شہزاد بسراء
’’محترم اگر آپ برا نہ منائیں تو تھوڑا پرے سرک جائیں‘‘
ہم نے غصہ دبا کر بڑے مؤد ب انداز میں بس ساتھ والی نشست پہ بیٹھے وسیع و عریض تن و توش کے حامل صاحب سے کہا۔ آپ نے تھوڑا تبسم فرمایا اور بیٹھے بیٹھے ایک ٹھمکا سا لگایا، جس سے آپ کی تین منزلہ توند میں ایک بھونچال سا آگیا۔ بس تو جو ڈگمگائی سو ڈگمگائی ہم جو پہلے ہی پون سیٹ پر بمشکل بیٹھے ہوئے تھے اور باہر کی طرف لٹک گئے، نصف سیٹ پر اور نصف نیچے ۔آپ نے یہ حرکت غالباً ہماری درخواست کے جواب سے اپنی تیءں ہمارے لئے کچھ جگہ بنا نے کی کوشش کی، جس کا یقیناان کو فائدہ ہوا ہوگا ہم مزید لٹک گئے۔ اپنی کشادہ بتیسی کی نمائش کرتے ہوئے گویا ہوئے
’’گذارہ ہوگیا یا کچھ مزید جگہ بناؤں؟‘‘
ہم فوراً بولے۔’’نہیں نہیں اتنا ہی کافی ہے‘‘
بلکہ جھوٹی مسکراہٹ کا بھی بھر پور مظاہرہ کیا کہ اگر حضور نے ہمارے لئے مزید جگہ بنانے کیلئے ایک اور کوشش کی تو ہم سیٹ سے مکمل ہاتھ دھوبیٹھیں گے۔اب لاہورتک کم از کم دو گھنٹے اس پوزیشن میں بیٹھنا بھی ممکن نہ تھا۔ صورت حال یہ تھی کہ دو افراد کیلئے مخصوص سیٹ میں ہمارے حصے میں اس کا دسواں حصہ ہی آیا ہوگا۔ ہم لاکھ سمارٹ سلم سہی پھر بھی کچھ نہ کچھ تو جگہ گھیرتے ہی ہیں۔ ایک تو ہم اپنے ایک کُشن پر ہی اکڑوں بیٹھے تھے اوپر سے حضرت کا بازو ہمیں ہر سانس کے مدو جزر کے ساتھ مزید باہر کو دھکیل رہا تھا۔ ہوسٹس ڈرنک دینے آئی تو اس کو مسکین شکل بناتے ہوئے درخواست کی
’’آپ کے پاس کوئی اسٹول وغیرہ ہے؟‘‘
’’اسے کیا کریں گے ؟‘‘ وہ معصوم حیرت سے بولی
’’یہاں رکھیں گے تاکہ بیلنس ہوسکے‘‘۔ اپنے ہوا میں معلق حصے کی طرف اشارہ کرکے بولے
ہوسٹس کھلکھلا کر ہنسی اور حضور کو متوجہ کرتے ہوئے بولی ۔’’آپ نے تو انہیں نیچے گرایا ہو ا ہے‘‘۔
حضور نے جھینپ کر ایک بار پھر ٹھمکا لگایا تو ہوسٹس نے ہمیں نیچے سے اُٹھایا اور ہنسی روکتے ہوئے کہا ۔’’بس کے آخری حصے میں ایک سیٹ خالی ہے آپ وہاں بیٹھ جائیں۔ویسے آپ ہیں بہت سمارٹ‘‘
یہ ہمارے ساتھ کوئی پہلی دفعہ نہیں ہوا جب بھی کسی بھاری بھر کم ہم نشست کے ساتھ بس یا ٹرین میں بیٹھنا پڑے، یہی کچھ ہوتا ہے ۔اگر کھڑکی کی جانب جگہ ملے تو بھی کوئی خاص خیریت نہیں گزرتی۔ ایسے میں وہ تو بیٹھ جاتے ہیں اور آپ کھڑکی کے ساتھ لگ جاتے ہیں۔پھر بس کے ہر جھٹکے ، سپیڈ بریکر اور موڑ پر آپ مزید دب جاتے ہیں۔ سو نہ تو آپ کھڑکی کی طرف بیٹھ کر سکون پاتے ہیں اور نہ باہر کی طرف ۔ اگر ایسے ہم نشین کو زکام یا کھانسی کا عارضہ لاحق ہوتو ہر کھانسی یا چھینک پرایک مزید جھٹکا۔
دوران سفر اگر بس یاٹرین میں کھڑا ہونا پڑے تو موٹے افراد تو ہر حالت میں اپنی جگہبنا لیتے ہیں مگر دبلے حضرات بیچارے کونے کھدروں میں لگے ہوتے ہیں ۔موٹے افراد کو بس میں کھڑا ہونا بھی پڑے تو وہ قریب کی بیٹھی سواری کے اسقدر اوپر سوار ہوجاتے ہیں کہ اگر بیٹھی سواری دبلی پتلی ہے تو اسے آخر موٹے افراد کے لئے سیٹ کی قربانی ہی دینا پڑتی ہے۔ایک اُن کے دھکوں سے بچنے کے لیے اور دوسرے اُن کی مہک سے بچنے کے لیے۔ زیادہ موٹے افراد کی توند میں اتنی تہیں ہوتی ہیں کہ اُن کی صفائی ہی نہیں ہو پاتی اور پسینہ بھی انہیں زیادہ آتا ہے۔
موٹے لوگوں کا ایک رعب دبدبا ہوتا ہے اور ہر جگہ لوگ ان کو معزز خیال کرتے ہیں اگر انہوں نے قدرے بہتر لباس پہنا ہو جبکہ دبلے پتلے افراد کو نظر انداز کردیا جاتا ہے۔خود ہمیں کئی مرتبہ تجربہ ہوا ہے کہ کسی تقریب وغیرہ میں جائیں تو چوکیدار بھاری بھر کم افراد کو سلوٹ مار کر راستہ بنا کر دیتے ہیں جبکہ میرے جیسے کو کہیں گے کہ
’’یار ایک منٹ رُک جا، چوہدری صاحب کو تو گزرنے دے‘‘۔
دبلے پتلے افراد کا احترام صرف جاننے والے ہی کرتے ہیں مگراجنبی انہیں معمولی سمجھ کر نظر انداز ہی کردیتے ہیں۔ جب سے ملک میں دہشت گردی کی وجہ سے سیکورٹی سسٹم بڑھا ہے دبلے افراد کی مشکلات میں خاطر خواہ اضافہ ہو گیا ہے۔ سیکورٹی گارڈ صرف دو قسم کے افراد پر نظر رکھتے ہیں ایک باریش اور دوسرے دبلے پتلے افراد۔ اگر کوئی دبلا شخص باریش بھی ہو تو جامعہ تلاشی ضروری ہوجاتی ہے۔ہمارے چھوٹے بھائی انجینئر سجاد ( حال مقیم امریکہ ) نے صرف اسلئے داڑھی منڈا دی تھی کہ ہر ناکہ پر پولیس اسے بھی باریش افراد کے ساتھ الگ تلاشی کیلئے کھڑا کر دیتی تھی۔ سیکورٹی گارڈ وں کو بہت شک ہوتا ہے کہ یہ جو دبلے سے لوگ ہیں یہی کچھ گڑ بڑکر کے بھاگیں گے جبکہ موٹا بندہ جتنا زیادہ موٹا ہوگا سیکورٹی گارڈوں کیلئے اتنا ہی شریف اور بے ضرر ہوگا۔ وہ سیلوٹ مارکے انہیں جلدی سے گزرنے کا اشارہ کردیتے ہیں حالانکہ ان کے لئے جلدی شجر ممنوعہ ہے ۔اپنی ہی یونیورسٹی میں آتے جاتے کئی دفعہ جب سیکورٹی عملہ نیا ہوتو وہ ہمیں بھی روک کر استفسار کرتے ہیں کدھر جانا ہے، کس کو ملنا ہے؟
ایسے میں ہم اپنے تاثرات کو قدرے با رُعب بناکر اور تھوڑی موٹی آواز میں اپنا تعارف کرواتے ہیں کہ ہم بھی ادھر پروفیسر لگے ہوئے ہیں ۔
سیکورٹی گارڈمشکوک نظروں سے ہمارا جائزہ لیکر پھر پوچھے گا کہ کس بنگلے یا ڈیپارٹمنٹ جانا ہے ۔تفصیل بتا و یا کارڈ دکھاو تب کہیں جان چھوٹتی ہے۔موٹا بندہ ساتھ ہو تو پھر باقی افراد کو بھی سیکورٹی والے نہیں دیکھتے کہ یہ نہیں بھاگنے والے۔شکر ہے کہ اب گاڑیوں پر اداروں کے اسٹیکر لگ گئے ہیں اور سیکورٹی عملہ ہماری دبلی پتلی سمارٹ جسامت کی بجائے صرف اسٹیکر دیکھ کر سیلوٹ مار کے راستہ دے دیتے ہیں مگر کسی اور جگہ جاناپڑے تو وہی حرکت ۔
یونیورسٹی میں کوئی فنکشن ہوتو ہم اہتمام سے ایمپلائمنٹ کارڈ ضرور قمیض پر آویزاں کر تے ہیں بصورت دیگر کھانے وغیرہ کے پنڈال میں چوکیدار اجنبی ہو تو دروازے پر ہی روک لیتا ہے
’’سوہنیو کدھر ؟‘‘
’’ذرا سائیڈ پر ہو جاؤ، پہلے ڈاکٹر صاحب کو گزرنے دو؟‘‘
جھنجھلا کرہم پھٹ پڑتے ہیں ’’ہم بھی کوئی حکیم نہیں ڈاکٹر ہی ہیں‘‘۔
’’ اچھا ذرا صبر کرو۔ابھی ذرا پروفیسر چلے جائیں تو پھر گزارتا ہوں‘‘۔ اسی دوران کوئی جاننے والا آجاتا اور ہمارا تعارف کروادیتا تو پھرچوکیدار ایڑیاں جوڑ کر سیلوٹ مارتا۔
ایک طالب علم کا ایم ایس سی کا امتحان تھا جس کے لیے اس طالب علم کی سپر وائزری کمیٹی بشمول ایک بیرونی ممتحن موجود تھے ۔دراصل بیرونی ممتحن ہی امتحان لیتے ہیں۔ یہ حضرات عموماً یونیورسٹی کے ریٹائرڈ پروفیسر یاکسی دوسرے ادارے کے سینئر افراد ہوتے ہیں۔ جب ہم کمرے میں داخل ہوئے توایک بزرگ پروفیسرڈاکٹر اختر ( جو کہ 10سال قبل یونیورسٹی سے ریٹائرڈ ہو چکے تھے) تھیسس ہاتھ میں لئے بیٹھے تھے ۔طالب علم سامنے گھبرایا بیٹھا تھا جب کہ سپر وائزر صاحب فون پر مشغول تھے انہوں نے فون کرتے ہوئے ہم سے مصافحہ کیا اور بیٹھنے کا اشارہ کیا جبکہ طالب علم نے کھڑے ہو کر اسلام وعلیکم سر کہا تو ڈاکٹر اختر صاحب نے قریب کے چشمے کے اوپر سے ہمیں قدرے مشکوک انداز میں دیکھا۔ ان کے انداز یہ تھا کہ جو کام ہے کریں اور جائیں ادھر امتحان ہے۔ جب ہم انہیں سلام کرکے تسلی سے بیٹھ گئے تو اونہوں نے سپر وائز ر کو اشارے سے ہمارے بارے میں پوچھا۔ سپر وائزر نے کہا کہ یہ ڈاکٹرشہزاد ہیں اور سپر وائزر ی کمیٹی کے رکن ہیں انہی کا انتظار تھا اب آپ امتحا ن شروع کریں
ڈاکٹر اختر صاحب نے مسکرا کر کہا
’’ماشاء اللہ جلدی PhDکرلی کب لیکچرر ہوئے؟‘‘
ہم نے عرض کی کہ جناب عرصہ ہوگیا اب تو کچھ اگلے درجہ میں ہوں۔
’’ماشاء اللہ تو بڑی جلدی اسٹنٹ پروفیسر ہوگئے ۔گڈ ویری گڈ‘‘
’’جی وہ بھی پرانی بات ہے۔ اُس سے ذرا آگے
ڈاکٹر اختر نے عینک اتاردی اور حیرت سے گویا ہوئے
’’یعنی آپ ایسوسی ایٹ پروفیسر بھی ہوگئے سبحان اللہ‘‘
طالب علم بولا۔’’ ڈاکٹر صاحب تو پروفیسر ہیں اور ڈیپارٹمنٹ کے چیئر مین بھی ہیں‘‘
ڈاکٹر اختر کے ہاتھ سے تھیسس گر گیا۔’’ کمال ہے اسقدر نوجوان چیئر مین ماشاء اللہ ۔ ماشاء اللہ بہت سمارٹ ہیں۔‘‘ بہت سے الفاظ کی طرح سمارٹ کو بھی غلط معنوں میں لیا جاتا ہے ۔بقول انور مسعود کے
انگریزی بھی عجب مصیبت ہے یارو
نہ آتی ہے نہ جاتی ہے
انگریزی میں سمارٹ کا مطلب چالاک ہے مگر یار لوگ اِس سے مراد دُبلے پتلے افراد کو لیتی ہے۔
یہ انسانی جبلت ہے کہ ہر کوئی نہ صرف چھوٹا لگنا چاہتا ہے اور اِس ظمن میں کچھ کوشش بھی کرتا ہے بلکہ اِس غلط فہمی میں بھی مبتلا ہوتا ہے کہ وہ اپنے ہم عمر افراد سے کم عمر لگتا ہے۔ یہ خوش فہمی ہمیں بھی ہے مگر یہ کیا کہ آپ کا کوئی رعب ہی نہیں۔ 2007میں ہم پروفیسر ہوگئے تو پھر اکثر و بیشتر ہی یہ ڈارمہ ہوتا باہرجب بھی کانفرنس میں جانا ہوتا ہے تو زیادہ پروفیسر حضرات ہی وہاں ہوتے ہیں۔ گورے ویسے بھی 40کے بعد صحتمند مگر حلیئے سے بوڑھے لگنے لگتے ہیں۔ یہ صرف برصغیر ( پاکستان ، انڈیا ، سری لنکا ، بنگلہ دیش) کے مرد حضرات میں ہی رواج ہے کہ بالوں کو خضاب لگایا جاتا ہے۔ گورا کبھی خضاب نہیں لگاتا صرف گوریاں ہی لگاتی ہیں بلکہ 40سال کے بعد وہاں جن مرد حضرات کے بال سفید ہونا نہیں شروع ہوتے وہ سفید رنگ لگا کر اپنی قلمیں سفید کرتے ہیں اور گوریاں پھر کہتی ہیں
’’واؤو۔ ہاؤ گریس فل ‘‘
مگر ایشین 80سال کے بزرگ بھی فل کالے بال۔
اب کانفرنس میں کافی بریک میں کھڑے ہیں تو کئی دفعہ یہ سوال ہو جاتا ہے۔’’ آپ کس پروفیسر کے ساتھ کام کر رہے ہیں اور کیا یہاں پیش کریں گے‘‘ ہم گویا ہوتے کہ جناب ہم خود ہی پروفیسر ہیں
’’ہائیں اچھا اچھا‘‘
مصر میں تو مجمع اکٹھا ہوگیا جب ہمارایہ تعارف ہوا کہ ہم ہی پاکستان کے مشہور سائنسی جرنل کے مدیر ہیں۔میزبان ڈاکٹر منصور نے تو مائیک پر کہ دیا
’’ یہ دیکھو یہ ہے وہ شہزاد بسراء، جسے ہم تو کوئی بوڑھا پروفیسر سمجھتے تھے‘‘
پچھلے ہفتے ایک لطیفہ ہوگیا ہم واک کے بعد ڈیپارٹمنٹ کسی کام گئے ۔ٹریک سوٹ میں تھے اور پسینے سے شرابور،دروازہ کھول ہی رہے تھے کہ ایک کوئی 30,35سال کا جوان پینٹ شرٹ ٹائی میں ملبوس ، بال کافی کم، اچانک نمودار ہوا اور بولا
’’آپ ادھر لیکچرار ہیں؟۔ میں نے کچھ فارم تصدیق کروانیہیں‘‘۔
ہم مسکرا کر بولے۔’’ آفس کھولتا ہوں اگر اسٹیمپ مل گئی تو تصدیق بھی ہو جائے گی‘‘
ہم نے اپنے آفس کا تالا کھولنا شروع کیا تو نوجوان کچھ پریشان نظر آیا ہم پروفیسر کا آفس کیوں کھول رہیں ہیں ۔وہ ساتھ ساتھ بول رہا تھا کہ اس نے MBAکیا ہوا ہے اور ایک کالج میں پڑھا بھی رہا ہے ۔
’’کیا ہم ادھر ہی بیٹھیں گے؟‘‘۔ اس نے جھجکتے ہوئے کہا ۔اس کا غالباً مقصد یہ تھا کہ پروفیسر کے آفس کی چابیاں تیرے پاس کیسے آئیں ، پھر اس نے غالباََ سوچا ہو گا کہ عموماً جونئیر ٹیچرز کے پاس شام کو کام وغیرہ کے سلسلے میں آفس اور لیبارٹری کی چابیاں ہوتی ہیں۔ہم سیدھے اپنی کرسی پر جابیٹھے اور اسے بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ وہ حیرت زردہ تھا کہ ٹھیک ہے چابیاں ہیں مگر پروفیسر کی کرسی پر تو نہ بیٹھو۔ ہم نے اطمینان سے دراز سے اسٹیمپ نکال کر سامنے رکھی اور فوٹوسٹیٹ کاپیاں تصدیق کرنے لگے ۔وہ ابھی تک جھجھک رہا تھا۔ ہم نے اس کی کیفیت بھانپ لی اور اسٹیمپ اسے تھما دی کہ لگاتے جاؤ
بندہ سیانا تھا پہلے پریشان ہوا کہ اب یہ بندہ اسٹیمپ بھی پروفیسر کی لگارہا ہے پھر اسے کچھ شک گزرا تو تذبذب سے پوچھنے لگا ۔’’ آپ ڈاکٹر شہزاد ؟‘‘
’’جی خاکسار کو ہی ڈاکٹر شہزاد بسرا کہتے ہیں‘‘
اسے گویا کرنٹ لگا اور کہنے لگا ۔’’سر آپ تو بالکل پروفیسر نہیں لگتے‘‘
’’اچھا تو کیا ہم چپڑاسی لگتے ہیں‘‘۔ہم نے اب لطف لیتے ہوئے کہا تو نوجوان جھینپ کر بولا
’’نہیں میرا مطلب ہے آپ ابھی پروفیسر نہیں لگتے ، کافی ینگ لگتے ہیں‘‘۔
صاحبو ایک تو جلدی پروفیسر ہوگئے پھر اوپر سے جسامت بھی ایسی، لباس بھی زیادہ فارمل نہیں ، پھر یوگا اور واک جوگنگ کے دھنی۔ بال بھی قدرے پورے۔ اکثر گھر میں جب واک کے لئے ٹریک سوٹ میں ہوں تو امی پیچھے سے آواز دیں گی۔’’ شاہ زیب ذرا پانی تو دینا‘‘
ہم بھاگ کر فوراً پانی پکڑا ئیں گے ۔’’امی آپ عینک پہن کر رکھا کریں ناں‘‘
امی ہنس کر بولیں گی ۔’’میں صدقے جاواں۔یہ تم تھے۔ باپ بیٹا بالکل ایک جیسے ہی لگتے ہو‘‘
’’محترم اگر آپ برا نہ منائیں تو تھوڑا پرے سرک جائیں‘‘
ہم نے غصہ دبا کر بڑے مؤد ب انداز میں بس ساتھ والی نشست پہ بیٹھے وسیع و عریض تن و توش کے حامل صاحب سے کہا۔ آپ نے تھوڑا تبسم فرمایا اور بیٹھے بیٹھے ایک ٹھمکا سا لگایا، جس سے آپ کی تین منزلہ توند میں ایک بھونچال سا آگیا۔ بس تو جو ڈگمگائی سو ڈگمگائی ہم جو پہلے ہی پون سیٹ پر بمشکل بیٹھے ہوئے تھے اور باہر کی طرف لٹک گئے، نصف سیٹ پر اور نصف نیچے ۔آپ نے یہ حرکت غالباً ہماری درخواست کے جواب سے اپنی تیءں ہمارے لئے کچھ جگہ بنا نے کی کوشش کی، جس کا یقیناان کو فائدہ ہوا ہوگا ہم مزید لٹک گئے۔ اپنی کشادہ بتیسی کی نمائش کرتے ہوئے گویا ہوئے
’’گذارہ ہوگیا یا کچھ مزید جگہ بناؤں؟‘‘
ہم فوراً بولے۔’’نہیں نہیں اتنا ہی کافی ہے‘‘
بلکہ جھوٹی مسکراہٹ کا بھی بھر پور مظاہرہ کیا کہ اگر حضور نے ہمارے لئے مزید جگہ بنانے کیلئے ایک اور کوشش کی تو ہم سیٹ سے مکمل ہاتھ دھوبیٹھیں گے۔اب لاہورتک کم از کم دو گھنٹے اس پوزیشن میں بیٹھنا بھی ممکن نہ تھا۔ صورت حال یہ تھی کہ دو افراد کیلئے مخصوص سیٹ میں ہمارے حصے میں اس کا دسواں حصہ ہی آیا ہوگا۔ ہم لاکھ سمارٹ سلم سہی پھر بھی کچھ نہ کچھ تو جگہ گھیرتے ہی ہیں۔ ایک تو ہم اپنے ایک کُشن پر ہی اکڑوں بیٹھے تھے اوپر سے حضرت کا بازو ہمیں ہر سانس کے مدو جزر کے ساتھ مزید باہر کو دھکیل رہا تھا۔ ہوسٹس ڈرنک دینے آئی تو اس کو مسکین شکل بناتے ہوئے درخواست کی
’’آپ کے پاس کوئی اسٹول وغیرہ ہے؟‘‘
’’اسے کیا کریں گے ؟‘‘ وہ معصوم حیرت سے بولی
’’یہاں رکھیں گے تاکہ بیلنس ہوسکے‘‘۔ اپنے ہوا میں معلق حصے کی طرف اشارہ کرکے بولے
ہوسٹس کھلکھلا کر ہنسی اور حضور کو متوجہ کرتے ہوئے بولی ۔’’آپ نے تو انہیں نیچے گرایا ہو ا ہے‘‘۔
حضور نے جھینپ کر ایک بار پھر ٹھمکا لگایا تو ہوسٹس نے ہمیں نیچے سے اُٹھایا اور ہنسی روکتے ہوئے کہا ۔’’بس کے آخری حصے میں ایک سیٹ خالی ہے آپ وہاں بیٹھ جائیں۔ویسے آپ ہیں بہت سمارٹ‘‘
یہ ہمارے ساتھ کوئی پہلی دفعہ نہیں ہوا جب بھی کسی بھاری بھر کم ہم نشست کے ساتھ بس یا ٹرین میں بیٹھنا پڑے، یہی کچھ ہوتا ہے ۔اگر کھڑکی کی جانب جگہ ملے تو بھی کوئی خاص خیریت نہیں گزرتی۔ ایسے میں وہ تو بیٹھ جاتے ہیں اور آپ کھڑکی کے ساتھ لگ جاتے ہیں۔پھر بس کے ہر جھٹکے ، سپیڈ بریکر اور موڑ پر آپ مزید دب جاتے ہیں۔ سو نہ تو آپ کھڑکی کی طرف بیٹھ کر سکون پاتے ہیں اور نہ باہر کی طرف ۔ اگر ایسے ہم نشین کو زکام یا کھانسی کا عارضہ لاحق ہوتو ہر کھانسی یا چھینک پرایک مزید جھٹکا۔
دوران سفر اگر بس یاٹرین میں کھڑا ہونا پڑے تو موٹے افراد تو ہر حالت میں اپنی جگہبنا لیتے ہیں مگر دبلے حضرات بیچارے کونے کھدروں میں لگے ہوتے ہیں ۔موٹے افراد کو بس میں کھڑا ہونا بھی پڑے تو وہ قریب کی بیٹھی سواری کے اسقدر اوپر سوار ہوجاتے ہیں کہ اگر بیٹھی سواری دبلی پتلی ہے تو اسے آخر موٹے افراد کے لئے سیٹ کی قربانی ہی دینا پڑتی ہے۔ایک اُن کے دھکوں سے بچنے کے لیے اور دوسرے اُن کی مہک سے بچنے کے لیے۔ زیادہ موٹے افراد کی توند میں اتنی تہیں ہوتی ہیں کہ اُن کی صفائی ہی نہیں ہو پاتی اور پسینہ بھی انہیں زیادہ آتا ہے۔
موٹے لوگوں کا ایک رعب دبدبا ہوتا ہے اور ہر جگہ لوگ ان کو معزز خیال کرتے ہیں اگر انہوں نے قدرے بہتر لباس پہنا ہو جبکہ دبلے پتلے افراد کو نظر انداز کردیا جاتا ہے۔خود ہمیں کئی مرتبہ تجربہ ہوا ہے کہ کسی تقریب وغیرہ میں جائیں تو چوکیدار بھاری بھر کم افراد کو سلوٹ مار کر راستہ بنا کر دیتے ہیں جبکہ میرے جیسے کو کہیں گے کہ
’’یار ایک منٹ رُک جا، چوہدری صاحب کو تو گزرنے دے‘‘۔
دبلے پتلے افراد کا احترام صرف جاننے والے ہی کرتے ہیں مگراجنبی انہیں معمولی سمجھ کر نظر انداز ہی کردیتے ہیں۔ جب سے ملک میں دہشت گردی کی وجہ سے سیکورٹی سسٹم بڑھا ہے دبلے افراد کی مشکلات میں خاطر خواہ اضافہ ہو گیا ہے۔ سیکورٹی گارڈ صرف دو قسم کے افراد پر نظر رکھتے ہیں ایک باریش اور دوسرے دبلے پتلے افراد۔ اگر کوئی دبلا شخص باریش بھی ہو تو جامعہ تلاشی ضروری ہوجاتی ہے۔ہمارے چھوٹے بھائی انجینئر سجاد ( حال مقیم امریکہ ) نے صرف اسلئے داڑھی منڈا دی تھی کہ ہر ناکہ پر پولیس اسے بھی باریش افراد کے ساتھ الگ تلاشی کیلئے کھڑا کر دیتی تھی۔ سیکورٹی گارڈ وں کو بہت شک ہوتا ہے کہ یہ جو دبلے سے لوگ ہیں یہی کچھ گڑ بڑکر کے بھاگیں گے جبکہ موٹا بندہ جتنا زیادہ موٹا ہوگا سیکورٹی گارڈوں کیلئے اتنا ہی شریف اور بے ضرر ہوگا۔ وہ سیلوٹ مارکے انہیں جلدی سے گزرنے کا اشارہ کردیتے ہیں حالانکہ ان کے لئے جلدی شجر ممنوعہ ہے ۔اپنی ہی یونیورسٹی میں آتے جاتے کئی دفعہ جب سیکورٹی عملہ نیا ہوتو وہ ہمیں بھی روک کر استفسار کرتے ہیں کدھر جانا ہے، کس کو ملنا ہے؟
ایسے میں ہم اپنے تاثرات کو قدرے با رُعب بناکر اور تھوڑی موٹی آواز میں اپنا تعارف کرواتے ہیں کہ ہم بھی ادھر پروفیسر لگے ہوئے ہیں ۔
سیکورٹی گارڈمشکوک نظروں سے ہمارا جائزہ لیکر پھر پوچھے گا کہ کس بنگلے یا ڈیپارٹمنٹ جانا ہے ۔تفصیل بتا و یا کارڈ دکھاو تب کہیں جان چھوٹتی ہے۔موٹا بندہ ساتھ ہو تو پھر باقی افراد کو بھی سیکورٹی والے نہیں دیکھتے کہ یہ نہیں بھاگنے والے۔شکر ہے کہ اب گاڑیوں پر اداروں کے اسٹیکر لگ گئے ہیں اور سیکورٹی عملہ ہماری دبلی پتلی سمارٹ جسامت کی بجائے صرف اسٹیکر دیکھ کر سیلوٹ مار کے راستہ دے دیتے ہیں مگر کسی اور جگہ جاناپڑے تو وہی حرکت ۔
یونیورسٹی میں کوئی فنکشن ہوتو ہم اہتمام سے ایمپلائمنٹ کارڈ ضرور قمیض پر آویزاں کر تے ہیں بصورت دیگر کھانے وغیرہ کے پنڈال میں چوکیدار اجنبی ہو تو دروازے پر ہی روک لیتا ہے
’’سوہنیو کدھر ؟‘‘
’’ذرا سائیڈ پر ہو جاؤ، پہلے ڈاکٹر صاحب کو گزرنے دو؟‘‘
جھنجھلا کرہم پھٹ پڑتے ہیں ’’ہم بھی کوئی حکیم نہیں ڈاکٹر ہی ہیں‘‘۔
’’ اچھا ذرا صبر کرو۔ابھی ذرا پروفیسر چلے جائیں تو پھر گزارتا ہوں‘‘۔ اسی دوران کوئی جاننے والا آجاتا اور ہمارا تعارف کروادیتا تو پھرچوکیدار ایڑیاں جوڑ کر سیلوٹ مارتا۔
ایک طالب علم کا ایم ایس سی کا امتحان تھا جس کے لیے اس طالب علم کی سپر وائزری کمیٹی بشمول ایک بیرونی ممتحن موجود تھے ۔دراصل بیرونی ممتحن ہی امتحان لیتے ہیں۔ یہ حضرات عموماً یونیورسٹی کے ریٹائرڈ پروفیسر یاکسی دوسرے ادارے کے سینئر افراد ہوتے ہیں۔ جب ہم کمرے میں داخل ہوئے توایک بزرگ پروفیسرڈاکٹر اختر ( جو کہ 10سال قبل یونیورسٹی سے ریٹائرڈ ہو چکے تھے) تھیسس ہاتھ میں لئے بیٹھے تھے ۔طالب علم سامنے گھبرایا بیٹھا تھا جب کہ سپر وائزر صاحب فون پر مشغول تھے انہوں نے فون کرتے ہوئے ہم سے مصافحہ کیا اور بیٹھنے کا اشارہ کیا جبکہ طالب علم نے کھڑے ہو کر اسلام وعلیکم سر کہا تو ڈاکٹر اختر صاحب نے قریب کے چشمے کے اوپر سے ہمیں قدرے مشکوک انداز میں دیکھا۔ ان کے انداز یہ تھا کہ جو کام ہے کریں اور جائیں ادھر امتحان ہے۔ جب ہم انہیں سلام کرکے تسلی سے بیٹھ گئے تو اونہوں نے سپر وائز ر کو اشارے سے ہمارے بارے میں پوچھا۔ سپر وائزر نے کہا کہ یہ ڈاکٹرشہزاد ہیں اور سپر وائزر ی کمیٹی کے رکن ہیں انہی کا انتظار تھا اب آپ امتحا ن شروع کریں
ڈاکٹر اختر صاحب نے مسکرا کر کہا
’’ماشاء اللہ جلدی PhDکرلی کب لیکچرر ہوئے؟‘‘
ہم نے عرض کی کہ جناب عرصہ ہوگیا اب تو کچھ اگلے درجہ میں ہوں۔
’’ماشاء اللہ تو بڑی جلدی اسٹنٹ پروفیسر ہوگئے ۔گڈ ویری گڈ‘‘
’’جی وہ بھی پرانی بات ہے۔ اُس سے ذرا آگے
ڈاکٹر اختر نے عینک اتاردی اور حیرت سے گویا ہوئے
’’یعنی آپ ایسوسی ایٹ پروفیسر بھی ہوگئے سبحان اللہ‘‘
طالب علم بولا۔’’ ڈاکٹر صاحب تو پروفیسر ہیں اور ڈیپارٹمنٹ کے چیئر مین بھی ہیں‘‘
ڈاکٹر اختر کے ہاتھ سے تھیسس گر گیا۔’’ کمال ہے اسقدر نوجوان چیئر مین ماشاء اللہ ۔ ماشاء اللہ بہت سمارٹ ہیں۔‘‘ بہت سے الفاظ کی طرح سمارٹ کو بھی غلط معنوں میں لیا جاتا ہے ۔بقول انور مسعود کے
انگریزی بھی عجب مصیبت ہے یارو
نہ آتی ہے نہ جاتی ہے
انگریزی میں سمارٹ کا مطلب چالاک ہے مگر یار لوگ اِس سے مراد دُبلے پتلے افراد کو لیتی ہے۔
یہ انسانی جبلت ہے کہ ہر کوئی نہ صرف چھوٹا لگنا چاہتا ہے اور اِس ظمن میں کچھ کوشش بھی کرتا ہے بلکہ اِس غلط فہمی میں بھی مبتلا ہوتا ہے کہ وہ اپنے ہم عمر افراد سے کم عمر لگتا ہے۔ یہ خوش فہمی ہمیں بھی ہے مگر یہ کیا کہ آپ کا کوئی رعب ہی نہیں۔ 2007میں ہم پروفیسر ہوگئے تو پھر اکثر و بیشتر ہی یہ ڈارمہ ہوتا باہرجب بھی کانفرنس میں جانا ہوتا ہے تو زیادہ پروفیسر حضرات ہی وہاں ہوتے ہیں۔ گورے ویسے بھی 40کے بعد صحتمند مگر حلیئے سے بوڑھے لگنے لگتے ہیں۔ یہ صرف برصغیر ( پاکستان ، انڈیا ، سری لنکا ، بنگلہ دیش) کے مرد حضرات میں ہی رواج ہے کہ بالوں کو خضاب لگایا جاتا ہے۔ گورا کبھی خضاب نہیں لگاتا صرف گوریاں ہی لگاتی ہیں بلکہ 40سال کے بعد وہاں جن مرد حضرات کے بال سفید ہونا نہیں شروع ہوتے وہ سفید رنگ لگا کر اپنی قلمیں سفید کرتے ہیں اور گوریاں پھر کہتی ہیں
’’واؤو۔ ہاؤ گریس فل ‘‘
مگر ایشین 80سال کے بزرگ بھی فل کالے بال۔
اب کانفرنس میں کافی بریک میں کھڑے ہیں تو کئی دفعہ یہ سوال ہو جاتا ہے۔’’ آپ کس پروفیسر کے ساتھ کام کر رہے ہیں اور کیا یہاں پیش کریں گے‘‘ ہم گویا ہوتے کہ جناب ہم خود ہی پروفیسر ہیں
’’ہائیں اچھا اچھا‘‘
مصر میں تو مجمع اکٹھا ہوگیا جب ہمارایہ تعارف ہوا کہ ہم ہی پاکستان کے مشہور سائنسی جرنل کے مدیر ہیں۔میزبان ڈاکٹر منصور نے تو مائیک پر کہ دیا
’’ یہ دیکھو یہ ہے وہ شہزاد بسراء، جسے ہم تو کوئی بوڑھا پروفیسر سمجھتے تھے‘‘
پچھلے ہفتے ایک لطیفہ ہوگیا ہم واک کے بعد ڈیپارٹمنٹ کسی کام گئے ۔ٹریک سوٹ میں تھے اور پسینے سے شرابور،دروازہ کھول ہی رہے تھے کہ ایک کوئی 30,35سال کا جوان پینٹ شرٹ ٹائی میں ملبوس ، بال کافی کم، اچانک نمودار ہوا اور بولا
’’آپ ادھر لیکچرار ہیں؟۔ میں نے کچھ فارم تصدیق کروانیہیں‘‘۔
ہم مسکرا کر بولے۔’’ آفس کھولتا ہوں اگر اسٹیمپ مل گئی تو تصدیق بھی ہو جائے گی‘‘
ہم نے اپنے آفس کا تالا کھولنا شروع کیا تو نوجوان کچھ پریشان نظر آیا ہم پروفیسر کا آفس کیوں کھول رہیں ہیں ۔وہ ساتھ ساتھ بول رہا تھا کہ اس نے MBAکیا ہوا ہے اور ایک کالج میں پڑھا بھی رہا ہے ۔
’’کیا ہم ادھر ہی بیٹھیں گے؟‘‘۔ اس نے جھجکتے ہوئے کہا ۔اس کا غالباً مقصد یہ تھا کہ پروفیسر کے آفس کی چابیاں تیرے پاس کیسے آئیں ، پھر اس نے غالباََ سوچا ہو گا کہ عموماً جونئیر ٹیچرز کے پاس شام کو کام وغیرہ کے سلسلے میں آفس اور لیبارٹری کی چابیاں ہوتی ہیں۔ہم سیدھے اپنی کرسی پر جابیٹھے اور اسے بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ وہ حیرت زردہ تھا کہ ٹھیک ہے چابیاں ہیں مگر پروفیسر کی کرسی پر تو نہ بیٹھو۔ ہم نے اطمینان سے دراز سے اسٹیمپ نکال کر سامنے رکھی اور فوٹوسٹیٹ کاپیاں تصدیق کرنے لگے ۔وہ ابھی تک جھجھک رہا تھا۔ ہم نے اس کی کیفیت بھانپ لی اور اسٹیمپ اسے تھما دی کہ لگاتے جاؤ
بندہ سیانا تھا پہلے پریشان ہوا کہ اب یہ بندہ اسٹیمپ بھی پروفیسر کی لگارہا ہے پھر اسے کچھ شک گزرا تو تذبذب سے پوچھنے لگا ۔’’ آپ ڈاکٹر شہزاد ؟‘‘
’’جی خاکسار کو ہی ڈاکٹر شہزاد بسرا کہتے ہیں‘‘
اسے گویا کرنٹ لگا اور کہنے لگا ۔’’سر آپ تو بالکل پروفیسر نہیں لگتے‘‘
’’اچھا تو کیا ہم چپڑاسی لگتے ہیں‘‘۔ہم نے اب لطف لیتے ہوئے کہا تو نوجوان جھینپ کر بولا
’’نہیں میرا مطلب ہے آپ ابھی پروفیسر نہیں لگتے ، کافی ینگ لگتے ہیں‘‘۔
صاحبو ایک تو جلدی پروفیسر ہوگئے پھر اوپر سے جسامت بھی ایسی، لباس بھی زیادہ فارمل نہیں ، پھر یوگا اور واک جوگنگ کے دھنی۔ بال بھی قدرے پورے۔ اکثر گھر میں جب واک کے لئے ٹریک سوٹ میں ہوں تو امی پیچھے سے آواز دیں گی۔’’ شاہ زیب ذرا پانی تو دینا‘‘
ہم بھاگ کر فوراً پانی پکڑا ئیں گے ۔’’امی آپ عینک پہن کر رکھا کریں ناں‘‘
امی ہنس کر بولیں گی ۔’’میں صدقے جاواں۔یہ تم تھے۔ باپ بیٹا بالکل ایک جیسے ہی لگتے ہو‘‘