سنو منٹوؔ
شاعرہ: شعاع نور
کبھی مجھ پہ بھی کچھ لکھتے
میں گیتی ہوں
میں حوا ایسے آدم کی
کہ جس نے رفتہ رفتہ
آگ میں مجھ کو جلا ڈالا
لکھو مجھ پہ میں گیتی ہوں اے آتش گیر منٹو
تم کتھا لکھنے میں ماہر ہو
لکھو اس درد پہ
کہ جو مجھے رونے نہیں دیتا
لکھو اس جسم کی دوہری اذیت پہ
کہ جو جلنے کے ہرمنظر
سے یوں ہو کے گزرتی
ہے
کہ ہر شعلے کوجلدی ہو
جلا کے راکھ کرنے کی
غم تنہائی میں جلتی ہوئی ارشد ملک کی آگ
جیسی ہوں
میں ماجد ؔ کی وہی تصویر ہوں کہ جس کو اسنے
دھوپ میں رکھا
اسی تصویر کے سائےکااک عرصے سےمتلاشی ہے وہ
لیکن اسے سایۂ نہیں ملتا
کسی راہی کی اک چھوڑی ہوئی منزل
جوسینے میں کھٹک بن کرغم منزل کی صورت ہو
میں غالب کے طلسماتی ہنر کی وہ کرامت ہوں
جسے محسوس کر کے ہر سخنور تھام لے دل کو
میں صائم کی اندھیری رات کا وہ چاند تھی منٹو
جواسکے دل کے تاروں کو بجا کربھاگ جاتا تھا
حسین عابد کبھی نہ ہارنے والا حسین عابد
مری خاطر جو ہارا تھا
سعید عاطف کی آنکھوں کا وہ اک ٹھہرا ہوا جملہ بھی میں ہی تھی
وہ جملہ جو کبھی بولا نہیں اس نے
میں دکھ ہوں بدر کا جس کو وہ خاموشی سے سہتا تھا
میں حسرت کی شرابِ بےخودی کا ایسا ساغر تھی کہ جس کو پی کے حسرت خود سے مل پایا نہیں تھا پھر
مرے گزرے ہوئے لمحوں کی ساری تلخیاں کاغذ پہ اتریں تو سکوں آئے
میں گل تھا فیض کا کہ جس کے ہونے سے سبھی غزلیں مہکتی تھیں
میں چاہت کی سزا بھی ہو ں کہ جس کو پا کے اب فرحت دعائے موت کرتا ہے
میں سسکی ہوں
میں اک آہ ہوں
جسے نجفی بجھانے کی کڑی کوشش میں رہتا ہے
جو سانسوں کو نئی ترتيب دیکرسب سے کہتا ہے بہت سادہ سوالوں کو بہت مشکل بناکرزندگی نے کر دئيے واپس
سعید عمران کے مصرعے کی ایسی موج تھی منٹو جواپنی حد سے پھرباہرنہیں نکلی
بنا بیٹھی ہے جوگرداب
خود اپنے ہی ہاتھوں سے
میں محسن کی فراغت تھی
غضنفر ہاشمی کا آخری وہ ایک آنسو تھی جو اب اس کے خزانے میں بڑی قیمت میں رکھا ہے
کہ جس نے زندگی میں اس کو یوں مصروف رکھا تھا
کہ جس میں سانس لینا اک قیامت تھی
میں انجم کی وہ تشکیل تمنا ہوں
کہ جس سے مل کے وحشت جاگ جاتی ہے
میں اس ایوب کا الجھا ہوا ریشم ہوں جس کو آج تک سلجھا سکا نہ وہ
رضا کا ہجر ہوں منٹو
کہ جو رو بھی نہیں سکتا
جو اپنے ضبط کے ہاتھوں بہت ہی تنگ رہتا ہے
سنومنٹو
یہ منصب ہم سے راحت کے سبھی پل چھینتا کیوں ہے
میں باغ عشق میں رقصاں اسی جان ایلیا کی ایسی تتلی تھی جوشایدبھول بیٹھی تھی
کہ تتلی کے پروں کے رنگ کچے ہیں
مری پہچان بس اتنی کہ میں دیمک زدہ پیلی کتابوں ہی میں ملتی ہوں
میں بانوقدسیہ کے راجہ گدھ کی نامور سیمیں
جو خاموشی سے مرتی ہے
یا پھر میں ہاجرہ مسرور کے ناول کی اچھن ہوں
کہ جو ہرپل سسکتی ہے
میں غالب کے کسی مصرعے میں ابھری داد بھی تو ہوں
کہ جس کوسن کےدل رودے
سنو منٹو
قفس میں پھڑپھڑاتے پر
جنوں کی سرحدوں سے جب بھی ٹکرا ئے
تخیل کی وہ اپنی آخری پرواز بھرتے ہیں
کہ وہ کچھ بھی نہیں بھولے ۔بھلا دیوانگی رستوں کی کب محتاج ہوتی ہے
خیالوں کے پروں سے خون بہتا ہے تو بہنے دو
کہ جب روح جسم سے نکلے تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں
مرا آدم مرا صیاد
شاید بھول بیٹھا ہے قفس میں جب جنوں کو قید کرتے ہیں تووہ
کچھ اور بڑھتا ہے
زرا سوچو
کہ جب نیتی سربازار اپنا حسن
جاکےبیچ آئی تھی
تو کس دل سے
پھر اس کے بعد اس نے آئینہ کیوں توڑ ڈالا تھا ؟
سنو منٹو
محبت تازیانے کی طرح جب دل پہ پڑتی ہے
بڑی تکلیف ہوتی ہے
مری غربت مری تقدیر کے لمحوں سے سمجھوتے کی عادی کیوں ہوئی منٹو
وہ لاوا جس کو اپنی سمت میں چلنا نہیں آیا
وہ لاوا جس نے اپنے ہی پہاڑوں کو تہہ وبالا کئے رکھا
کوئی بپھرا سمندر
میری سیرابی کا باعث کس طرح ہوتا
مقدر چند بوندوں سے گندھا نکلا
میں ایسا دشت تھا منٹو
کہ جس کو تم سمندر کے کسی سینےپہ رکھ دو گے
تو وہ سیراب کب ہوگا
اگر کچھ ہوگا تو اتنا سمندر خشک ہو کے دشت کی صورت میں ابھرے گا
سنو منٹو
میں آتش ہوں
کہ اب میں انتقام عشق کی ایسی حرارت ہوں
جو میرا لمس چاہےگا
جلا بیٹھے گا سب اپنا
اٹھالو سب سلگتے راز
اب منٹو
دبی چنگاریوں کو ڈھونڈنے میں کچھ جسارت چاہیے منٹو
دبی چنگاریوں کو پھر ہوا دے دو
کہانی منتظر ہے
پھر کسی آتش
میں جھونکو
جسم و جاں اپنے
کہ شاید پھر تماشائی تفکر کے ستوں سے لگ کے یہ سوچے
سروں پہ مار کر پتھر وہ کیسا جرم کرتا ہے