سو بڑے سیا ستدان


خودکش دھماکوںاور جنگ کے سائے میں نئی حکومت تشکیل پا چکی ہے۔ولیعہد شہزادے کے والد اور صوبہء سندھ کے سردا رگھرانے کے سپوت عنان حکومت ہاتھوں میں تھام چکے ہیں۔ایک حالیہ خبر کے مطابق ملک کے صدر صاحب اپنے آقا ء امریکہ کی حکومت کا شکریہ ادا کرنے روانہ ہو چکے ہیں۔عالمی غنڈے حرکت میں ا کر کٹھ پتلیاں نچا رہے ہیں۔ اور زمانے کو اک ستم رسیدہ قوم کا تماشہ دکھا رہے ہیں۔خون آشام آدم خور بھیڑیے شمالی وزیرستان میں معصوم بچوں اور عورتوں کے خون سے اپنی پیاس بجھا رہے ہیں۔بلوچستان کی فضائوں میں مظلوم عورتوں کی آہوں اور چیخوں سے آسمان لرز رہا ہے۔ادھرمیریٹ ہوٹل میں پاکستانی تاریخ کا بد ترین دھماکہ نائن الیون کی یاد دلا رہا ہے۔ شہر جل رہا ہے اور راوی چین کی بانسری بجا رہا ہے۔ نو منتخب حکمران عنان حکومت سنبھالنے پر شکرانے کے بیانات جاری کر رہے ہیں۔اور مزید شکریہ ادا کرنے امریکہ روانہ ہو چکے ہیں۔شہر جل رہا ہے اور وہ شکر ادا کر رہے ہیں کہ شکر ہے مجھے تو حکومت ملی۔آگ کا کیا ہے آج لگی ہے کل بجھ جائے گی۔ مگر میری حکومت تو قائم رہے۔ملک جائے بھاڑ میں تو چلا امریکہ۔ یہ ہے حکمران اول کا رویہ ملکی حالات کے بارے میں۔ویسے بھی یہ دھماکے اور آتشزدگی کوئی نئی بات تو ہے نہیں اب تو عوام اور حکمران اس کے عادی ہو چکے ہیں۔یہ تو روز ہوتے رہتے ہیں مگر امریکہ تو روز روز نہیں جا سکتے۔ امریکہ جانے کا مسلئہ تو یہ ہے کہ وہاں جانے کے لیے عام شہریوں کو امریکی ویزہ اور گرین کارڈ چاہیے ہوتا ہے ۔ جبکہ خاص شہریوں کو گرین سگنل چاہیے ہوتا ہے لہٰذا سگنل سرخ ہونے سے پہلے، پہلے امریکہ روانگی بہت ضروری ہے۔ خواہ ملک دھماکوں اور جنگ کی آگ میں سرخ کیوں نہ ہو جائے۔ادھر امریکہ جنگ کا بگل بجا رہا ہے مگر اپنے حکمران چین کی بانسری بجا رہے ہیں۔مسائل کا ایک انبار ہے جسے اس منتخب حکومت نے حل کرنا ہے۔ ایک طرف بنیادی سہولتوں سے محروم غربت اور مفلسی کی چکی میں پستے عوام ہیں تو دوسری جانب رئیس حکمرانوں کے ٹھاٹھ باٹھ ہیں۔حکومت کو مسائل حل کرنے کے لیے پیسہ اور وسائل چاہئیے۔مگر پیسہ کہاں ہے؟ وسائل کہاں ہیں؟
وسائل ملک کے اندر ہیں اور پیسہ ملک سے باہر ہے، گزشتہ اور موجودہ حکمرانوں کے اکائو نٹس میں۔
سیاست بلی چوہے کا کھیل ہے۔اس کھیل میں جیتنے والے بلیوں کا اور ہارنے والے چوہوں کا کردار ادا کرتے ہیںاس کھیل میں بلیاں چوہوں کے ساتھ ساتھ ہر قیمتی چیز کا بھی شکار کرتی ہیںپھر یہ بلیاں یہ قیمتی چیزیں کھیل کے میدان سے باہر یعنی ملک سے باہر منتقل کر دیتی ہیں۔اس لوٹ مار اور شکار کی وجہ سے ملک میں سرمائے اور مال و زر کی کمی ہو جاتی ہے۔عوام میں مفلسی اور بدحالی پھیل جاتی ہے۔ سرمائے اور زر کی کمی کی وجہ سے حکمران امیر ممالک کے آگے اپنا کاسہء گدائی لے جا کر جھولی پھیلاتے ہیں۔امیر ممالک منہ مانگی شرائط پر انکی جھولی میں قرض کی بھیک ڈال دیتے ہیں۔جس کے نتیجے میں حکمران ملک بغیر کسی حیل و حجت کے انکی غلامی میں چلا جاتا ہے۔ بلکہ اسکے ساتھ ساتھ وہ اپنی پوری قوم کا سودا بھی کر لیتا ہے۔قرض دینے والا ملک جب جی چاہے مقروض ملک میں کسی نہ کسی بہانے سے گھس جاتا ہے۔جتنی دیر چاہے وہاں رہتا ہے جیسے لوگ اپنے چچا ماموں کے گھر رہتے ہیں۔غلاموں کے منہ میں آقائوں کی زبان بولنے لگتی ہے۔حکمرانوں کے درباری اور چمچے خوشحالی کے الائو روشن کرنے لگتے ہیں۔اس الائو میں عوام کی آہوں اور خون پسینے کا ایندھن جلتا ہے۔ یوں وقت کا پہیہ چلتا ہے۔اس الائو پر سیاست کی کھچڑی پکتی ہے حکمران الائو کے گرد رقص کرے ہیں۔پھر لڈی ، بھنگڑا اور ڈانس میں انکے شب و روز گزرتے ہیں۔ بیرون ملک قومی خزانہ دوسرے ممالک کے ساتھ خرید و فرخت سے حاصل کئے گئے زرمبادلہ پر مشتمل ہوتا ہے۔ اسی حساب سے روپئے کی قیمت عالمی منڈی میں گھٹتی بڑھتی ہے۔روپئے کی قیمت کا کم ہونا ملکی معیشت کے لے زہر قاتل ہے۔اس سے ملک میں افراط زر اورمفلسی میں اضافہ ہوتا ہے۔مارکیٹ سے روزمرہ استعمال کی اشیاء غائب کر دی جاتی ہیں تاکہ مہنگے داموں بیچی جا سکیں۔ اس طرح غریب غریب تر اور امیر امیر تر ہو جاتا ہے۔ طبقاتی فرق میں اضافہ ملک میں نفرت اور فساد کا باعث بنتا ہے۔
اب آئییے ٹیکسوں کی طرف پاکستان میں ٹیکس صر ف غریب لوگ ادا کرتے ہیں امراء ٹیکسوں سے مثتسنیٰ ہوتے ہین کیونکہ ایک تو وہ مقروض ہوتے ہیں دوسرے انکی پہنچ اوپر تک ہوتی ہے۔قومی خزانہ کیسے لوٹا جاتا ہے؟ ایک تو جب حکومتیں بیرونی ممالک سے لین دین کرتی ہیں اس وقت کمیشن کے نام پر بڑے عہدے دار رقوم اپنے اکائنٹ میںمنتقل کر لیتے ہیں ۔ دوسرے اندرون ملک جو سرکاری ٹھیکے دیے جاتے ہیں ان میں سے وزراء اور انکے اقارب کا حصہ ہوتا ہے۔ یہ سرکاری بلڈنگوں کے ، پلوں کے یا پودوں کے ٹھیکے ہو سکتے ہیں۔اسلام آباد اور پنجاب میں ان وزراء کی کارستانیوں کی کئی مثالیں اور گواہ موجود ہیں۔ یہی پل اور عمارات ناقص میٹیریل سے تیار ہوتے ہیں جو کہ جلد ہی زمین بوس ہو کر انسانی جانوں کے ضیاں کا باعث بنتے ہیں۔مدد کے نام پہ حاصل کئے جانے والے قرضوں میںسے رقم لوٹنا سب سے زیادہ آٔسان ہوتا ہے۔ اسلام آباد کے زلزلے مین نارویجن حکومت نے کئی ملین کی جو امداد دی تھی اس کا قومی بجٹ میں اور امدادی کاروائیوں میں نام و نشان تک نہیں۔ ناروے میں ٹیکسوں کا نظام اتنا مربوط ہے کہ ہر شخص ٹیکس دیتا ہے۔ اس امدادی رقم میں پاکستانیوں کی ادا کی گئی رقوم بھی شامل ہیں۔ وہ رقم کہاں خرچ ہوئی کوئی نہیں جانتا۔اسکے علاوہ سرکاری سہولتوں اور اشیاء کا استعمال بھی قومی خزانہ پر بوجھ ہے۔ایک سابقہ فوجی حکمران کے بیان کے مطابق انکی صاحبزادی کی مہندی ہیلی کاپٹر میں لے جائی گئی۔ان حکمران کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انکی رحلت کے بعد انکے اکائونٹ سے معمولی رقم ملی جبکہ ایک جاگیردار کے بقول اس نے انکی بیگم کو رقم ادا کر کے جائیداد کے مقدمات جیتے۔ جسکے نتیجے میں و ہ قیمتی سرکاری اراضی کا مالک بنا۔ بچپن میں مجھے بھی جنرل صاحب کی بیگم سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔ غالباً اسپورٹس ڈے تھا۔ میں نے انہیں پھول پیش کیے ۔یہ دیکھ کر حیرت کی ا نتہا نہ رہی کہ خاتون اول کے چہرے پر فائونڈیشن کی اسقدر دبییز تہہ تھی کہ گویا پوری بوتل ہی انڈیل دی گئی ہو۔پھر انکے گدیلے ہاتھوں پر لگی گہری لال نیل پالش عجب سماں دے رہی تھی۔ وہ خاتون اول کم اور کارٹون اول زیادہ لگ رہی تھیں۔ اوپر سے انکا وزن اور جسم کا رقبہ اتنا کہ گاڑی کی پچھلی سیٹ پر شائید وہ اکیلی ہی سماتی ہوں گی۔سرکاری پائلٹ کے بیان سے میں سوچ میں پڑ گئی کہ کیا ہیلی کاپٹر نے انکا وزن برداشت کر لیا ہو گاوہ اسکے دروازے سے اندر کیسے داخل ہوئیں کیا وہ اکیلی تھیںیا انکے ساتھ اور خواتین بھی تھیں۔ سرکاری سہولتیں حکومت کے کام نمٹانے کے لیے دی جاتی ہیں ذاتی تقریبات میں انکا استعمال ناجائز ہے۔
نا روے کے گزشتہ وزیر اعظم بوناویک نے جب استعفیٰ ٰدیا تو گھر واپسی کے لیے سرکاری گاڑی استعمال نہیں کی۔ اسی طرح سویڈن کے وزیر اعظم نے جب سرکاری ڈرائیور سے کہا کہ مجھے آج شام کی پارٹی میں لے جانا تو اس ڈرائیور نے نے معذرت کر لی کیونکہ اسے شام کو اپنی بیوی کو ڈاکٹر کے پاس لے جانا تھا ۔ لہٰذا وہ وزیراعظم کی گاڑی نہیں چلا سکتا تھا۔یہ ہے غیر مسلم قوم کے لیڈر جنہیں ہمارے نام نہاد مسلمان برا کہتے نہیں تھکتے۔یہاں ہیلی کاپٹر بار برداری اور ایمرجنسی کے مقاصد کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔سرکاری اشیاء وزیر اعظم سے لے کر معمولی ملازم تک کوئی بھی استعمال نہیں کرتا اسلیے نہیں کہ یہ ایک امیر قوم ہے اس لیے کہ انہیں اپنے حقوق اورا ختیارات کا پتہ ہے ۔ اسکی تربیت دی جاتی ہے انہیں شروع سے ہی ۔پاکستان جیسے غریب ملک میں سرکاری املاک کا یہ استعمال سرکاری خزانے پر بوجھ ہے۔ایسے نظام کے تحت لٹیرے لیڈر اور مفلس قوم تو پیدا ہو سکتی ہے مگر دنیا کے سو بڑے لوگوں جیسی عظیم ہستیاں پیدا نہیں ہو سکتیں۔اگر صرف سو بڑے سیاسی حکمرانوں اور لٹیروں سے انکی لوٹی ہوی دولت قومی خزانے میں واپس لائی جائے تو اس ملک کی تقدیر بدل سکتی ہے۔مگر اصل مسئلہ تو یہ ہے کہ بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے؟ اور پھر یہ سو بڑی بلیاں انکے گلے میں کون گھنٹیاں باندھنے کی جرآت کرے گا ؟ان سو بڑی بلیوں کے گلے میں کروڑوں عوام گھنٹی باندھیں گے ۔سب سے پہلا حق ہے عدلیہ کاکہ وہ گھنٹیاں باندھے، پھر وہ ہزاروں لاکھوں وکلاء جو جسٹس افتخار کی بحالی کے لیے برسر پیکار ہیں۔ پھر حق ہے ان کروڑوںعوام کا اگر وہ مشرف کو اتار سکتے ہیں تو لٹیروں سے لوٹی ہوئی رقوم بھی واپس لے سکتے ہیں۔ یہ باتیں تو آپ نے ہزاروں بار سنی اور پڑہی ہوں گی۔ ابھی آپ شائید آپ اس وقت تک اسکی بازگشت سنیں گے جب تک کہ تمام اہل وطن بیک زبان ہو کر اس قومی لوٹ مار پر احتجاج نہ کریں۔ اس احتجاج کی بازگشت اس وقت تک سنائی دیتی رہے گی جب تک کہ یہ قوم کو واپس نہ مل جائے قومی قرصے نہ اتر جائیں ، قوم پستی سے نہ نکل آئے،اس لوٹی ہوئی قومی دولت کی واپسیکے لیے
میڈیا کو چاہیے کہ متحد ہو کر سارے سیاسی لٹیروں ، لوٹوں ، چمچوں اور کڑچھوں کے خلاف بگل بجائیں ،عدلیہ گھنٹیاں باندھے،اور ان لٹیروں کو وہ تگنی کا ناچ نچائے کہ انہیں چاچا مشرف کی طرح اپنی اپنی نانی یاد آ جائے۔پھر ایسی قیادت لائیں جو حقیقتا قوم سے مخلص ہو۔ ایسے لوگ عوام کے دلوں میں حکومت کے خلاف نفرت کے بیج توبو سکتے ہیںحب ا لوطنی کے جذبات کو فروغ نہیں دے سکتے۔اگر یہی رقوم اور لوٹی ہوئی دولت قومی خزانے کو واپس دلائی جائے تو ،ملک سے غربت اور مفلسی دور ہو سکتی ہے۔ ملک ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہو سکتا ہے۔اس رقم سے سودی قر ضے ادا ہو سکتے ہیں، تعلیم اور صحت کے شعبوں میں یہ رقوم استعمال ہو سکتی ہیں۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ یہ رقوم غلامی کی ان زنجیروں کو توڑ سکتی ہیں جو جوہماری قوم نے قرضے کے بدلے میں پہن رکھی ہیں ۔پھر جب وطن عزیز میں ہر جانب خوشحالی کا دور دورہ ہو گا۔ لہلہاتی فصلیں، سونا اگلتی زمیں اور صنعتی ترقی یافتہ پاکستان کا سندر سپنا پورا ہو گا۔ پھر چھوٹے سرکاری ملازم کیوں رشوت لیں گے، پڑھے لکھے نوجوان کیوں ڈاکے ڈ الیں گے،اور غربت اور بھوک افلاس سے تنگ آ کر لوگ کیوں خودکشی کریں گے۔ پھر آپ اور میں پاکستانی ہونے پر فخر کیوں نہیں کریں گے۔اس موقع پر
دور حاضر کی ایک معروف شاعرہ کے مجموعہ کلام سے چند اشعارحاضر خدمت ہیں
آگے بڑھ کر برسر پیکار ہو
اے رفیقوں، ہمنشینوں ، دوستوں
اٹھ کے بیٹھو خواب سے بیدار ہو
توڑ کر رکھ دو طلسم کائنات
خود بخود ڈھل جائے گی تاریک رات
ریزہ ریزہ ہو نگے سارے حادثات

سو بڑے سیاستدان
شازیہ عندلیب

قسط نمبر ٢ کالم نقش تحریر

لوٹی ہوئی رقوم کی واپسی کا تقاضہ ہر محب وطن پاکستانی پر فرض ہے خواہ وہ پاکستان کے اندر ہو یا دنیا کے کسی بھی کونے میں ہو۔ پاکستان کے تمام میڈیا کو لوٹی ہوئی رقوم کی تفصیلات شائع کرتے رہنا چاہیے۔اس وقت تک جب تک کہ اسکی بازیابی نہ ہو جائے کسی لٹیرے کو حکومت میں شامل ہونے کی اجازت نہیں دینی چاہیے۔ سیاستدان تو قوم کے خادم ہوتے ہیں ۔ لہازا قوم کے ہر فرد کے علم میں انکا زاتی گوشوارہ ہونا چاہیے۔ایک مخلص خادم کا یہ کام نہیں کہ وہ جس کی خدمت کرے اسی کے گھر میں نقب لگائے۔آجکل پاکستان ہائی کورٹ نے مہنگائی کے خلاف ؤرڈیننس جاری کیا ہے ، ہائی کورٹ کو چاہیے کہ وہ ملک کے متمول ترین سیاسی لیڈرں کے گوشوارے بھی شائع کرے ۔ تاکہ عوام کو بھی پتہ چلے کہ انکے خادمین کس قدر دولتمند ہیں۔جو جائز اور وراثتی دولت ہے وہ تو لیڈران قوم کو از خود غریب عوام کے لیے وقف کر دینی چاہیے ۔ جو لوٹی ہوئی ملکی اور غیر ملکی خزانوں کے زخائر ہیں وہ بھی اگر یہ منتخب عوامی لیڈران قوم ازخود قومی خزانوں کو لوٹا دیں تو اسکا انہیں خاطر خواہ فائدہ ہو سکتا ہے۔ مثلاًوہ تازندگی قوم کی خدمت کر سکتے ہیں اور اپنے اپنے عہدوں پر براجمان رہ سکتے ہیں۔ کیونکہ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات تو نہیں کہ قوم کی خدمت ہی تو ان لیڈران کی اولین خواہش رہ چکی ہے ۔ ثبوت کے لیے ان لیڈران کی کوئی بھی دوران الیکشن کی گئی تقریر سن لیں یا پڑہ لیں۔اس میں ان لیڈران نے قو م سے انتہائی اور والہانہ عشق و محبت کا اظہار کیا ہے اور یہ کون اہل دل نہیں جانتا کہ محبت تو قربانی مانگتی ہے۔ بغیر قربانی کے محبت امر نہیں ہوسکتی ۔مجھے امید ہے کہ بیشتر لیڈران وطن میری اس رائے سے اتفاق کریں گے کیونکہ وہ مجھ سے کہیں زیادہ سمجھدار اور قوم سے محبت کرنے والے ہیں۔
نارویجن قوم کا نظریہ ہے کہ معاشرہ سزا سے نہیں بلکہ تربیت سے سدھرتا ہے۔ یہاں بیروزگاروں اور غیرملکی پنا ہ گز ینوں کو بیروزگاری الائونس دیا جاتا ہے لیکن اکثر غیرملکی کافی فساد پھیلاتے ہیں
اور کام نہیں کرتے۔ کسی سیاستدان نے وزیر اعظم کو مشورہ دیا کہ یہ غیر ملکی اتنے غیر مہذب ہیں حکومت کو چاہیے کہ انکا خرچہ بند کردے تاکہ ا نکے ہوش ٹھکانے آئیں۔ وزیر اعظم نے کہا کیوں خرچہ کیوں بند کروں تاکہ وہ چوریاں اور ڈاکے ڈالیں۔ یہ ہیں غیر مسلموں کی سوچ ایک ہماری حکومت ہے کہ عوام کو بھوکا رکھ کر یہ توقع کرتی ہے کہ وہ انتہائی شرافت سے بلا چوں چراں انکا حکم مانے ملک میں چوریاںڈاکے نہ ہوںجو بڑے مجرم ہیں انہیں کوئی سزا نہ ملے وہ کھلے عام دندناتے پھریں ۔ کوئی ان پر انگلی نہ اٹھا ئے حکومتی ارکان جھوٹے وعدے کر کر کے عوام کے دل بہلاتے رہیں۔
مجھے پاکستان اور بیرون ملک مقیم کئی پاکستا نیوںکی دعائوں ، نیک خواہشات اور حوصلہ افزائی سے بھرپور میلز موصول ہوئیں ۔ جن کی میں تہ دل سے ممنون ہوں۔کئی قارئین نے اپنے مسائل اور انکے بارے میں اپنے نظریات کا اظہار بھی کیا ہے ۔ کویت سے نومان صاحب لکھتے ہیں کہ وہ اپنی کمپنی میں واحد پاکستانی ہیں باقی افراد انڈین ہیں۔ وہ بھی کویت کی ما رکیٹوںمیںپاکستانی اشیاء کی کمیابی اور انڈین مال کی ارزانی پر دکھی نظر آتے ہیں۔ ے شک یہ ایسا ہی معاملہ ہے جیسے کسی کاماں جایا بھائی اسے چھوڑ کر غیروں سے بہن بھائیوں کا سا سلوک کرے اور اپنوں کو کمتر جانیں۔ اس بات کا نوٹس ہم لوگوں کو قومی اور سفارتی سطح پر لینا چاہیے کیونکہ یہ ہمارا دنیاوی ہی نہیںاسلامی اور دینی حق بھی ہے۔ پاکستان کو دیگر اسلامی ممالک کے ساتھ عملاً سفارتی، اور ثقافتی پیمانے پر تعلقات استوار کرنے چاہیئیں۔اپنی پراڈکٹس کی کھپت ان ممالک میں بڑھانی چاہیے۔اس سلسلے میں وسیع تر پیمانے پر کام ہونا چاہیے۔ پھر ہی مسلمان قوم ذلت کی کھائیوں سے باہر نکل سکتی ہے۔وہ مزیدلکھتے ہیں کہ پاکستانی عوام کو پیٹ بھر کا کھانا نصیب نہیں ہوتا وہ قومی مفاد کے بارے میں کیسے سوچ سکتے ہیں۔یہ بات ٹھیک ہے کہ مشکل حالات میں مثبت سوچ ایک مشکل کام ہے لیکن یہ ناممکن ہرگز نہیں۔یہ مشکلیں ہی تو زندگی کے امتحان ہیں ۔ جب سمندر میں طو فان آتا ہے تبھی تو قطرہ گہر بنتا ہے شب ظلمت کے بعد ہی تو سحر کی روشنی ہوتی ہے۔ دنیا کے جتنے بڑ ے لوگ ہیںانکی زندگی کی کتا ب ا ٹھاکر دیکھ لیں کیا انہوں نے کبھی بھوک افلاس نہیں دیکھی۔ کیا تاریخ میں غریب قوموں نے کبھی ترقی نہیں کی؟میں نے امی سے پوچھا کہ جس آدمی کو کھا نے کو نہیں ملتا وہ قوم کی بھلائی کا کیا سو چ سکتا ہے۔ امی نے کہا کہ اس کا حل ہے صبر روزہ ہمیں کیا سکھاتا ہے۔پھر کھانا کیوں نہیں ملتا ۔ تھوڑی سی جگہ میں انسان سبزی اگا سکتا اور نہیں تو دھنیا پودینہ اگا کر چٹنی سے ہی کھانا کھا اگر کیاری نہیں بنا سکتے توگملے میں ہی سبزیاں اگا لیں ۔ پیٹ صرف مرغن غزائوں سے ہی تو نہیں بھرا جاسکتا۔ چٹنی پیاز سے بھی پیٹ بھرا جا سکتا۔ پھر کوشش کرنے والوں کا ساتھ توخداضرور دیتا ہے۔ مگر مسلہء تو یہ ہے کہ معاملہ کھانے پینے سے کہیں آگے کا ہے۔ پاکستان میں لوگوں کے پاس موبائل فون ہیں گھروں میں الیکٹرک مشینیں ہیں قسطوں پر لی ہوئی گاڑیاں ہیں موٹر سائیکل ہیں۔ مگر مشینیں چلانے کے لیے بجلی نہیں ، گاڑیاں چلانے کے لیے پٹرول نہیں ۔ نومان صاحب کہتے ہیں کہ چائنا نے ایسے ترقی کی کہ پانچ سال تک لوگوں ے پڑھائی نہیں کی صرف قومی ترقی کے لیے کام کیا۔ میں یہ کبھی نہ کہوں گی کہ وطن عزیز میں تعلیم پر پابندی لگائی جائے یہاں پہلے ہی جہالت بہت ہے۔لیکن مجھے یقین ہے کہ اگر ساری قوم سائیکلیں اور پبلک ٹرانسپورٹ استعمال کرے تو ملک ضرور ترقی کرے گا۔ہمارے وطن میں کاروں کے استعمال پر ہر خاص وعام کے لیے پابندی لگائی جائے تو قوم اخراجات کے بڑھتے ہوئے عفریت اور ٹریفک کے حادثات سے نجات پائے گی۔اس کے لیے پبلک
ٹرانسپوٹ سسٹم کو مضبوط و مربوط بنانا پڑے گا۔یہاں ناروے میں لوگوں کے گھروں میں اعلیٰ سے اعلیٰ گاڑیاں کھڑی ہوتی ہیں مگر لوگ کام پر پبلک ٹرانسپورٹ سے جاتے ہیں ۔ کیونکہ وہ تیز رفتار او ر سستی ہے ۔ یہی حال دیگر یورپی ممالک کا بھی ہے۔اگر کاروں کے استعمال پر پابندی نہیں لگاء جاسکتی تو کم ازکم بڑی گاڑیوں کے استعمال پر تو پابندی لگائی جا سکتی ہے۔ صرف ضرورت تو یقین کامل کی ہے۔ ہم اپنی ذات کیلیے کتنی تکلیف اٹھاتے ہیں مگرقوم کی ترقی کے لیے ہمت نہیں ہوتی اس سے کتراتے ہیں۔ کیوں؟ اسکی وجہ ہے ایمان کی کمزوری! ارادے کی کمزوری! اگر انسان کا ارادہ مضبوط ہو تو وہ بڑی سے بڑی رکاوٹ دور کر سکتا
ہے۔ شاعر مشرق نے ایسے ہی موقع کے لیے مرد مومن سے یہ کہا ہے کہ
کی محمد سے وفا تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں

سو بڑے سیا ستدان“ ایک تبصرہ

اپنا تبصرہ لکھیں