سویڈش فلاحی خاتون برگیتا کا قصور؟
تحریر عارف کسانہ
سویڈن سے تعلق رکھنے والی اکہتر سالہ برگیتا جسے لاہور میں نامعلوم حملہ آوروں نے قتل کر دیا تھا کو علاج کی غرض سے سویڈن لایا گیا مگر وہ جانبر نہ ہو سکیں۔برگیتا کا جرم کیا تھا ؟اور اسے قتل کرنے والے کون لوگ تھے؟انہوں نے ایسا کیوں کیا؟یہ ایسے سوالات ہیں جو سویڈن کے بچے پوچھ رہے ہیں کیونکہ تمام تفصیلات سویڈش پریس میڈیا میں آنے کے بعد ان سوالات کا اٹھنا قدرتی امر ہے۔بچے تو ایک طرف رہے بڑے بھی ان سوالات کے جوابات کے متلاشی ہیں۔ایک عمر رسیدہ سماجی کارکن جس نے عمر کا تمام حصہ پاکستان میں صحت و تعلیم کے فروغ کے لیے صرف کر دیا۔ جس نے بڑھاپے میں سویڈن جیسے پر آسائش اور سماجی بہبود کی زندگی چھوڑ کر کٹھن راہوں کا انتخاب کیا۔اسے تو سر آنکھوں پر بٹھانا چاہیے تھا اسکا سینہ تمغوں سے سجانا چاہیے تھا نہ کہ اسکے اپنے لہو سے ۔ قرائن یہی بتاتے ہیںکہ یہ وہی متشدد سوچ ہے جس نے پولیو کئے قطرے پلانے والوں کو موت کی نیند سلادیا۔یہ سوچ کون پیدا کر رہا ہے؟ان دہشت گردوں کی نرسریاں کہاں ہیں؟ذمہ دار وہ سب ادارے ،رہنماء ،عناصر اور تعلیم ہیں جسکا نتیجہ انسانیت کا قتل ہے۔قصور وار وہ بھی ہیں جنہوں نے عمران خان کی جانب سے ڈرون حملوں میں غیر ملکی انسانیت دوست شامل کرنے پر یہود ونصاریٰ کی نفرت انگیز اصطلاحیں استعمال کی تھیں۔سوچ کے اسی دھارے کو بدلنے کی ضرورت ہے۔جس کے بارے میں علامہ اقبال نے اپنے فارسی کلام میں ذکر کیا ہے کہ صوفی اور ملاّ کو میرا سلام پہنچے کیونکہ انہوں نے اسلام کا پیغام ہم تک پہنچایا ہے۔اس سے خدا جبریل اور مصطفیٰ تینوں حیران ہیں کہ جو پیغام انہوں نے دیا ہے وہ ہم نے نہیں کہا۔علامہ اقبال اس فکر کے خلاف مسلسل جہاد کرتے ہیں اور کلام اقبال اسکا شاہد ہے۔مذہبی انتہا پسندی اور شدت پسندی جس نے دنیا میں اسلام کا چہرہ مسخ کیا ہے۔اور پاکستان کو جہنم بنا رکھا ہے وہ اب مغرب میں بھی اپنا اثر دکھا رہی ہے دیگر یورپی ممالک کی طرح اب سویڈن میںبھی نوجوانوں کے ناپختہ ذہنوں میں فرقہ واریت اورجہاد کا غلط تصور بٹھا کر انہیں اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔جیسا کہ انہی صفحات پہ پہلے بھی لکھا جا چکا ہے کہ سویڈن سے بہت سے کم عمر نوجوانوں کو لڑنے کے لیے ترکی کے راستے شام میں لے جایا گیا ہے۔وہ نوجوان سویڈن کے شہری ہیں اور ان کے والدین غیر ملکی پس منظر رکھتے ہیں۔کچھ پاکستانی نثراد نوجوان بھی ہیں جن کے والدین نہائیت پریشان ہیں۔وہ بچے والدین کی اجازت کے بغیر جہاد کے مشن پر ہیں۔انہی بچوں میں سے ایک کے والد نے دیگر والدین کو پیغام دیا ہے کہ وہ اپنے بچوں کی سرگرمیوں پر نظر رکھیںکہ وہ کس طرح کے لوگوں سے مل رہے ہیں؟ کس طرح کا مذہبی لٹریچر پڑھ رہے ہیں اور ان کے مذہبی خیالات کس طرح کے ہیں۔اگر وہ کسی مذہبی گروہ سے منسلک ہو رہے ہیں یا ان کے اجتماعات میں شریک ہو رہے ہیں ۔وہ کیا نظریات رکھتے ہیں؟پاکستانی نثراد سویڈش نوجوان جو شام میں جاری جنگ مین حصہ لینے چلا گیا اس کے والد نے دوسرے والدین کو پیغام دیا ہے کہ اپنے بچوں پر کڑی نگاہ رکھیں۔جب نوجوانوں کی وض قط اور حلیہ میں تبدیلی دیکھیں۔ انکے نظریات اور خیالات میں شدت پسندی محسوس کریں تو سمجھ لیں کہ خطرہ سر پہ آن پہنچا ہے۔اسے نظر انداز نہ کریں ایسا نہ ہو کہ پانی سر سے گزر جائے۔اور پھر کچھ نہ کیا جا سکے وہاں جانے والے بچے خود واپس تو کیا شائید کبھی ان سے دوبارہ ملاقات بھی نہ ہو سکے۔شام میں جارحانہ جنگی حالت اس نہج پہ جا رہے ہیں کہ مشرق وسطیٰ میں دوسرا افغانستان سامنے آ سکتا ہے ۔جو تنظیمیں افغانستان میں سرگرم عمل رہی ہیں وہی اب یورپ سے مسلمان نوجوانوں کے شدت پسندی کے جذبات ابھار کر ترکی کے راستے سے شام لے جا رہے ہیں۔اگر بشار الاسد کی حکومت ختم بھی ہو گئی تو پھر وہی افغانستان والی تاریخ دہرائی جائے گی کیونکہ بیرونی مجاہدین اپنا تسلط قائم کریں گے۔جبکہ دیگر قوتیں اس کے بر عکس ہوں گی۔نوجوانوں میں فرقہ وارانہ اور غیر مسلموں کیخلاف نفرت اور جنگ کے جذبات پیدا کرنا اسلام اور اسوہء حسنیٰ کے سراسر منافی ہے۔ مدینہ میں جب عیسائی وفد نبی پاک ۖ سے ملنے آتا تو آپ انہیں عبادت کے لیے مسجد نبوی میں اجازت دیتے ہیں۔نبی پاک کی اس سنت کو کیوں نہیں زندہ کیا جاتا۔جو مذہبی آزادی مسلمانوں کو یورپ میں حاصل ہے وہ غیر مسلمانوں کو اسلامی ممالک میں کیوں نہیں دی جاتی۔مذہبی اداروں میں ڈاکٹر طاہرالقادری کے ادارہ منہاج القرآن نے اس وقت ایک اچھی مثال قائم کی جب لاہور میں آنے والے وفد کو سنت کے مطابق اپنی عبادت کی پیروی کی اجازت دی گئی۔مزید برآن عیسائی برادری اور دیگر مسلمانوں کے ساتھ ان کے تہواروں میں شامل ہو کر اچھی مثال قائم کی گئی۔دیگر مذہبی جماعتوں کو بھی اسی طرح کی مثالیں قائم کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمارا دین اسلام اتنا کمزور نہیں کہ دوسروں کی سماجی بہبود اور تبلیغی سرگرمیوں سے ختم ہو جائے گا۔بلکہ اس کے بر عکس اسے فروغ حاصل ہو گا اسلیے کہ دنیا کی تاریخ میں مکالمہ کی ابتداء مسلمانوں نے ہی کی تھی اور اسے جاری رہنا چاہیے۔سویڈن اور دیگر یورپی ملکوں کے ادارے اور افراد دنیا کے دیگر ممالک میں سرگرم ہیں جو بلاشبہ قابل تعریف ہے اور یہ سب بلا تفریق مذہب و ملت ہو رہا ہے۔پاکستان میں ایف سی کالج لاہور مرے کالج سیالکوٹ نے بیشمار گرانقدر تعلیمی خدمات سر انجام دی ہیں۔ کیا اگر مرے کالج کے سر آرنلڈ نہ ہوتے تو ہمیں علامہ اقبال جیسے مفکر پاکستان ملتے۔اسی طرح صحت کے شعبوں میں بھی عیسائی ادوروں کے تحت ہسپتال پاکستان میں عظیم خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔سرکاری ہسپتالوں میں جہاں مریض خوار ہوتے ہیں اور پرائیویٹ ہسپتالوں میں جانے کی سکت نہ رکھنے والے انہی ہسپتالوں سے شفاء پا رہے ہیں۔راقم اپنے ذاتی تجربہ کی بناء پر اس امر کا اعتراف کرتا ہے کہ سیالکوٹ میں آج بھی مشن ہسپتال اور بتھیانہ ہسپتال متوسط اور غریب طبقے کی بلا تمیز مذہب و ملت خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔اور یہ سلسلہ مدت سے جاری ہے۔ملک کی ایک خاموش اکثریت کو اپنا کردار ادا کرنا ہو گا تاکہ مٹھی بھر عناصر اپنے مذموم مقاصد میں کامیاب نہ ہو سکیں۔