ارے بیٹا بس بھی کرو۔ کیاتم جب سے سکول سے آئی ہو کہانیوں کی کتابیں لے کربیٹھ گئی ہو۔ آئے دن تم کہانی کی کتاب اپنی دوستوں سے لے کرآجاتی ہو۔۔
انعم انصاری، جھول:
ارے بیٹا بس بھی کرو۔ کیاتم جب سے سکول سے آئی ہو کہانیوں کی کتابیں لے کربیٹھ گئی ہو۔ آئے دن تم کہانی کی کتاب اپنی دوستوں سے لے کرآجاتی ہو، اس کے بعدنہ تو پھر تمھیں کھانے کوئی ہوش رہتا ہے، نہ پینے کا۔
بس تمام تو جہ اسی کتاب پر ہوتی ہے ۔ چلو رکھو! اسے اور چپ چاپ سوجاؤ۔ کل صبح سکول بھی جانا ہے۔ امی بس پانچ منٹ میں کہانی ختم ہونے والی ہے۔ ثناء نے جواب دیا۔
ثناء سونے کیلئے بسترپر لینے یہ سوچ رہی تھی کہ کیا سچ میں پریاں ہوتی ہے یاصرف کہانیوں میں ہی ایسا ہوتا ہے۔
کاش اس کے پاس بھی کوئی پیاری سی پری ہوتی جس کے ساتھ وہ کھیلتی باتیں کرتی۔ یہ سب سوچتے سوچتے اسے نیند آگئی۔
اس نے دیکھا کہ اس کے کمرے میں اچانک ایک سفید روشنی ہوئی ۔
جس سے اس کی آنکھیں چندھیاگئی۔ اُس نے دیکھا کہ ایک بہت ہی پیاری سفید رنگ کی پری کی آنکھوں کے سامنے کھڑی ہے۔
اسے اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آرہاتھا۔ اُس نے اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آرہاتھا۔ اس نے اپنی آنکھوں کودوبار مسل کردیکھا توپری نے کہا ثناء میں سچ میں پری ہوں تم ہمیں اتنا پسندکرتی ہو توکیا ہم تم سے ملنے بھی نہیں آسکتے۔ ثناء نے کہا سفیدپری آپ بہت پیاری ہیں کیاآپ مجھے اپنے ملک کی سیرکروائیں گی۔
سفید پری نے کہا ٹھیک ہے چلوؤ چلیں۔ پھر وہ دونوں اڑنے لگیں اور تھوڑی دیر میں پرستان پہنچ گئیں جہاں تم پریاں ان کاانتظار کررہی تھی۔ ثناء تمام پریوں کودیکھ کر بہت خوش ہوئی اسے ہری ،پیلی، نیلی ، کالی، لال غرض تمام رنگ کی پریوں سے مل کر بہت مزہ آیا۔
اتنے میں ان کی ملکہ پری بھی آگئی جوست رنگی رنگ کی پری تھی۔س اُس نے ثناء کودیکھ کرکہا آؤ ہم تمھاراہی انتظار کررہے تھے تم ہماری کہانیاں بہت ہی شوق سے پڑھتی ہو۔ اسی لئے میں نے آج سفید پری کوتمھیں لانے کیلئے بھیجا تھا۔
اب سفید پری تمھیں ہمارے پرستان کی سیرکروائے گی۔ ثناء نے کہا مجھے آپ سب سے مل کربہت اچھا لگا میں اس دن کوکبھی نہیں بھولوں گی۔
اتنے میں سفید پری نے کہاچلوؤ سیرکوچلتے ہیں پھر تمھیں گھر بھی چوڑنا ہے کہیں صبح نہ ہوجائے۔
پھر وہ اور سفید پری کونکلے ۔ سفید پری نے ثناء کوتمام پرستان کی سیرکروائی اُسے وہاں کے پھل کھلائے اور ٹھنڈا ٹھنڈاپانی پلایا۔ پھر وہ اور سفید پری ایک گرتے جھرنے کے پاس بیٹھ کرباتیں کررہی تھیں کہ اتنے میں ایک جن آنکلا۔ جوبہت ہی خونخواراور طاقتور تھا۔
ثناء اور سفید پری سے کہاکہ ثناء اس کے حوالے کردو۔ سفید پری نے کہانہیں یہ میری مہمان ہے اور میری دوست ہے۔ جن ہنسنے لگااور کہنے لگا کہ کیاپریوں کی بھی کبھی انسانوں سے دوستی ہوسکتی ہے اور آگے بڑھ کرثناء کوکھینچنے لگا۔ ثناء نے کہا کچھ نہیں اُس نے ایک براخواب دیکھا لیا تھا۔
توامی نے کہا ہوگا کوئی پریوں کاخواب سارادن بس وہی اور اب خواب میں بھی چلواب جلدی سے ناشتہ کرنے آؤ۔ ثناء نے کہاجی اور پھرخواب کے بارے میں سوچنے لگی کہ کتنا اچھا خواب تھا۔ اتناکہہ کراُس نے جیسے ہی دوسری طرف نظر گھمائی وہاں اُسے اپنی کہانی کی کتاب سفید پری نظر آئی جسے دیکھ کروہ مسکرائی اور پھر چل دی۔