مصنف ،پروفیسر خالد پرویز
حصہ اول
حضرت عزیر علیہ السلام اپنے دلفریب باغ میں آج چند لمحے رکے ۔انگور اور انجیر سے ٹوکری بھری ۔کچھ روٹیاں ساتھ لیں گدھے پر سوار ہوئے اور گھر کی راہ لی۔
راستے میں چلتے چلتے وہ کائنات کے وجود کے بارے میں سوچنے لگ۔یہ سوچ لمحہ بہ لمحہ گہری ہوتی گئی۔اس خیال اور سوچ میں وہ چلتے چلتے بہت دور نکل گئے۔ایک سنسان و ویران بستی میں جا پہنچے۔وہاں انسانی ہڈیاں ادھر ادھر بکھری پڑی تھیں۔اور بوسیدہ جسم خاک میں ملتے جا رہے تھے۔آپ یہاں ٹھہر گئے کھانے کی ٹوکری پاس رکھ لی اور گدھے کو کچھ فاصلے پرباندھ دیا۔اور سستانے کے لیے ایک بو سیدہ دیوار سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئے۔لیکن اچانک سوچ کا دھارا بدل گیا ۔یہ سڑے گلے بوسیدہ جسم پھر کیو نکر زندہ ہوں گے؟؟اسی سوچ اور خیال میں نیند نے آ لیا ۔اور نیند میں سو سال بیت گئے۔بچے بوڑھے ہو گئے آبادیاں ویرانوں میں تبدیل ہو گئیں۔نہ جانے کتنی تبدیلیاں رونماء ہو گئیں۔کتنی صدیاں بیت گئیں۔لیکن عزیر علیہ السلام ایک ہی جگہ پڑے سوتے رہے۔یہ نیند موت کی نیند تھی۔عضو عضو الگ ہوا۔انگ انگ بکھرگیا۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جو چیز لوگوں کو حیران کرتی ہے۔جس نظریے کو وہ اس لیے تسلیم نہیں کرتے کہ وہ عقل کی کسوٹی پہ پورا نہیں اترتاآج اسے لوگوں کے سامنے بیان کر دے۔
اللہ تعالیٰ نے حضرت عزیر علیہ السلام کی ہڈیوں کو جمع فرمایا ۔جسم کو درست کیا۔اور اس میں روح لوٹا دی۔وہ چاک و چوبندپہلے کی طرح صحت مند اور جوان اٹھ کھڑے ہوئے۔انہیں یوں محسوس ہوا گویا تھوڑی دیر سو کر بیدار ہوئے ہیں۔گدھاتلاش کیا۔سامان کو ادھر ادھر دیکھا لیکن کچھ بھی نہیں تھا۔
ایک فرشتہ حاضر ہوا اور عرض کی عزیر! بتائو تو یہاں کتنی دیر قیام رہا؟آپ نے فرمایایہی ایک دن یا دن کا کچھ حصہ ۔فرشتے نے بتایا نہیں عزیر آپ یہاں ایک سو سال سوئے ہیں۔اتنی مدت آپ یہاں پڑے رہے لیکن اس کے باوجود آپ کا کھانا ترو تازہ ہے۔اورمشروب ویسے کا ویسا ہے۔کھانے پینے کی چیزوں کو دیکھو کوئی تبدیلی نہیں آئی۔لیکن گدھا مر چکا ہے اور اس کی ہڈیاں بکھری پڑی ہیں۔اس کے جسم کا ہر جوڑ الگ ہو گیا ہے۔عنقریب تم دیکھو گے کہ اللہ تعالیٰ کیسے بو سیدہ ہڈیوں کو جوڑتا ہے۔اور کیسے ان میں زندگی کے آثار پید افرماتا ہے۔یہ سب اس لیے ہو رہ اہے تاکہ آپ کو یقین آ جائے کہ دنیوی زندگی کے بعد اخروی زندگی افسانہ نہیں ایک حقیقت ہے اس سے ایک مقصد یہ بھی ہے کہ تیری مثال سے لوگوں پرمذہب کی سچائی واضع ہو جائے۔
دیکھتے ہی دیکھتے وہی گدھا زندہ ہو جاتاہے۔اور آپ کے سامنے قیامت کی حقانیت کھل جاتی ہے۔آپ اللہ کی قدرت دیکھ کر پکار اٹھتے ہیں۔
میں جان گیا ہوں کہ بیشک اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔،البقرہ۔
آپ نے گدھے کی لگام تھامی اور چل دیے۔چاہتے تھے کہ ایک لمحہ میں گھر پہنچ جائوں۔لیکن راستے اجنبی محسوس ہوتے تھے۔گھر کی محبت تھی کہ خود بخود قدم اٹھتے جاتے تھے۔اگرچہ بہت کچھ تبدیل ہو چکا تھا لیکن پھر بھی اپنی بستی تھی۔ایک گھر کے صحن میں جا کھڑے ہوئے بوڑھی ماں نظر آئی۔کمر کمان کی طرح دہری ہو چکی تھی۔ نقاہت سے قدم اٹھ نہیں سکتے تھے۔اللہ کی قدرت کہ اتنی طویل عمری میں بھی زندہ تھیں۔ان کی آنکھوں سے بصارت رخصت ہو چکی تھی ۔یہ عزیر کی ماں تھیں جنہیں سو برس قبل آپ نے جوانی میں الوداع کہا تھا۔آپ پہچان نہ سکے کہ یہ مقدس چہرہ ماں کا ہے۔لیکن نہ جانے کیوں ادب سے نگاہیں خود بخود جھکی جاتی تھیں۔آپ نے بڑے احترام سے پوچھا ماں جی کیا یہی عزیر کا گھرہے؟بوڑھی کی آواز آنسوئوں میں بھیگ گئی ۔صرف اتنا کہہ سکی ہاں۔۔۔اور پھر طویل خاموشی چھا گئی۔عزیر نے سر اٹھا کر دیکھا بوڑہی کی آنکھوں میں آنسو تھے جو چہرے سے ٹپک کر نیچے گر رہے تھے۔ہونٹوں پرتھر تھراہٹ تھی اس نے پھر ہم کلامی کے انداز میں کہنا شروع کیا ۔عزیر تو جا چکے لوگ تو ان کا نام بھی بھول چکے ۔میں تو عزیر کا نام سننے کے لیے ترس گئی تھی۔آج آپ نے میرا غم تازہ کر دیا۔لیکن بیٹا نہ جانے کیوں مجھے پہلی بار محسوس ہوا ہے کسی نے دل کی گہرائیوں سے عزیر کی طرح مجھے ماں کہا ہے۔بیٹا بتا تو کون ہے؟
عزیر علیہ السلام نے بوڑھی ماں کے ہاتھ تھام لیے اور کہا اماں!میں عزیر ہوں۔اللہ نے سو سال مجھ پر موت طاری رکھی پھر مجھے نیا وجود بخشا اور زندگی لوٹا دی۔بوڑھی اماں بے قرار ہو گئی اس نے زور دے کر کہا نہیں تم عزیر نہیں ہو سکتے وہ تو مرد صالح تھا۔ہاتھ اٹھتے تو خالی نہیں لوٹتے تھے۔اللہ سے جو مانگتا مل جاتا تھا۔جس مریض کی شفاء کی دعا کرتا دعا قبول ہوتی تھی۔اور مریض تندرست ہو جاتا۔اگر تو عزیر ہے تو اللہ سے دعا کر مجھے کھوئی ہوئی توانائیاںلوٹا دے۔میری بصارت لوٹ آئے۔
جاری ہے۔۔۔۔۔
۔