اکثر یہ کہا جاتا ہے اسلام نے فرقہ واریت سے سختی سے منع ہے اور اللہ تعالیٰ کا حکم ہے فرقہ بندی نہ کی جائے۔ سوال یہ ہے کہ کیا اسلام نے صرف مذہبی فرقہ بندی سے روکا ہے یا اس میں ہر قسم کہ فرقہ واریت شامل ہے؟ ہمارا دعویٰ ہے کہ اسلام مذہب نہیں بلکہ دین ہے۔ مذہب میں صرف رسمی عبادات شامل ہوتی ہیں جبکہ دین تمام شعبہ ہائے زندگی کا احاطہ کرتا ہے۔ ہم بڑے فخر سے کہتے ہیں اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے اور زندگی کے ہر پہلو وہ ہماری راہنمائی کرتا ہے۔ علامہ کا اقبال کا یہ شعر زبان زد عام ہے کہ
جلالِ پادشاہی ہو کہ جمہوری تماشا ہو
جْدا ہو دِیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی
گویا سیاست بھی دین میں شامل ہے۔ مذہب، سیاست، نظام مملکت، معیشت یہ سب دین کے گوشے ہیں۔ اس اعتبار سے اسلام جہاں فرقہ پرستی سے منع کیا اس سے مراد صرف مذہبی فرقہ واریت نہیں بلکہ سیاسی فرقہ واریت بھی اس میں شامل ہے۔ اگر مذہبی فرقہ واریت اسلامی تعلیمات کے منافی ہے تو سیاسی واریتاس سے مبرا نہیں بلکہ دین کو مذہبی فرقہ واریت کی بجائے سیاسی فرقہ واریت سے زیادہ نقصان ہوتا ہے۔ اس لئے دین اسلام نے صرف مذہبی فرقے بنانے سے منع نہیں کیا بلکہ ہر قسم کی فرقہ واریت سے منع کیا جس میں سیاسی جماعتیں بھی شامل ہیں۔ قرآن حکیم نے اپنے آیات میں ہر قسم کی فرقہ واریت سے باز رہنے کا حکم دیا ہے۔ ان آیات پر غوروفکرکے بعد ہر ذی شعور اسی نتیجہ پر پہنچے گا کہ ایک اسلامی ریاست میں قرآن حکیم کی واضح تعلیمات کی روشنی میں مروجہ سیاسی جاعتوں کے قیام کی گنجائش نہیں ہے۔
اس حوالے سے سورہ آل عمران کی آیت 103 میں ہے کہ ”اور تم سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ مت ڈالو، اور اپنے اوپر اللہ کی اس نعمت کو یاد کرو جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے تو اس نے تمہارے دلوں میں الفت پیدا کردی اور تم اس کی نعمت کے باعث آپس میں بھائی بھائی ہوگئے، اور تم آگ کے گڑھے کے کنارے پرتھے پھر اس نے تمہیں اس گڑھے سے بچا لیا، یوں ہی اللہ تمہارے لئے اپنی نشانیاں کھول کر بیان فرماتا ہے تاکہ تم ہدایت پا جاؤ“ اسی سورہ کی آیت 105 میں ہے کہ ”اور ان لوگوں کی طرح نہ ہو جانا جو فرقوں میں بٹ گئے تھے اور جب ان کے پاس واضح نشانیاں آچکیں اس کے بعد بھی اختلاف کرنے لگے، اور انہی لوگوں کے لئے سخت عذاب ہے“۔سورہ انعام کی آیت 159 پر غور فرمائیں، حکم ہوتا ہے کہ ”بیشک جن لوگوں نے (جدا جدا راہیں نکال کر) اپنے دین کو پارہ پارہ کر دیا اور وہ (مختلف) فرقوں میں بٹ گئے، آپ کسی چیز میں ان کے (تعلق دار اور ذمہ دار) نہیں ہیں، بس ان کا معاملہ اللہ ہی کے حوالے ہے پھر وہ انہیں ان کاموں سے آگاہ فرما دے گا جو وہ کیا کرتے تھے“ اب سورہ روم کی آیت 32 دیکھئے، ارشاد ہوتا ہے کہ ”اور نہ اْن لوگوں میں ہونا جنہوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اوراور وہ گروہ در گروہ ہو گئے۔ سب فرقے اسی سے خوش ہیں جو اْن کے پاس ہے“۔ اسی موضوع پر قرآن حکیم کی سورہ الشوریٰ کی آیت 13 کاابتدائی حصہ ملاحظہ فرمائیں، ”اس نے تمہارے لئے دین کا وہی راستہ مقرّر فرمایا جس کا حکم اس نے نوح (علیہ السلام) کو دیا تھا اور جس کی وحی ہم نے آپ کی طرف بھیجی اور جس کا حکم ہم نے ابراھیم اور موسٰی و عیسٰی (علیھم السلام) کو دیا تھا (وہ یہی ہے) کہ تم (اِسی) دین پر قائم رہو اور اس میں تفرقہ نہ ڈالو، مشرکوں پر بہت ہی گراں ہے“۔قرآن حکیم کے ان احکامات کے بعد گروہ بندی، فرقے، جماعتیں اور دھڑے بنانے کی قطعی اجازت نہیں،وہ مذہبی ہو،سیاسی، لسانی یا نسلی بنادوں پر۔ اس گروہ بندی کو مکتبہ فکر کہنا درسست توجیہہ نہیں بلکہ قرآنی تعلیمات سے انحراف ہے۔ ہم کیا کررہے ہیں اور ہماری تاریخ کیا ہے؟یہ ہمارے لئے حجت نہیں بلکہ ہمارے لئے حجت خدا کی آخری کتاب ہے۔
قرآن حکیم نے فرعون کا ایک بڑا جرم سورہ القصص کی آیت 4 میں یہ بیان کیا ہے کہ وہ اپنے لوگوں کو جماعتوں اور گروہوں میں تقسیم کرتا تھا۔گویا لوگوں کو گرہوں اور جماعتوں میں تقسیم کرنا فرعونی سیاست ہے اور اللہ تعالیٰ نے اس سے منع کیا ہے۔ ایک مفکر کا قول ہے کہ ہم اپنی سیاسی جماعتوں ے لئے جس قدر جھوٹ اور غلط کام کرتے ہیں وہی اگرذاتی زدگی میں کریں تو سب سے بڑے شیطان کہلائیں۔حقیقت یہی ہے ہر سیاسی جماعت کا رکن اپنی جماعت اور اپنے قائد کی ہر غلط بات کو بھی درست سمجھتا ہے اور مخالف جماعت کی اچھی بات کو نظر انداز کرتا ہے۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ گواہ ہے، سیاسی جماعتوں نے لوگوں کو تقسیم کردکے رکھ دیا اور ہر جماعت ایک دوسرے کے خلاف یوں بر سر پیکار ہے جسے وہ دشمن ہوں۔ الزامات، بہتان تراشیوں اور جھوٹے بیانات معمول بن چکے ہیں۔ یہ طرز عمل مذہبی فرقہ واریت سے بھی زیادہ سنگین ہے۔ اسلام میں دو ہی جماعتیں یا گروہ ہوتے ہیں، ایک حزب اللہ اور دوسرا حزب شیطان۔اب یہ سوال ضرور آئے گا نظام مملکت کیسے چلے گا اور کہ اگر سیاسی جماعتیں نہ ہوں گی توجمہوری نظام کس طرح سے کام کرے گا۔ اسلامی تعلیمات کی روشنی نظام مملکت عوام کی رائے سے جمہوری انداز میں ہی چلے گا اور عوام اپنے نمائندے منتخب کریں گے اور وہ منتخب نمائندے حکومت کے سربراہ کا نتخاب عمل میں لائیں گے۔ کچھ اہل فکر صدارتی نظام کواسلامی تعلیمات کے قریب سمجھتے ہیں۔ بہرحال اس ضمن میں ماہرین سیاست اور قانون ایسا طریقہ کار اور لائحہ عمل تجویز کرسکتے ہیں جو قرآن حکیم کی تعلیمات کی روشنی میں ہو۔