دوسرا حصہ
حضرت عزیر علیہ السلام نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھا لیے بس ایک لمحے کی دیر میں بوڑھی ماں کا چہرہ گلاب کی طرح کھل اٹھا۔مدتوں بیتی بہار واپس آ گئی۔ماں دوڑ کر عزیر سے لپٹ گئی ۔ہاتھ پائوں چومنے لگی۔جی بھر کر پیار کیا۔پھر دوڑی دوڑی اپنی قوم کی طرف گئی جس میں عزیر کے بیٹے اور پوتے تھے۔ان میں آپ کے ساتھ اور دوست بھی تھیء جو بہت بوڑھے ہو چکے تھے۔عزیرکی والدہ ماجدہ دور سے چیخیں۔جسے تم سو سال سے تلاش کر رہے تھے اب واپس آ گئے۔وہ اسی طرح تندرست و توانا ہیں اور جوانی کی عمر میں ہیں۔
والدہ ماجدہ کے پیچھے حضرت عزیر علیہ السلام بھی پہنچ گئے ۔ ایک توانا اورمضبوط جسم کا مالک شخص ان کے سامنے تھا۔سب نے پہچاننے سے انکارکردیا لیکن بوڑہی ماں کی بصارت اور جوانی ایسی دلیل تھی جسے جھٹلانا آسان نہیں تھا۔سو سال کا عرصہ کچھ کم عرصہ نہیں ہے۔پھر عزیر تو یہ دعویٰ بھی کر رہے تھے کہ یہ ان کی دوسری زندگی ہے۔مانیں تو کیسے مانیں۔یقین کریں تو کیسے یقین کریں۔جھوٹ سب جھوٹ کی آوازیں آنا شروع ہو جاتی ہیں۔لیکن ایک شخص اشارہ کرتاہے اور سب آن واحد میں خاموش ہو جاتے ہیں۔یہ عزیر کا بیٹاہے جو اب بوڑھا ہو چکا ہے۔وہ گویا ہوتا ہے لوگ اسے بولتا دیکھ کر خاموش ہو جاتے ہیں۔وہ بولا یونہی جھٹلانا مناسب نہیں۔ہمیں آزما لینا چاہیے تحقیق کر لینی چاہیے۔اے شخص میرے والد کے دائیں کندھے پر تل تھا جو اسے لوگوں سے ممتاز کرتا تھا۔ذرا کندھا دکھائیے۔کندھے سے کپڑ اہٹایا گیا تو نشانی موجود تھی۔دائیں کندھے پر تل بالکل نمایا تھا لیکن یہ کوئی خاص نشانی نہیں۔تل کسی بھی شخص کے دائیں کندھے پرہو سکتا ہے۔کوئی ایسی نشانی ہو جس سے دل مطمئن ہو جائیں۔اچھا تاریخ بتاتی ہے کہ توریت کے حفاظ میں ایک نام حضرت عزیر علیہ السلام کا بھی تھا۔اگریہ واقعی درست ہے تو توریت پڑھ کرسنائو۔حضرت عزیر علیہ السلام نے توریت کی تلاوت شروع کر دی۔کوئی حرف ادھر ادھر نہہوا۔آپ بڑی روانی سے تورات کی تلاوت کرتے رہے۔
اس دلیل کو کون جھٹلا سکتا تھا۔لوگ اللہ کے نبی سے لپٹ لپٹ کر ملنے لگے۔سب ان کی تصدیق کرنے لگے۔تاہم آنے والی نسلوں نے اس واقعہ سے سبق حا صل نہ کیا بلکہ سرکشی میں اضافہ ہوا۔