سوا کروڑ روپے دے کر آپ بھی اپنا دماغ اس ڈبے میں رکھواسکتے ہیں، اس کا کیا فائدہ ہے؟ جان کر دنیا بھر کے امیر ترین لوگوں نے یہ کام کروانا شروع کردیا کیونکہ۔۔۔

سوا کروڑ روپے دے کر آپ بھی اپنا دماغ اس ڈبے میں رکھواسکتے ہیں، اس کا کیا فائدہ ہے؟ جان کر دنیا بھر کے امیر ترین لوگوں نے یہ کام کروانا شروع کردیا کیونکہ۔۔۔

 دنیا میں شاید ہی کوئی ایسا انسان ہو جسے ہمیشہ زندہ رہنے کی خواہش نہ ہو۔ اب اسی خواہش کے پیش نظر امیر کبیر لوگ کروڑوں روپیہ ایک ایسے کام پر خرچ کر رہے ہیں کہ سن کر آدمی کی سوچ جواب دے جائے۔ ڈیلی سٹار کے مطابق یہ لوگ مرنے کے بعد اپنا دماغ ہمیشہ کے لیے محفوظ کروا رہے ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ ایک وقت آئے گا جب سائنس اتنی ترقی کر جائے گی کہ سائنسدان مصنوعی انسانی جسم بنانے لگیں گے۔ تب ان کا دماغ کسی مصنوعی جسم میں لگا دیا جائے گا اور یہ دوبارہ زندہ ہو جائیں گے۔

رپورٹ کے مطابق دماغ محفوظ کرنے کا یہ کام امریکی ریاست ایریزونا کے شہر سکاٹس ڈیل میں واقع ’ایلکر لائف ایکسٹینشن فاؤنڈیشن‘ کر رہی ہے۔ وہ ان امراء سے صرف دماغ محفوظ کرانے کے عوض 80ہزار پاؤنڈ (تقریباً 1کروڑ ساڑھے 26لاکھ روپے)جبکہ پورا جسم محفوظ کرانے کے عوض 2لاکھ پاؤنڈ (تقریباً 3کروڑ ساڑھے 16لاکھ روپے) وصول کر رہی ہے۔یہ قیمت 200سال تک دماغ یا جسم محفوظ کرانے کی ہے۔ اس سے زیادہ عرصے تک محفوظ کرانے کے لیے زیادہ رقم ادا کرنی ہو گی۔ اب تک 1100لوگ فاؤنڈیشن کے پاس رجسٹریشن کروا چکے ہیں۔ ان میں ایسے لوگ شامل ہیں جو کسی جان لیوا بیماری میں مبتلا ہیں یا عمررسیدہ ہو چکے ہیں۔ تاہم بعد ایسے بھی ہیں جو عمر کی 50کی دہائی میں ہیں۔

رپورٹ کے مطابق اس فاؤنڈیشن کے سائنسدانوں کی 8رکنی ٹیم کی قیادت برطانوی سائنسدان ڈاکٹر میکس مور کر رہے ہیں، جو لوگوں کے دماغ محفوظ کرنے کا کام کرتے ہیں۔ جب ان کے کلائنٹس میں سے کوئی موت کے قریب پہنچتا ہے تو ٹیم اس کے پاس آ موجود ہوتی ہے اور 24گھنٹے الرٹ رہتی ہے۔ جونہی اس شخص کو طبی طور پر مردہ قرار دیا جاتا ہے یہ ٹیم اپنا کام شروع کر دیتی ہے۔ جو لوگ پورا جسم محفوظ کرواتے ہیں انہیں سٹیل کے بنے سلنڈروں میں الٹا رکھا جاتا ہے۔اب تک فاؤنڈیشن 149لوگوں کے دماغ اور جسم محفوظ کر چکی ہے۔ ان لوگوں میں امریکہ کے بیس بال کے معروف کھلاڑی ٹیڈ ویلیمز بھی شامل ہیں۔

ڈیوڈ نامی 60سالہ شخص نے بھی فاؤنڈیشن کی خدمات حاصل کر رکھی ہیں۔ اس کا کہنا ہے کہ ’’میں جانتا ہوں کہ لوگ مجھے احمق سمجھیں گے لیکن آخر اس کو آزمانے میں کیا برائی ہے۔ اس کا کوئی فائدہ نہ ہوا تو کچھ نقصان کا بھی تو خطرہ نہیں ہے۔ میرے بچے نہیں ہیں، میں نے شادی بھی نہیں کر رکھی اور اب اس عمر میں بچے ہونے کا امکان بھی نہیں۔ چنانچہ میرے پاس جو دولت ہے اگر اس کا کچھ حصہ اس کام پر خرچ کر دیا جائے تو اس میں کوئی قباحت نہیں ہے۔ صرف میرے قریبی رشتہ دار جانتے ہیں کہ میں نے فاؤنڈیشن کی رجسٹریشن حاصل کر رکھی ہے اور انہیں کوئی اعتراض نہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ تمہاری رقم ہے، تم جیسے چاہو خرچ کرو۔‘‘

اپنا تبصرہ لکھیں