مزاحیہ غزل
ڈاکٹر فریاد آزرؔ
(روحِ احمد فراز سے معذرت کے ساتھ)
’سنا ہے لوگ اسے آنکھ بھر کے دیکھتے ہیں‘
سو ہم بھی آج یہی کام کر کے دیکھتے ہیں
ہے شوق اس کو موبائل سے بات کرنے کا
سو ہم بھی چار چھ مِس کا ل کر کے دیکھتے ہیں
جن عاشقوں کو بڑھاپہ کی پونچھ اگنے لگی
سنا ہے وہ بھی اسے دم کتر کے دیکھتے ہیں
بس اس لئے کہ اسے پھر نظر نہ لگ جائے
لگا کے سب اسے چشمے نظر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے بالوں سے اس کو بڑی محبت ہے
تمام گنجے اسے آہ بھر کے دیکھتے ہیں
سدھار پائے نہ جن کو پولس کے ڈنڈے بھی
وہی موالی اسے خود سدھر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے ربط ہے اس کو امیر زادوں سے
سو آج ہم بھی اسے جیب بھر کے دیکھتے ہیں
وہ بالکونی میں آئے تو بھیڑ لگ جائے
رقیب ایسے میں جیبیں کتر کے دیکھتے ہیں
سڑک سے گزرے تو ٹریفک بھی جام ہو جائے
کہ اہلِ کار بھی اس کو ٹھہر کے دیکھتے