان سے دیرینہ مراسم تھے۔ وہ اکثر اس پر روشنی ڈالتے کہ فیجی میں انھیں کیسی کیسی پریشانیاں ہوئیں اور کس طرح لوگوں نے انھیں ہاتھوں ہاتھ لیا بھی۔ انھوں نے ایک سفرنامہ دیار غیر میں لکھا ہے جس میں فیجی کے حالات تفصیل کے ساتھ درج ہیں۔ ان کے مطابق فیجی کی اصل آبادی جنگلی باشندوں پر مشتمل تھی۔ وہاں سب سے پہلے عیسائیت کی تبلیغ کے لیے پادری پہنچے تھے۔ انھوں نے ایک واقعہ لکھا ہے کہ وہاں کے باشندے سوا سو ڈیڑھ سو سال قبل آدم خور جنگلی تھے۔ برطانوی تسلط کے دوران حکومت زبردستی ان سے گنے کی کاشت کرواتی۔ ڈر کے مارے وہ دن بھر کام کرتے اور رات کو فصل اکھاڑ دیتے۔ ایک بار ایک پادری عیسائیت کی تبلیغ کے لیے ان پاس جنگل میں گیا۔ جنگلیوں نے اس کی باتیں بڑے غور سے سنیں او رکہا کہ تمھاری بات بہت اچھی ہے لیکن تمھارا گوشت اس سے بھی اچھا ہوگا۔ لہذا انھوں نے پادری کو مار ا اور جوتوں سمیت پکا کر کھا گئے۔ وہ سمجھتے تھے کہ جوتا بھی جسم کا ایک حصہ ہے۔ اس پر تبصرہ کرتے ہوئے مولانا پادریوں کے جذبے کی ستائش کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ عیسائیوں نے کئی پادریوں کو گنوانے کے باوجود تبلیغ کا مشن نہیں چھوڑا۔ جس کے نتیجے میں بالآخر بہت سے لوگ عیسائی ہو گئے۔ مولانا کہتے ہیں کہ اگر ایسا ہی جذبہ اسلامی عالموں میں بھی پیدا ہوجائے تو پوری دنیا اسلام کے زیر نگیں آجائے۔ ان کے وہا ںپہنچنے سے قبل مسلمانان فیجی اسلام سے آشنا تو تھے لیکن دینی جذبے سے محروم تھے۔ مولانا کے مطابق فیجی میں پہلے دینی رجحان بہت کم تھا۔ صوم و صلو اور حج و زکو کی کوئی پابندی نہیں تھی۔ جب میں جون کو وہاں پہنچا تو اس وقت تک مسجدیں بہت کم تھیں۔ کوئی اسلامی سینٹر بھی نہیں تھا۔ نہ کسی نے اس وقت تک حج کیا تھا۔ قوالی کرانے کو وہ لوگ اصل اسلام سجھتے تھے۔ لیکن ان کی کوششوں سے نماز روزہ کی پابندی کا اہتمام پیدا ہوا۔ کئی مسجدیںتعمیر ہوئیں۔ کئی اسلامی سینٹر قائم ہوئے۔ فیجی کے تیرہ افراد نے پہلی بار ان کے ساتھ میں حج کیا اور ا س کے بعد سے یہ سلسلہ جاری ہو گیا۔
مولانا عبد اللہ مدنی جو کہ پچیس سال سے نور توحید نام سے ایک اردو ماہنامہ بھی نکالتے ہیں، اس سمینار کے انعقاد کے لیے مبارکباد کے مستحق ہیں۔
sanjumdelhi@gmail.com