ایک افسانچہ
عابدہ رحمانی
بیوی باورچی خانے سے چلا رہی ہے ،میاں کمپیوٹر ڈیسک ٹاپ پر کانو ںمیںائیر پلگ لگایے بیٹھا ہے
“ارے سنتے ہو شام کو راشدہ کے سسرال والے آرہے ہیں ذرا بازار جاکر یہ سامان تو لۓ آؤ- خدا کی پناہ کیا منہ میں گھنگنیاں ڈالکر بیٹھے ہو بولتے کیون نہیں؟’
تنگ آکر سامنے بکتی جھکتی کھڑی ہوئی تو میاں نے ائر پلگ نکال کر کہا “ارے بیگم کیا کہہ رہی ہیں آپ میں کچھ ضروری کام کر رہاتھا’
“ہاں ہاں خوب جانتی ہوں تمہارے ضروری کاموں کو اب تو ریٹائر ہوۓ کئی مہینے ہوگئے بھلے چنگے ہو کوئی دوسری ملازمت کیوں نہیں ڈھونڈھ لیتے – دیکھ رہے ہو گھر کا خرچ کتنی مشکل سے چلتا ہے” مہنگائی دیکھو آسمان سے باتیں کر رہی ہے ابھی بیٹی کو بیاہنا بھی ہے”
“ہاں ہاں وہی تو کر رہاتھا اسپر ملازمت ہی تو ڈھونڈھ رہا تھا – تم کیا جانو اب تو ساری ملازمتیں بھی اسی پر ہیں، ہاں تو تم کیا کہہ رہی تھیں اچھا یہ لسٹ دے دو میں مسجد میں نماز پڑھکر واپسی پر لیتا آونگا-” میاں لسٹ لیکر ٹوپی پہن کر مسجد کو روانہ ہوئے
بیوی کو تجسس ہوا کہ آخر کو وہ کمپیوٹر پر اتنا کھویا ہوا کیوں تھا -خود تو وہ اس سے واقف نہیں تھی بیٹھ کر ماؤس ہلانے لگی تو سکرین پر ایک سے ایک حسین و جمیل بنی ٹھنی پوز مارتی ہوئی لڑکیاں جلوہ آرا ہیں
غصے سے بھنتے ہوئے ایک مرتبہ تو اسنے سوچا اسکے ٹکڑے ٹکڑے کردے
اتنے میں میاں ٹوپی پہنے تسبیح لہراتے ہوئے داخل ہوئے” ارے بیگم بٹوہ تو گھر میں ہی بھول گیا” ہاں تمہیں ان کلموہیوں سے فرصت ہو تو تمہارا دماغ کچھ کام کرے- راشدہ کے ابا ویسے تمہاری بیٹی سے چھوٹی ہی ہونگی کچھ تو خدا کا خوف کروو!!
اچھا اچھا چلو اس بہانے تم نے اس کمپیوٹر کو چھو تو لیا -ارے بھئی یہ سب اس کمپنی کی ماڈل ہیں جہاں میں سکرپٹ رائٹر کی درخواست دے رہا ہوں – بہت اچھی نوکری ہے اور تنخواہ بھی کافی معقول ہے – سوچ لو