(سفر نامہ جمشید پو)
عمران عاکف خان،نئی دہلی
imranakifkhan@gmail.com
جب انسان کو پنکھ لگ جاتے ہیں،چاہے وہ حقیقی ہوں یا معنوی اور حالات بھی ساز گار ہوں تو اس کے من میں مچلنے والے اڑان کے ارمان، حقیقت کا روپ دھار لیتے ہیں اور پھربسااوقات اُن پر بھروسہ کرکے اَن دیکھی اور انجان منزلوں کی جانب چل پڑتا ہے۔اس وقت تو اس کی منزلوں کی سمت و رفتار بھی متعین ہوجاتی ہے جب اسے کہیں سے دعوت نامہ موصول ہوتا ہے ۔یہ دعوت نامہ ،دعوت طعام و ملن سے لے کر علمی ،ادبی،فکری،تنظیمی،تبلیغی امور کی انجام دہی،رشتوں اور ناتو ںکی استواری،فرائض و مناصب کی ادائیگی ،کوئی ہنگامی صورت حال،ناگفتہ بہ کیفیت ،افتادِ ناگہانی ،حادثاتی ،قدرتی و مصنوعی آفت و مصیبت ، کسی بھی نوعیت کاہوسکتا ہے۔بالعموم یہ پرواز مختصر، چند گھنٹوں کی،پورے دن کی،یک روزہ،دُو روزہ،سِہ روز وغیرہ کی مدتو ںتک کی ہو سکتی ہے،اسی طرح پبلک ٹرانسپورٹ،گورنمنٹ ٹرانسپورٹ، بائی ٹرین،بائی ائر و متعدد دیگر ذرائع سے کی جاتی ہے۔قصہ مختصر!میری پروازہ بھی ماہ جون 2019کے وسط میں بہ سمت جمشید پور(ٹاٹا۔ٹاٹا نگر) جھارکھنڈ ہوئی۔
جھارکھنڈ ہندوستان کی جنوب شمال میں واقع ایک خوشحال،آباد و شاد،ترقی یافتہ ،بلند و بالا سبززار پہاڑوں ،پر شکوہ اور بہتے ندی نالوں ،قدرتی معدنیات سے لبریز زمینوں و خزانوں کی مالک ریاست ہے۔اس کی تشکیل 15نومبر 2000کو ہندوستان کی28ویں ریاست کی صورت میں، صوبہ ¿ بہارکے جنوبی حصے کو تقسیم کرکے ہوئی اورریاست کا دارالحکومت رانچی قرار پایا۔اس کی بڑی زبانیں ہندی،سنتھالی اور اردو ہیں۔24اضلاع پر مشتمل یہ ریاست چھوٹا ناگپور اور اس کی خونی داستانوں کے پٹھاروں وٹیلوں پر آباد ہے۔اس کی سرحدیںشمال میں بہار،مغرب میںیوپی اور چھتیس گڑھ،جنوب میں اڑیسہ اور مشرق میں بنگال سے ملتی ہیں ۔پورے ملک میں ریاست جھارکھنڈ کی شناخت جنگلوں کے تناسب کے قائد کی حیثیت سے ہے۔
ریاست کی آبادی کا زیادہ ترحصہ آدی واسی یعنی قبائلی افراد پر مشتمل ہے۔شہروں میں آبادی متناسب اور معقول ہے۔مہا نگروں کی مانند نہیں، کہ اصل حصے سے زیادہ اَن اتھرائزڈ کالونیاں آباد ہیں اور اُن کی اتھرائزڈنگ پر مقامی سیاسی جماعتیں الیکشن جیتتی ہیں اور پھر مڑ کر بھی نہیں دیکھتیں۔
مخصو ص کلچر،تہذیب و تمدن،جدا گانہ شناخت،لب ولہجہ،شکل و صورت اور انسانو ںکی آدمیت و حیوانیت سمیت ریاست جھارکھنڈہندوستان کے نقشے پر تکونی صور ت میں کسی اڑتے ہوئے پرندے کی مانند موجود ہے۔یہاں کے بڑے شہروں میں رانچی (دارالحکومت) دُمکا(ذیلی دارالحکومت )جمشید پور(صنعتی دارالحکومت)دھنباد،گریڈیہہ اور دیوگھر وغیرہ ہیں۔مذکورہ اضلاع، ریاست کے اہم ترین اور قابل ذکر شہرو ں میں بھی شمار ہوتے ہیں۔ریاست جھارکھنڈکے جو فرزندان، مختلف شعبہ ہائے حیات،فنون لطیفہ ،علم و ادب اور سیاست سے تعلق رکھتے ہیں ان میں سے چندنمایاں نام یہ ہیں:
m بر سا منڈا(معروف دلت رہ نما)
m رام دیال منڈا(ماہر تعلیم)
m بلو امام(ماہر ماحولیات،مصنف)
m اسلم جمشید پوری(پرو فیسر اردو،معروف افسانہ نگار)
m کیرتی آزاد(سابق کرکٹر وبی جے پی رہ نما)
m مہندر سنگھ دھونی(کرکٹر ،سابق ہندوستانی کپتان اورکرکٹ ورلڈ کپ 2011 ،کےفاتح)
m ورون ارون( کرکٹر)
m سوربھ تیواری( کرکٹر)
m امتیازعلی(معروف ڈائریکٹر)
m آر،مدھون(فلمی اداکار)
m ذیشان قادری(اداکار ،رائٹر)
m تنو شری دتّا(سابق فیمینا مس انڈیا،ڈائریکٹر )
m پرینکا چوپڑا(مس ورلڈ2000)
m پدم شری استاد ڈبّو وغیرہم ——— (ان میں سے اکثر شخصیات کا تعلق جمشید پور سے ہے)
اس طرح کی نعمتوں اور خزانوں سے مالامال ریاست جھا رکھنڈ ترقی پذیر اور آگے ہی آگے بڑھنے کی جانب گامزن ہے۔اس ریاست اور اس کے ذمے داروں نے بہارسے الگ ہو کر کوئی غلطی یا افسوس ناک قدم نہیں اٹھایا،نتیجتاً انھیں کسی طرح کا افسوس بھی نہیں ہے بلکہ وہ اپنے اہداف و مقاصد میں بہت حد تک کامیاب ہیں اور اس کے عام باشندے اپنی ریاست کی عظمت و شان بلند رکھنے کے لیے محنت مشقت کرکے مقدور بھر تعاون پیش کررہے ہیں۔جھارکھنڈ کے دن ٹھنڈی اور گھنی چھاو ¿ں میں بستے ہیں اور راتیں چاند کی روپہلی روشنیوںمیں نہاتی ہیں ۔وہاں کے دریا اور پربت اپنی رعنائی و زیبائی میں ملک کے دوسرے حصوں کے اپنے ہم مناصب سے بازی لے جانے میں مصروف ہیں۔یہاں کے آدی واسی اور ان کا کلچر قدیم زمانوں کی سی روایات کا حامل ہے۔آج بھی وہاں کے گھنے جنگلوں اور پہاڑوں کے عریض دروں میں قبائلیوں کے گاو ¿ں اور خیمے آباد ہیں۔مہذب اور خوشحال دنیا سے دور یہ لوگ کسی جبر اور قہر کے باعث نہیں، بلکہ خود ساختہ ،من مانی اور مرضی کی زندگی جی رہے ہیں ،تاہم حکومت و انتظامیہ ان کے بنیادی اور انسان حقوق و مسائل سے چشم پوشی اور پہلو تہی برتنا کسی طور مناسب نہیں ہے،مگر انھیں اس کی کوئی پروابھی نہیں۔وہ تو اپنے قدآدم اور دیوہیکل دیول سے ہی اپنی منتیں مانگتے ہیں،اس کی خواہشوں پر ہی قربانیاں پیش کرتے ہیں،اپنے مذموم عقائد کی ادائیگی میں کسی کالی عورت کو ڈائن یا شوہر خور کہہ کر پتھروں سے اسے ہلاک کرکے اپنے جذبات کو تسکین پہنچاتے ہیں۔وہ ایسے علاقے ہیں جہاں نہ قانون کی پہنچ ہے اور نہ انتظامیہ کی دسترس ،وہاں خود ان کا قانون اور انتظامیہ کا عمل چلتا ہے۔و ہاں ان کی اپنی سلطنت چلتی ہے۔
قبائلی عورتوں کے ساتھ ساتھ مردوں کی صورتیں اور تن بدن بوسیدہ اور جلے درختوں کی مانند نظر آتے ہیں۔ان کے نوعمر لڑکے لڑکیاں، سوکھی ٹہنیوں کی مانند دکھتے ہیں،جن کے وجود پر گوشت پوست ندارد ہے ،بس ہڈیوں کے پنجر پر کھال سی منڈھ دی گئی ہے،اس کھال میں بھی کوئی کشش نہیں ، کوئی جاذبیت نہیں،اگر کوئی رومانی شاعر یا ادیب انھیں دیکھ لے تو خود کشی ہی کرلے۔جسم اور حسن کی ایسی توہین وہ بر داشت ہی نہیں کرسکتا۔وہ جن آنکھوں کے قصیدے لکھتا ہے،وہ جن لبوں کو چاند کہتا ہے،جو عارض اور ان کی سرخی مائل تپش، اسے فنا پر مجبور کرتی ہے،وہ جن ابروو ¿ں کو ماہِ نو مانتا ہے،جو کاکل و گیسواسے ریشمی اور سلکی سلکی دکھتے ہیں،جو سینہ اور جوبن اسے قلو پطرہ کا سینہ و جوبن نظر آتاہے۔جو کمر اور زیریں حصے اسے موہوم اور شاعرانہ لگتے ہیں پھر مکمل سراپا ہی اسے ترکی یا بنگالی نار کا سا لگتا ہے،جس چلتے پھرتے وجود کو وہ کشمیرکی کلی یا لاہور اور ملتان کی چھوری کہتا ہے ———- وہی سب اسے اس روپ میں نظر آئے تو وہ معصوم، یہ نہ کرے گا تو پھراورکیا کرے گا ———- ؟
اس طرح کی متضاد زیست و حیات کی حامل ،ریاست جھارکھنڈ اور اس کے شہر و جغرافیے پھر بھی دلوں کو اپنی جانب کھینچتے ہیں اورپوری دنیا سے لوگ وہاں کھنچے چلے آتے ہیں ۔اس کی عظمت کے گیت گاتے اور سنتے ہیں۔وہاں کے کلچر اور فوک روایت سے لطف اندوز ہوتے ہیں ۔پھر اس کی خوب صورت یادوں کو اپنی یاد داشتوں،ڈائریوں اور سفرناموں میں درج کرتے ہیں۔ کہیں ایسا نہ ہو ،یاد وںکا یہ پرندہ بے کراں فضاو ¿ں میں اڑ جائے اور پھر نگاہیں اس کے تعاقب میں بھٹکتی رہیں۔
جمشید پور اور میں
میری پرواز 13جون 2019کو بذریعہ ¿ جموں توی۔ٹاٹا جن شتاپدی ایکسپریس سے ”دنیا ئے ادب جمشید پور “کے زیر اہتمام ،شہر/ریاست کے معرو ف افسانہ نگار’ ناصر راہی ایم اے، کے اولین افسانوی مجموعے”سہ شب کا قصہ “ کی رسم اجرا کے موقع کی مناسبت سے آں جناب کی دعوت پر جمشید پور کی جانب ہوئی۔یہ ٹرین پرانی دہلی جنکشن سے گزرتی ہے اور پھرطویل سفرطے کر کے یوپی کے جنوبی کنارے سے جھارکھنڈ میں داخل ہوجاتی ہے۔راہ میں ایک اسٹیشن ایسا آتا ہے جہاں اس کے اے سی کمپارٹمنٹس کے علاوہ سارے ڈبے کٹ کر دوسرے راستے پر روانہ کردیے جاتے ہیں ۔اگر وقت مقرر ہ پر یہ ٹرین ٹاٹا اسٹیشن پہنچے، تو ہردن 10:30اس کا وقت ہے مگر ہائے رے آرزو،جو کبھی پوری ہی نہیں ہوتی اور اگر مگر ،کے بہ جائے اس کا اپنا حکم چلتا ہے۔چنانچہ ٹرین نے کچھ تاخیر سے مجھے جمشید پور پہنچایا۔
کھاکر اور سبرن ریکھا ندیوں کے کناروں پر آباد شہر جمشید پور ،ریاست جھارکھنڈ کا دوسرا بڑا شہر اور’اسٹیل سٹی ‘کے نام سے معروف ہے۔شہر کا جغرافیہ تقریباً 50مربع کلومیٹر ہے۔خوب صورت پارکس ،ٹاٹا انڈسٹریز کا حصار بند ایریاز اور دیگر قابل ذکر مقامات کا حامل یہ شہر اپنے آپ میں بے مثال ہے۔اس کااسٹیشن دنیا کا واحد اسٹیشن ہے جو جانے والے مسافروں کے علاوہ آنے والوں کو بھی ’ٹاٹا‘ کہتا ہے۔میں نے تو اس کے بارے میں بہت سنا اور پڑھا تھا مگر وہ مجھے آج دیکھ رہا تھا۔یہ سچ ہے کہ عظیم و قدیم وہی تھا،میں تو محض ایک مسافر تھا،لہٰذا میرا اور اس کا موازنہ کہاں ——— ؟
ہوٹل بلیو ورڈ میں
جمشید پور کے اسٹیشن نے مجھے بھی ٹاٹا کہا ۔اس سے پہلے کہ میں اس کے’ٹاٹا‘کا جواب دیتا ، اس کے پلیٹ فارم نمبر 3پر عالی جناب ناصر راہی ایم اے میرے استقبال کے لیے موجود تھے۔ان سے میری ملاقات /جان پہچان میری قلمی کاوشوں کا ثمرہ ہے۔رسالہ ’آج کل‘نئی دہلی وہ میڈیم ہے جس نے ہماری گفت و شنید کے راستے ہموار کیے اور پھر تقریباً 9ماہ بعد ایسا موقع آیا کہ ہم دونوں روبرو تھے۔ ہماری یہ ملاقات ہینڈ شیک اور نیک شیک پر منتج ہوئی۔وہ بہت خوش تھے اور بچوں کی سی خوشی کا عکس میرے میرے وجود سے بھی ہویدا تھا۔ناصر راہی صاحب اسٹیشن سے مجھے باہر لے کر آئے اور وہاں سے ہم باہر ہی موجود ان کے دوست کی گاڑی میں بیٹھ کر ہوٹل بلیو ورڈکے روم نمبر 317۔318 آئے جو میرے ساتھ چند اور عظیم الشان مہمانوں کے لیے مختص تھے۔ان مہمانوں میں معروف افسانہ نگار انیس رفیع،محمود یاسین،اشرف احمد جعفری(یہ سب مہمانان کلکتہ سے تھے)اور کچھ قریبی شہروں کے مہمانان کے قیام کا انتظام تھا۔
بسٹو پور تھانہ مین روڈ پر واقع ہوٹل بلیو ورڈ 1940سے اپنی خدمات پیش کررہا ہے۔اس کی پرشکوہ اور اونچے اونچے تاڑ کے درختوں کے دائرے میں موجود سِہ منزلہ عمارت رعنائی و زیبائی اور رونق و صفا میں اس ایریے کی دیگر عمارتوں سے کسی طور کم نہیں ہے بلکہ دیگر سے قدرے بلندی پربھی ہے ۔اس کی ٹیرس سے آس پاس کے علاقے اور ٹاٹا نگر کا طول وعرض نظر آتا ہے جس کے بعد نگاہیں شہر کے دوسرے حصوں کی سیر کو چلی جاتی ہیں۔ہوٹل کی بالکنی میں کھڑے ہوں بالکل سامنے تنشک جیولرس کا شوروم نظر آتا ہے جس کے باب الداخلہ پر وہاں مالکان نے مصنوعی فاو ¿نٹین بنا رکھاہے۔شام کے وقت میں رنگ برنگی روشنیاں جب لہرا لہرا دیوارپر پڑتی ہیں تواس پر بنی پینٹنگس زندہ ہوجاتی ہیں۔ہوٹل کے سامنے سے گزرنے والی سڑک پر آتے جاتے ٹریفک کو دیکھ کربہت بھلا لگتا ہے۔ کاریں،بائیکس،پیدل مسافر اور سڑک کے ڈیوائڈرکے پیڑ پودے اور سبزہ زار آنکھوں کو سکون و فرحت بخشتا ہے۔
میں14جون 2019 کی سِہ پہر کو ٹاٹا نگر پہنچا اور پروگرامِ رسمِ اجرا ئے افسانوی مجموعہ’سِہ شب کا قصہ‘، اگلے دن تھا۔لہٰذا یہ وقت میں نے آس پاس کی سیر میں گزارا،پھر شام ہوئی اور ماحول پر رات نے اپنی سیاہ چادر لپیٹ دی جس میں شہر کی روشنیاں ،چوراہوں کی اسٹریٹ لائٹس اور تیز فوکس والے سینکڑوں باٹس کے بلبس نے چھید سے کردیے تھے۔چاند بھی کہیں دور اپنی چاندنی کو بکھیرتا سمیٹتا نظر آرہا تھا ۔رات سحر آگیں تھی اور اس کا پل پل نہ جانے کتنے دل شکستوں کا نالہ وشیون اور آہ و بکا اپنے سیاہ وجود میں سمیٹ کرجارہا تھا۔دوسری جانب اس میں امنگیں،فرحتیں اور مسرتیں بھی سمائی ہوئی تھیں ۔تاہم یہ مقدر مقدر کی بات ہے۔اس میں نہ رات کا قصور ہے اور نہ چاند کا،نہ رات کے پلوں کا اور نہ چاندنی کا۔
پروگرام ہال میں:
رات گزری،دن نکلا اور تاریک شبستانوں کو روشن کرتا کرتا عمودی سمت میں بلند ہوتا گیا۔پھر وہ وقت آگیا جب پروگرام منچ اور ہال سج گیا۔وہ ہوٹل کا ہی ایک ہنڈریڈ سیٹر ہال(Hundred Seater Hall )تھا،جس میں دو رویہ نشستو ںکے درمیان راہداری اور بالکل آخر میں مندوبین کی ضیافت کاماحضر سجاتھا۔سامنے اسٹیج ،عقب میں بینر ،دائیں اسپیکر مائک اور بائیں ساو ¿نڈ کنٹرولر مشین اور دیگر آلات نہایت ترتیب سے رکھے تھے۔دیکھتے ہی دیکھتے حاضرین ،سامعین اور شائقین آتے گئے اورہال کی نشستیں کم پڑگئیں،لہٰذا خالی جگہیں اور اضافی جگہوں پر بھی کرسیاں بچھا دی گئیں ۔
بیرون جمشید پور سے آنے والے مہمانوں کا استقبال سید رضا عباس رضوی چھبّن کی جانب سے کیا گیا۔چھبّن صاحب شہر کی معروف سیاسی ، سماجی اور بااثر شخصیت ہیں ۔آپ متعدد ادبی انجمنوں کے سرپرست اور علم ادب دوست ہیں ۔چنانچہ آپ نے جمشید پور کے منچ سے ملک بھر کے متعدد ادیبوں جن میں شمس الرحمان فاروقی جیسے نام شامل ہیں،کو خسرونیشنل ایوارڈ اور دیگر اعزازات عطا کیے ہیں۔
چھبّن صاحب کی صدارت میں تقریباً ساڑھے پانچ بجے پروگرام شروع ہوا۔مہمانوں کے اعزاز،شال پوشی،مومنٹو پیشی اور دیگر لوازمات کے مرحلے سے گزرنے کے بعد، مقررین،مہمانان خصوصی و اعزازی،صدر جلسہ اور ناظم جلسہ ’سہ شب کا قصہ‘اور ناصر راہی ایم اے کو موضوع سخن بنا کر اظہار خیال کرتے رہے۔ پروگرام کامیابی سے ہم کنار ہوا اور مرحلہ شوق مکمل ہو گیا۔پھر شب کے جاگے ہوئے تاروں کو بھی نیند آنے لگی توحاضرین و سامعین وہ اپنے اپنے کسی آنے والے کی آس دبائے جانے لگے۔پرو گرام کا میلہ بچھڑا اور میزبانوں میں سے اہم شخصیات نے رومز میں بھی ایک محفل سجائی جو تقریباً رات گیارہ بجے تک چلی۔
چند یادگارملاقاتیں:
اس سفر میں چند یادگارملاقاتوں کا ذکر ضرور کروں گاجنھوں نے مجھے حد درجہ متاثر کیا(حالاں کہ ابھی میری عمر متاثر ہونے اور تاثر حاصل کرنے کی ہی ہے)یہ ملاقاتیں معروف و سینئر افسانہ نگار ،انیس رفیع،محمودیاسین اور دانشور اشرف احمد جعفری وغیرہ صاحبان سے تھی ۔یہ حضرات تقریباً 60کے دہائی سے ادب و فکشن اور دیگر معمولات زندگی میں مصروف عمل ہیں اور میرا وجود 90کی دہائی کے بعد کا ہے،مگر اس قدر طویل فاصلے کے باوجود یہ عالی ظرف اور جہاں دیدہ شخصیات مجھ سے اس طرح ملیں،جیسے میں ان کا ہم عمر ہوں ۔عمروں کے درمیان کا یہ فاصلہ پل بھر میں سمٹ کررہ گیا۔ہم نے آپس میں شعروادب،تنقید و تحقیق،فکشن و شعریات،نثرو نظم،تحریرو مطالعے،شخص اور شخصیات سے متعلق کیں ۔اس دوران عالم یہ تھا کہ میں ان کی سن رہا تھا اور وہ مجھ سے سننے مشتاق۔میرے ناول ”جے این یو کمرہ نمبر 259“کو انھوں نے کھلے دل اور ہاتھوں سے قبول کیا۔انیس رفیع صاحب چوں کہ حکومت ہند کے چینل ڈی ڈی نیشنل،دہلی اور کلکتہ کی ملازمت سے سبک دوش ہیں اور میں نے بھی میڈیا و براڈ کاسٹنگ کا کورس کیا ہے، اس لیے جدید ٹیکنالوجی ،میڈیا میں نت نئے تجربے اور پکچر کیلوگرافی جیسے ڈیجیٹل چیزیں بھی ہمارے موضوعات سخن میں تھیں۔ مجھے پل پل یہ احساس تھا کہ اگر خورد قابل اور معقول ہوتو اسے نوازنے والے آج بھی موجود ہیں ۔مجھے بہت کچھ یاد ہے اور بہت کچھ میں سنجو لیاہے۔
روانگی اور جرنی بریک
پھر رات چہرے پر کاکلیں بکھراتی ہوآئی اور سب کو اپنے طرح دار جادو میں گرفتار کرتی چلی گئی ۔دوڑتی بھاگتی زندگی جیسے تھم سی گئی۔ دن کے میدان میں جیسے رات کے ہزاروں بچے فتوحاتی رقص کرتے کرتے چاند کی کوششوں کو چلنج کرنے لگے اور وہ ان کی طفلانہ حرکات پربس مسکرارہا تھا ۔پھر صبح نے سیج سے اٹھتے ہوئے انگڑائی لی ،مگر وہ اکیلی نہیں تھی بلکہ اپنے جلو میں بہت سے نظارے لے کر آئی لیکن اسے نہیں لائی جس کے لیے سجدے کیے تھے ۔دن پھر جوں جوں جواں ہوتا گیا اور اس کا قد عمودی سمت کی بلندیوں کو چھوتا رہا۔یہ دن میری روانگی کا دن تھا۔جمشید پور اور اس کی عظمتوں کو خیرآباد کہنے کا دن ۔اپنے میزبانوں اور ہاتھ کا چھالا بنا ئے رکھنے والوں سے الوداع کہنے کا دن۔
17جون 2019کو میں ٹاٹا نگر جمشید پور کے اسٹیشن سے اتکل ایکس پریس سے علی الصبح روانہ ہو ا اور جمشید پور سے تقریباً 62کلومیٹر کے فاصلے پر واقع چکر دھرپور(CKP) میں جرنی بریک ہوگئی ۔سی کے پی ناصرراہی ایم اے کا سسرالی اسٹیشن ہے۔یہاں ان کے برادرنسبتی سید ساجد الرحمان(محمد ساجد) نے استقبال کیا اور اسٹیشن کے قریب ہی واقع گھر پر لے گئے۔یہ ناشتے کا وقت تھا لہٰذا فریشنیس کے بعد ناشتہ کیا گیا اور چندے آرام ۔بعدازاں ساجد بھائی نے بائک نکالی اور ہم دونوں قصبے کی سیر کے لیے نکل گئے۔چکردھرپور اسٹیشن کے اردگر د کا علاقہ قدرتی،سرکاری اور دیگر منتظمین کی اعلا صلاحیتوں کا مظہر تھا۔مناسب فاصلے سے بنی عمارتیں،مارکیٹس ،تفریحی مقامات،تقریبات اور تیج و تہوار سلبریشن کے گارڈنس سب بہت اچھے اور قابل دید تھے۔مختلف پر سکون اور ہرے بھرے راستوں سے گزرتے ہوئے ہم لوگ قصبے کی مصنوعی و نیم قدرتی جھیل ’برٹن لیک‘ پر گئے اور وہاں بوٹنگ ڈریس زیب تن کرکے پیڈلربوٹ سے جھیل کے گہرے پانیو ںکی سیر کرنے لگے۔ڈھائی کلومیٹر کی جھیل میں ہم دونوں نے کئی چکر لگائے اس کے بعد آس پاس کے ہر بھرے گلیارو ںمیں گھومنے لگے۔پھر جب دھوپ تیز ہونے لگی تو واپسی میں ہی عافیت سمجھی۔پھر بائک تھی اوروہی کشادہ راستے۔اب ساجد بھائی چکر دھر پور ،یہاں کے راجہ ،انگریزوں سے اس کی دوستی ،موجود ہ سرکاری حیثیت اور قصبے کی اہمیت کے متعلق بتانے لگے۔انھوں راہ میں آنے والااپنا اسکول،کیندریہ ودیالیہ (سینٹرل اسکول) بھی دکھا یا اور پھر ہم جمشید پور۔رانچی نیشنل ہائی نمبر33پر آگئے ۔یہاں واقع مارکیٹس ،علاقوں اور رہائش گاہیں دیکھتے ہوئے قصبے کے لائف لائن کی حیثیت رکھنے والے پل پر سے مین مارکیٹ آگئے ۔پل پر گزرتے ہوئے میں نے دیکھا کہ دائیں جانب راجستھان گیسٹ ہاو ¿س کے بالمقابل ’اردو ٹاو ¿ن ہائی اسکول ‘واقع تھا۔یہ دیکھ کر دلی مسرت ہوئی اور آنکھیں روشن و دل شادماں۔میں نے ساجد بھائی سے یہاں کے تعلیمی ادارو ںکے متعلق پوچھا تو انھوں نے بتایا کہ یہا ں کا سب سے بڑا کالج ’جے این سی‘(جواہر لال نہرو کالج) ہے ۔یہ پہلے مہاراجہ آف چکردھر پور کا پیلس ہواکرتا تھا ۔جسے اب کالج بنا دیا گیا۔پھر وہ مجھے قصبے کی متعد دگلیوں ،محلوں اور اسٹریٹس کی سیر کرانے لگے۔وہاں میں نے دیکھا کہ کمتر ،متوسط،اعلا تینوں حیثیتوں کے لوگ آباد ہیں ۔قصبے میں ترقی کے نشانات موجود ہیں ۔مندرو ںاور مسجدو ںکا وجود ہے۔ساجد بھائی کے علاوہ وہاں کے کسی اور فرد سے ملنے کا موقع مجھے نہیں ملا ورنہ میں ان کے متعلق بھی اظہار خیال کرتا ۔تاہم اتنا ضرور ہے کہ ان کے چہرو ں پر بڑے اور تیزرَوشہرو ںکے لوگوں کی طرح سفاکی،چالاکی اور عیاری نہیں تھی،ہاں اپنی موجود ہ شناخت اور حیثیت کی بقا کی جدو جہد ضرور تھی ،جو انسان کا اصل جوہر ہے۔
دوپہر کے بعد شام اور شام کے بعد رات بھی میں نے یہیں گزاری ،رات کیسی ،ویسی ہی جیسے جمشید پور کی تین راتیں تھیں ،مگر اس رات میں ایک چیز کا اضافہ ضرور ہو گیاتھا۔اس کی یادیں بھی رات کے اس سفر میں میری ہم سفر بن گئیں جو پانی کی نئی بوتل بھی مجھے کھولنے کو دیتی تھی۔یہ یادیں تھیں اور رات کا سفر تھا ۔چند آوارہ آنسو تھے اور کچھ بے آبرو سسکیاں یہ رات بھی گزرگئی ۔پھر آئی چکردھر پور کی صبح رنگین،حسین ،جانفزااو رحوصلوں میں توانائی بھردینے والی۔اب مسافر اپنا سامان سمیٹنے لگا۔
دہلی واپسی
چکردھرپور ریلوے اسٹیشن پرپوری ۔ ہردیواراتکل ایکسپریس پلیٹ فارم نمبر 1پر آئی اور میں ساجد بھائی سے سلام و دعا کے بعد اپنے کمپارٹمنٹ میں سوار ہو گیا۔چند ثانیوں بعد ٹرین اپنی اگلی منزل کی جانب روانہ ہو گئی۔پھر منزل در منزل،سفر درسفر ،اسٹیشن بائی اسٹیشن ،ٹرین راستے بھر کے نظارے کراتے ہوئی غم و غصے سے بھری،کہیں کہیں الہڑ اور سسکتی دوشیزہ کی مانند سبک سبک چلتی ہوئی،کہیں پھر تیز ہوتی اور دوسری تیزرَو گاڑیوں کو کراس کرتی ہوئی نئی ہلی کے حضرت نظام الدین ریلوے اسٹیشن پہنچی۔دہلی ایسی ہی تھی جیسی میں چھوڑکر گیا تھا ۔وہی دھوپ کا عالم،وہی ماحول کی گرمی،وہی ٹریفک کا اژدہام اور سڑکوں و سرکاری جگہوں پر قبضے اسی طرح،وہی لوگوںکا ایک دوسرے کے ساتھ سلوک وہی ان کی مال و اسباب کے لیے ہاہا کار ،وہی سب کچھ ،وہی یہاں کے صبح و شام کے کارواں ۔دلّی کو اپنی یہ سب برائیاں قبول بھی ہیں اور وہ ان ستم ظریفیوں پر ہنستی بھی ہے ۔اسی لیے تودلّی دلّی ہے جی!
یہاں آکر سِہ روز کا قصہ اختتام پذیر ہو گیا۔گو اس میں ایک دوروز اور بھی شامل ہو گئے مگر ان کی حیثیت ضمنی یا ذیلی کی ہے یا انھیں آپ حادثاتی بھی سمجھ سکتے ہیں۔
——— mm
—
عمران عاکف خان
+91-9911657591