سنگل وومن کا اردو ترجمہ مفرد عورت اچھا لگا۔ اور اس کی وضاحت بھی اچھی کی گئی ہے۔ رہی بات معاشرے کو قبولیت اور عدم قبولیت کی بات تو یہ بھی حقیقت ہے کہ مغرب کے لوگ ہم سے پہلے ان اصولوں کو اپنا لیتے ہیں جسے قرآن و احادیث میں بیان کیا گیا ہے لیکن پتا نہیں ہماری دعویداری کے باوجود ہم اِن اصولوں کو اپنانے سے کیوں کتراتے ہیں؟ شاید حقدار کو حق نہ دینا ہمارے یہاں کی اصل وجہ ہوسکتی ہے۔ اور جہاں تک میں نے معاشرے میں محسوس کیا ہے اور اندازہ لگایا ہے کہ مساوات کی وضاحت اور معنی و مطلب روپیوں اور ڈالر کی قدر و قیمت کی طرح کر لیا جس کی وجہ سے اس مسئلہ کا حل اب تک نہیں نکل پایا ہے۔ ہمارے معاشرے میں یہ رویہ اب عام ہوتا جارہا ہے کہ مالی طور سے کمزور افراد کو خاندان کو مختلف طریقے سے زیر کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یہاں تک کہ اگر کسی عہدہ پر لائق فرد یا خاتون فائز ہے اور اگر خدا نخواستہ اس نے اپنے کسی ساتھی پر یا مالک پر یہ جتایا کہ وہ مالی طور پر پریشان ہے تو اسے بجائے اس کی اہلیت کے مطابق اجرت دینے کے اس کی مالی مجبوری سے اس کی اہلیت کا فائدہ اٹھایا جاتا ہے۔ اور جس طرح کے جملے دہرائے جاتے ہیں، وہ میں یہاں نہیں دہرا سکتا۔ رفاہ کے لئے کام کرنے والے اداروں کی تعداد اب لاکھوں میں پہنچ رہے ہیں۔ سینکروں کو میں جانتا ہوں اور مختلف حالات کے تحت دسیوں کو میں بھگت چکا ہوں۔ یہ ادارے صرف دولت جمع کرنے، اپنے ذات پر خرچ کرنے کے لئے قائم کئے گئے ہیں۔ یعنی یہ ایک بین الاقوامی با عزت مانگنے والے ہیں۔ قرآن احادیث کی باتیں خوب کرتے ہیں، اِن کے چہرے سے ندامت کے آثار بھی نہیں دِکھتے۔ یہ بین الاقوامی بیغیرت ہوتے ہیں۔ اگر کوئی معذور اور ضرورت مند شخص ان سے مدد مانگنے جائے تو تحقیق میں مہینوں لگائیں گے۔ جس میں ان کے حالات جاننا، ان سے گفتگو اور ویڈیوگرافی وغیرہ شامل ہیں۔ تب کہیں جا کر ان کی تھوڑی مالی امداد کریں گے۔ مالی امداد کیا کرنا ہے جی، وہ تو (ان کے نام پر) برسوں کمانے کا ذریعہ بن گئے۔ جس سے کہ ان کا ادارہ جاری و ساری ہے۔ اب اِن حالات میں ہمارہ معاشرہ کیوں کر سوچے گا؟ اور کیا سوچے گا؟ جو خود بھیک منگی کی کمائی سے اپنا پیٹ پالتا ہوں وہ دوسرے کے بارے میں کیا سوچے گا؟
فیروزہاشمی