کالم نگار ڈاکٹر عارف محمودکسانہ
سوشل میڈیا پر معلومات شیئر کرتے ہوئے احتیاط کریں
کالم نگار ڈاکٹر عارف محمودکسانہ
اسٹاک ہوم سویڈن
مشہور مزاحیہ اداکار مسٹر بین مسلمان ہو گئے۔سوشل میڈیا پہ گردش کرنے والی اس خبر نے چونکا دیا۔خبر کے ساتھ ہی مبارک سلامت کے پیغامات کے ساتھ خوشی کا اظہار کیا جا رہا تھا۔لیکن ساتھ ہی اکا دکا سنجیدہ حضرات نے اسے معتبر قرار نہ دیا۔اور تصدیق کرنے پر واقعی یہ خبر درست نہ نکلی۔سوشل میڈیا پر اس نوعیت کی خبریں اور معلومات پر ذہن اس طرف چلا گیا۔یہ درست ہے کہ سوشل میڈیا کی بدولت لوگوں میں باہمی رابطہ اور معلومات کا تبادلہ اور اہم معلومات کے بارے میں آگاہی رہتی ہے۔مگر ساتھ ہی بغیر تصدیق کے اہم اور حساس موضوعات پر معلومات شیئر کرنا نہ صرف دوسروں کو اہم معلومات بہم پہنچانے کا ذریعہ ہوتا ہے بلکہ جگ ہنسائی کا باعث بھی بنتا ہے۔مسٹر بین کے مسلمان بننے کی خبر آگے پھیلا کر اسلام کی خدمت کے بجائے اس کی توہین کی جا رہی ہے۔اسی نوعیت کی بیشتر خبریں گردش میں آتی رہتی ہیںجو ذمہ دار ذرائع سے نہیں آتیں۔کبھی یہ خبر کہ چاند پر جانے والے نیل آرم سٹرانگ نے قاہرہ میں اذان کی آواز سن کر یہ کہا کہ یہ آواز میں نے چاند پر بھی سنی تھی۔جس کی تردید میں بعد میں انہوں نے کہا کہ میں قاہرہ کبھی گیا ہی نہیں۔اور رہا چاند کا معاملہ تو وہاں تو خلاء ہے آواز کیسے سنائی دے گی۔کبھی یہ خبر فلاں کھلاڑی مسلمان ہو گیا ہے۔فلاں مشہور شخصیت نے اسلام قبول کر لیا ہے۔فلاں شاتم رسول جل کر مر گیا ہے۔ایسی جھوٹی خبریں پھیلانے والے سمجھتے ہیں کہ وہ اسلام کی خدمت کر رہے ہیں۔حالانکہ صورتحال اس کے بر عکس ہے۔کبھی یہ خبر آئے گی کہ خانہ کعبہ پر روشنی کا ہالہ موجود تھا۔کبی یہ خبر کہ مسجد کا مینار خود بخود زمین سے کھڑا ہو کر اپنی جگہ پر چلا گیا۔ایسی اطلاعات کی بھی تصدیق نہیں ہو سکی۔کچھ ایسے واقعات بھی دوسروں کے ساتھ شیئر کیے جاتے ہیںجو حادثاتی اور اتفاقی طور پر ہوتے ہیںاور انکا تعلق بھی دین سے نہیں ہوتا۔مثلاً روٹی پکاتے وقت کوئی متبرک نام ظاہر ہو گیا۔یا جانور پر کوئی اسم لکھا نظر آگیا۔یہ کوئی دلیل نہیں ہو سکتی اس قسم کے واقعات سب مذاہب والے پیش کر سکتے ہیں۔ہمیں اس بات کو یاد رکھنا چاہیے کہ رسول اللہ نے اپنی پوری زندگی میں اس قسم کے واقعات کو اپنی سچائی کا ثبوت پیش کرنے کے بجائے قرآن پیش کیا۔اور کہا کہ اس پر غور کرو اور اگر دل دماغ اس پر گواہی دیں تو قبول کرو۔مگر مافوق الفطرت واقعات یا اتفاقی حادثت کو انہوں نے تبلیغ دین کا ذریعہ نہیں بنایا۔یہاں تک کہ آپ کے صاحبزادے ابراہیم کی وفات کے دن چاند گرہن کو جب لوگوں نے اس غم کے ساتھ تشبیح دی تو آپ نے فرمایا کہ چاند گرہن کا اس واقعہ کے ساتھ کوئی تعلق نہیں وہ خدا کے نظام کے تحت ہے۔محبت رسول کے دعوے داروں کو اس ا سوہ کو سامنے رکھنا چاہیے کہ کچھ اس نوعیت کی تحریریں بھی گردش کرتی رہتی ہیں کہ فلاں دن فلاںوقت یہ وظیفہ کرو تو فلاں مقصد پورا ہو گا۔یا خوشخبری ملے گی۔یہ ذکر کرو تو یہ حاصل ہو گا پوری زندگی کے گناہ ختم ہو جائیں گے۔اور ساتھ ہی تاکید بھی ہوتی ہے کہ اسے لائق بھی کریں۔اور شیئر بھی کریں اور اگر شیئر نہ کیا تو نقصان بھی ہو گا۔جیسا کہ اس سے پہلے دور میں ہوتا تھا کہ فوٹو اسٹیٹ کروا کے آگے تقسیم کریں۔ایک ایسے دین کے حاملین جس کے بارے میں بات بار تاکید ہے کہ غور و فکر کرو ۔تدبر کرو سوچو اور عمل کرو ۔لیکن ایسے ذکر و اذکار کی طرف توجہ مبذول کرائی جاتی ہے جو قرآن و سنت سے بھی ثابت نہیں اور نہ ہی ضروری ہیں بلکہ وہ مسلمانوں کی بے عملی کا باعث بن رہے ہیں۔ جس کی وجہ سے دنیا میں ہم پستی کا شکار ہیں۔جبکہ دیگر غیر مسلم اقوام ترقی کی راہ پر گامزن ہیں۔مگر ہم ایسے ذکر میں مبتلاء ہیں جس کے بارے میں ابلیس کی زبانی علامہ اقبال نے کہا ہے کہ
مست رکھو ذکر و فکر میں صبح گاہی اسے
پختہ تر کر دو نظام خانقاہی میں اسے
ثواب کمانے کے ساتھ ساتھ بیماریوں کے علاج کے لیے بھی وظائف ،اذکار اور آیات پیش کی جاتی ہیں۔جو اسلام کی تعلیمات کے مطابق نہیں ہوتے۔لطف کی بات یہ ہے کہ جو ایسی چیزیں پیش کر رہے ہیں وہ جب خود بیمار ہوتے ہیںمیڈیکل علاج کراتے ہیں۔
سوشل میڈیا پر اکثر معلومات غلط شخصیات سے منسوب کر دی جاتی ہیں۔اکثر دانائوں کے اقوال حضرت علی سے منسوب ہوتے ہیں۔حالانکہ ان میں سے اکثر حضرت جعفر صادق اور دوسروں کی باتیں ہوتی ہیں۔اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے ۔فقہی نوعیت کی معلومات شیئر کرتے وقت قرآن کی آیات اور سورہ کا حوالہ ضرور دیناچاہیے۔کیونکہ اللہ تعالیٰ نے جو بی فرمایا ہے وہ قرآن میں موجود ہے۔اس کے علاوہ کسی کا بھی اللہ تعالیٰ سے براہ راست تعلق نہیں ہے۔
سب سے ذیادہ احتیاط رسول پاک کے اقوال اور احادیث اکو پیش کرتے وقت مد نظر رکھنی چاہیے۔جب بھی کسی حدیث کا حوالہ دینا ہو تو حدیث پوری تحریر کرنی چاہیے۔کس شخص نے روائیت کی ہے اور اس روائیت میں کون کون لوگ شریک ہیں۔اور پھر حدیث کی قسم بھی بیان کر دینی چاہیے۔کہ کیا حدیث صحٰح ہے قدسی مرفوع موقوف یا کس قسم کی ہے۔ضعیف احادیث ،موضوعات یا روایات پیش نہ کی جائیں۔محدث اکرام کی رائے میں ایسے موضوعات جس میں کسی قوم کی برائی،بڑائی معمولی نیکی پر جنت یا معمولی گناہ پر جہنم کی بشارت دی گئی ہو یا پھر شان نبوت اسوہء حسنہ اور قرآن کی تعلیمات کے منافی ،تاریخی حقائق اور عام مشاہدات کے منافی ہوں انہیں پیش نہ کیا جائے۔
مزید یہ کہ جو حکمت و اخلاق قوائدو طب اور آئندہ پیش آنے والی ایسی پیش گوئیاں جو مہینہ اور سال کے ساتھ واضع ہوں۔حدیث تواتر کے خلاف ہوں اجماع قطعی کے خلاف ہو۔انہیں بھی دوسروں کے ساتھ شیئر نہ کریں۔مختصر معلومات جو بھی آگے پھیلائیں وہ مصدقہ ہوں۔اور آپ کے پاس اسکا حوالہ ہونا چاہیے اور آپ خود بھی اسکا حوالہ طلب کریں۔کینوکہ قرآن نے جو کہا ہے تو ثبوت پیش کرو اگر سچے ہوتو۔
اسٹاک ہوم سویڈن
مشہور مزاحیہ اداکار مسٹر بین مسلمان ہو گئے۔سوشل میڈیا پہ گردش کرنے والی اس خبر نے چونکا دیا۔خبر کے ساتھ ہی مبارک سلامت کے پیغامات کے ساتھ خوشی کا اظہار کیا جا رہا تھا۔لیکن ساتھ ہی اکا دکا سنجیدہ حضرات نے اسے معتبر قرار نہ دیا۔اور تصدیق کرنے پر واقعی یہ خبر درست نہ نکلی۔سوشل میڈیا پر اس نوعیت کی خبریں اور معلومات پر ذہن اس طرف چلا گیا۔یہ درست ہے کہ سوشل میڈیا کی بدولت لوگوں میں باہمی رابطہ اور معلومات کا تبادلہ اور اہم معلومات کے بارے میں آگاہی رہتی ہے۔مگر ساتھ ہی بغیر تصدیق کے اہم اور حساس موضوعات پر معلومات شیئر کرنا نہ صرف دوسروں کو اہم معلومات بہم پہنچانے کا ذریعہ ہوتا ہے بلکہ جگ ہنسائی کا باعث بھی بنتا ہے۔مسٹر بین کے مسلمان بننے کی خبر آگے پھیلا کر اسلام کی خدمت کے بجائے اس کی توہین کی جا رہی ہے۔اسی نوعیت کی بیشتر خبریں گردش میں آتی رہتی ہیںجو ذمہ دار ذرائع سے نہیں آتیں۔کبھی یہ خبر کہ چاند پر جانے والے نیل آرم سٹرانگ نے قاہرہ میں اذان کی آواز سن کر یہ کہا کہ یہ آواز میں نے چاند پر بھی سنی تھی۔جس کی تردید میں بعد میں انہوں نے کہا کہ میں قاہرہ کبھی گیا ہی نہیں۔اور رہا چاند کا معاملہ تو وہاں تو خلاء ہے آواز کیسے سنائی دے گی۔کبھی یہ خبر فلاں کھلاڑی مسلمان ہو گیا ہے۔فلاں مشہور شخصیت نے اسلام قبول کر لیا ہے۔فلاں شاتم رسول جل کر مر گیا ہے۔ایسی جھوٹی خبریں پھیلانے والے سمجھتے ہیں کہ وہ اسلام کی خدمت کر رہے ہیں۔حالانکہ صورتحال اس کے بر عکس ہے۔کبھی یہ خبر آئے گی کہ خانہ کعبہ پر روشنی کا ہالہ موجود تھا۔کبی یہ خبر کہ مسجد کا مینار خود بخود زمین سے کھڑا ہو کر اپنی جگہ پر چلا گیا۔ایسی اطلاعات کی بھی تصدیق نہیں ہو سکی۔کچھ ایسے واقعات بھی دوسروں کے ساتھ شیئر کیے جاتے ہیںجو حادثاتی اور اتفاقی طور پر ہوتے ہیںاور انکا تعلق بھی دین سے نہیں ہوتا۔مثلاً روٹی پکاتے وقت کوئی متبرک نام ظاہر ہو گیا۔یا جانور پر کوئی اسم لکھا نظر آگیا۔یہ کوئی دلیل نہیں ہو سکتی اس قسم کے واقعات سب مذاہب والے پیش کر سکتے ہیں۔ہمیں اس بات کو یاد رکھنا چاہیے کہ رسول اللہ نے اپنی پوری زندگی میں اس قسم کے واقعات کو اپنی سچائی کا ثبوت پیش کرنے کے بجائے قرآن پیش کیا۔اور کہا کہ اس پر غور کرو اور اگر دل دماغ اس پر گواہی دیں تو قبول کرو۔مگر مافوق الفطرت واقعات یا اتفاقی حادثت کو انہوں نے تبلیغ دین کا ذریعہ نہیں بنایا۔یہاں تک کہ آپ کے صاحبزادے ابراہیم کی وفات کے دن چاند گرہن کو جب لوگوں نے اس غم کے ساتھ تشبیح دی تو آپ نے فرمایا کہ چاند گرہن کا اس واقعہ کے ساتھ کوئی تعلق نہیں وہ خدا کے نظام کے تحت ہے۔محبت رسول کے دعوے داروں کو اس ا سوہ کو سامنے رکھنا چاہیے کہ کچھ اس نوعیت کی تحریریں بھی گردش کرتی رہتی ہیں کہ فلاں دن فلاںوقت یہ وظیفہ کرو تو فلاں مقصد پورا ہو گا۔یا خوشخبری ملے گی۔یہ ذکر کرو تو یہ حاصل ہو گا پوری زندگی کے گناہ ختم ہو جائیں گے۔اور ساتھ ہی تاکید بھی ہوتی ہے کہ اسے لائق بھی کریں۔اور شیئر بھی کریں اور اگر شیئر نہ کیا تو نقصان بھی ہو گا۔جیسا کہ اس سے پہلے دور میں ہوتا تھا کہ فوٹو اسٹیٹ کروا کے آگے تقسیم کریں۔ایک ایسے دین کے حاملین جس کے بارے میں بات بار تاکید ہے کہ غور و فکر کرو ۔تدبر کرو سوچو اور عمل کرو ۔لیکن ایسے ذکر و اذکار کی طرف توجہ مبذول کرائی جاتی ہے جو قرآن و سنت سے بھی ثابت نہیں اور نہ ہی ضروری ہیں بلکہ وہ مسلمانوں کی بے عملی کا باعث بن رہے ہیں۔ جس کی وجہ سے دنیا میں ہم پستی کا شکار ہیں۔جبکہ دیگر غیر مسلم اقوام ترقی کی راہ پر گامزن ہیں۔مگر ہم ایسے ذکر میں مبتلاء ہیں جس کے بارے میں ابلیس کی زبانی علامہ اقبال نے کہا ہے کہ
مست رکھو ذکر و فکر میں صبح گاہی اسے
پختہ تر کر دو نظام خانقاہی میں اسے
ثواب کمانے کے ساتھ ساتھ بیماریوں کے علاج کے لیے بھی وظائف ،اذکار اور آیات پیش کی جاتی ہیں۔جو اسلام کی تعلیمات کے مطابق نہیں ہوتے۔لطف کی بات یہ ہے کہ جو ایسی چیزیں پیش کر رہے ہیں وہ جب خود بیمار ہوتے ہیںمیڈیکل علاج کراتے ہیں۔
سوشل میڈیا پر اکثر معلومات غلط شخصیات سے منسوب کر دی جاتی ہیں۔اکثر دانائوں کے اقوال حضرت علی سے منسوب ہوتے ہیں۔حالانکہ ان میں سے اکثر حضرت جعفر صادق اور دوسروں کی باتیں ہوتی ہیں۔اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے ۔فقہی نوعیت کی معلومات شیئر کرتے وقت قرآن کی آیات اور سورہ کا حوالہ ضرور دیناچاہیے۔کیونکہ اللہ تعالیٰ نے جو بی فرمایا ہے وہ قرآن میں موجود ہے۔اس کے علاوہ کسی کا بھی اللہ تعالیٰ سے براہ راست تعلق نہیں ہے۔
سب سے ذیادہ احتیاط رسول پاک کے اقوال اور احادیث اکو پیش کرتے وقت مد نظر رکھنی چاہیے۔جب بھی کسی حدیث کا حوالہ دینا ہو تو حدیث پوری تحریر کرنی چاہیے۔کس شخص نے روائیت کی ہے اور اس روائیت میں کون کون لوگ شریک ہیں۔اور پھر حدیث کی قسم بھی بیان کر دینی چاہیے۔کہ کیا حدیث صحٰح ہے قدسی مرفوع موقوف یا کس قسم کی ہے۔ضعیف احادیث ،موضوعات یا روایات پیش نہ کی جائیں۔محدث اکرام کی رائے میں ایسے موضوعات جس میں کسی قوم کی برائی،بڑائی معمولی نیکی پر جنت یا معمولی گناہ پر جہنم کی بشارت دی گئی ہو یا پھر شان نبوت اسوہء حسنہ اور قرآن کی تعلیمات کے منافی ،تاریخی حقائق اور عام مشاہدات کے منافی ہوں انہیں پیش نہ کیا جائے۔
مزید یہ کہ جو حکمت و اخلاق قوائدو طب اور آئندہ پیش آنے والی ایسی پیش گوئیاں جو مہینہ اور سال کے ساتھ واضع ہوں۔حدیث تواتر کے خلاف ہوں اجماع قطعی کے خلاف ہو۔انہیں بھی دوسروں کے ساتھ شیئر نہ کریں۔مختصر معلومات جو بھی آگے پھیلائیں وہ مصدقہ ہوں۔اور آپ کے پاس اسکا حوالہ ہونا چاہیے اور آپ خود بھی اسکا حوالہ طلب کریں۔کینوکہ قرآن نے جو کہا ہے تو ثبوت پیش کرو اگر سچے ہوتو۔