شاعرہ :شعاع نور
کہیں بیٹھا اگر وہ سوچتا یہ ہو
فلک کا قیمتی تارا
ہتھیلی کے حجم میں بھر کے اس کے ہاتھ پر رکھ دوں
دمکتے چاند کی کرنیں جو دریا
سے لپٹ کر اس میں یوں ہلچل
مچاتی ہیں کہ ساحل کانپ جاتا ہے
اگر میں اس کو لوٹا دوں
کھلی آنکھوں میں کتنے خواب بستے ہیں
وہ لمحہ جب اسے
فرصت سے یوں چاہا
کہ میری سوچ کا ہر زاویہ اس سے عبارت تھا
جو اب بھی اس طلب کو منتقل
کرنے کی خواہش میں بڑا بے چین بیٹھا ہے
یاوہ جذبہ بڑی قوت سے سینہ دھڑ دھڑاتا ہے اگر
میں اس کو لوٹا دوں
اسے جاکر بتادوں کہ
حقیقت سے کبھی نظریں چراي جا نہیں سکتیں
کہیں بیٹھا وہ یہ تو سوچتا ہوگا
کہ میں اس سے کہوں تم تو مری زندہ حقیقت ہو
مرا سچ ہو
اور ایسا سچ کہ جیسے
چاند کی کرنوں سے لہروں کا
اور ایسا سچ
جو جب تک منتقل نہ ہو
بہت بے چین رہتا ہے
مرا سچ ہو
اور ایسا سچ کہ جیسے
چاند کی کرنوں سے لہروں کا
اور ایسا سچ
جو جب تک منتقل نہ ہو
بہت بے چین رہتا ہے
بہت منفرد انتخاب ہے شہلائ شعائ نور کی شاعری کا
جیسے کوئی فلک سے تارے توڑ لائے
ور یہ ہو گا بھی بہت آ`ساں شعاع کے لیے کہ
جیسےتارے بھی تیرے پڑوس میں بستے ہوں گے